استخارہ کرنے کا شرعی اور مسنون طریقہ
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
’’استخارہ‘‘ لغت میں کسی سے کوئی خیر و بھلائی طلب کرنے کو کہتے ہیں ۔ اور اصطلاحِ شرع میں اُس نماز اور دُعاء کو کہتے ہیں جو کسی معاملے کے مفید یا مضر ہونے میں شک و تردّد پیدا ہوجانے کی صورت میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ ادا کی جائے ، تاکہ مطلوبہ معاملہ میں شک و تردّد زائل ہوکر اُس کا مفید اور مثبت پہلو سامنے آجائے ۔
استخارہ در حقیقت مشورے ہی کی ایک خاص نوع ہے ، کیوں کہ جس طرح مشورہ اپنے ابنائے جنس اور اقرآں و امثال (یعنی اپنے ہم عصر و ہم خیال لوگوں (رفیعؔ) سے اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ کسی معاملے میں شک و تردّد زائل ہوکر ایک مخصوص جانب متعین ہوجائے ، بالکل اسی طرح استخارہ بھی گویا اللہ تعالیٰ (جوکہ علیم و خبیر ہیں ) سے ایک قسم کا مشورہ ہی ہے تاکہ مطلوبہ معاملہ میں دو پہلوؤں میں سے ایک پہلو جو اللہ تعالیٰ کے علم میں آدمی کے حق میں بہتر اور خیر والا ہو وہ متعین ہوکرسامنے آجائے۔(استخارہ کی شرعی حیثیت:ص۵)
اس لیے کہ انسان خواہ کتناہی عاقل و زیرک اور تجربہ کار کیوں نہ ہو جائے بہر حال اپنی رائے اور فکر میں غلطی کا احتمال رکھتا ہے ، فائدہ مند چیز کو ضرر رساں اور ضرر رساں چیز کو فائدہ مند سمجھ بیٹھتا ہے ۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ترجمہ:ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو اور وہی چیز تمہارے حق میں بہتر ہو ، اور ایک چیز کو تم اچھا سمجھو اور وہی تمہارے حق میں بری ہو۔‘‘(البقرۃ:۲۱۶)
اسلامی تعلیمات کے جو روشن اور گراں مایہ اُصول انسان کی دُنیا و آخرت اور معاش و معاد کی درُستی کے کفیل ہیں ٗ استخارہ بھی انہیں میں سے ایک مسنون زرّیں اُصول ہے ۔
چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے :’’ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام کاموں میں استخارہ کرنے کی تعلیم اس طرح ارشاد فرماتے تھے جس طرح قرآنِ مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے۔(بخاری:۸/۸۱ ، ترمذی: ۲/۳۴۵)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے : ’’ترجمہ: حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی پاک ا نے ارشاد فرمایا کہ : ’’بندہ کا اپنے رب سے استخارہ کرنا اور اُس کے فیصلہ پر راضی رہنا اُس کی نیک بختی میں سے ہے ۔ اور بندہ کا اپنے رب سے استخارہ نہ کرنا اور اُس کے فیصلہ پر راضی نہ رہنا یا فیصلہ کے بعد راضی نہ رہنا اُس کی بدبختی میں سے ہے۔(مسند بزار: ۳/ ۳۰۵)
ایک اور حدیث میں آتا ہے :’ترجمہ: حضرت ابن مسعو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سوائے استخارہ اور تشہد کی احادیث کے اور کوئی حدیث نہیں لکھتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۲۶۲)
اندازہ لگایئے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ’’استخارہ‘‘ کی کس قدر اہمیت و افادیت تصور کی جاتی تھی؟۔
ایک حدیث میں آتا ہے : ’’ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے استخارہ کیا ناکام نہیں ہوا اور جس نے (کسی سے) مشورہ طلب کیا وہ پشیمان نہیں ہوا۔یعنی جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا ۔ اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہوں وہ کبھی نادم اور پشیمان نہیں ہوگا کہ میں نے یہ کام کیوں کرلیا یا میں نییہ کام کیوں نہیں کیا؟ اس لیے کہ جو کام کیا وہ مشورہ کے بعد کیا اور اگر نہیں کیا تو مشورہ کے بعد نہیں کیا ، اس وجہ سے وہ نادم نہیں ہوگا ۔ (مجمع الزوائد:۲/۲۸۰)
اس حدیث میں یہ جو فرمایا کہ : ’’استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوگا ۔ ‘‘مطلب اس کا یہی ہے کہ انجام کار استخارہ کرنے والے کو ضرور کامیابی ملے گی ، چاہے کسی موقع پر اُس کے دل میں یہ خیال بھی آجائے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ، لیکن اس خیال کے آنے کے باوجود کامیابی اسی شخص کو ہوگی جو اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا ہے ۔ اور جو شخص مشورہ کرکے کام کرے گا وہ پچھتائے گا نہیں ، اس لیے کہ بالفرض اگر وہ کام خراب بھی ہوگیا تو اس کے دل میں اس بات کی تسلی موجود ہوگی کہ میں نے یہ کام اپنی خود رائی سے اور اپنے بل بوتے پر نہیں کیا تھا بلکہ اپنے دوستوں اور بڑوں سے مشورہ کرنے کے بعد کیا تھا ، اب آگے اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے کہ وہ جیسا چاہیں فیصلہ فرمادیں ۔ اس لیے اس حدیث میں دو باتوں کا مشورہ دیا ہے ۔ ایک یہ کہ جب بھی کسی کام میں کشمکش ہو تو دوکام کرلیا کرو! ایک استخارہ (یعنی اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی کا مطالبہ) کرلیا کرو!اور دوسرے استشارہ (یعنی بندوں سے) مشورہ کرلیا کرو!۔ (استخارہ کا مسنون طریقہ: ۱۵،۱۶)
استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ باوضو ہوکر دن رات میں سوائے مکروہ اوقات (طلوعِ شمس ، نصف النہار اور غروبِ آفتاب) کے علاوہ کسی بھی وقت استخارہ کی نیت سے دو رکعت نمازپڑھے ، اور اس کے بعد خوب دل لگا کر یہ دُعاء مانگے:’’اے اللہ! میں تیرے علم کے وسیلہ سے تجھ سے بھلائی مانگتا ہوں ۔ اور تیری قدرت کے واسطہ سے (نیک عمل کرنے کی ) تجھ سے قدرت مانگتا ہوں ۔ اور میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں ، کیوں کہ تو ہی (ہر چیز پر) قادر ہے ۔ میں (تیری مرضی کے بغیر کسی چیز پر ) قادر نہیں ہوں ، تو (سب چیزوں کو ) جانتا ہے ، میں کچھ نہیں جانتا ، اور تو پوشیدہ باتوں کو بھی جاننے والا ہے ۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یعنی مقصد) میرے لیے میرے دین میں ، میری دُنیا میں ، میری زندگی اور میری آخرت میں یا ( راوی کو اس میں شک ہے ) اِس جہان (یعنی دُنیا) میں اور اُس جہان (یعنی آخرت) میں بہتر ہے تو اسے میرے لیے مہیا فرمادے ، اور اسے میرے لیے آسان فرمادے ، پھر اس میں میرے واسطے برکت دے ۔ اور اگر تو اِس امر (یعنی میرے مقصد اور میری مراد ) کو میرے دین ، میری زندگی اور میری آخرت میں ، یا فرمایا اِس جہان اور اُس جہان میں برا جانتا ہے تو مجھے اُس سے اور اُسے مجھ سے پھیر دے ، اور میرے جہاں بھلائی ہو وہ مہیا فرما! ، پھر اس کے ساتھ مجھے راضی کر !۔‘‘ (صحیح بخاری:۸/۱۸)
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود استخارہ کرنے والے کے دل کا رجحان ایک طرف ہوتا ہے ، سو! جس طرف رجحان ہوجائے آدمی وہ کام کرلے ، اور بکثرت ایسا رجحان ہوجایا کرتا ہے ، لیکن اگر بالفرض استخارہ کرنے کے بعد آدمی کا رجحان کسی ایک طرف نہ ہو سکے اور دل میں کشمکش اور تذبذب موجود ہو تو تب بھی استخارہ کرنے کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے ، اس لیے کہ استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ بندہ کے لیے وہی کام کرتے ہیں ۔ جو اُس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، اور اس کے بعد قدرتی طور پر حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ پھر وہی ہوکر رہتا ہے جس میں بندہ کے لیے بھلائی اور بہتری ہوتی ہے ۔
حضرت مکحول ازدی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ۱؎میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ بعض اوقات انسان اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر ہو وہ کام ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے وہ کام اختیار فرمادیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو بندہ اپنے پروردگار سے ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تو یہ کہا تھا میرے لیے اچھا کام تلاش کیجئے لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، اس میں میرے لیے تکلیف اور پریشانی ہے ، لیکن کچھ عرصہ بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے میرے لیے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا ۔ اس وقت اس کو پتہ نہیں تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا صحیح ہونا بعض اوقات دُنیا میں ظاہر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات دُنیا میں تو ظاہر نہیں ہوتا لیکن آخرت میں ضرور ظاہر ہوگا۔
اب جب وہ کام ہوگیا تو ظاہری اعتبار سے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، دل کے مطابق نہیں ہے ، تو بندہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا ہے کہ یا اللہ! میں نے آپ سے استخارہ کیا تھا ، مگر کام وہ ہوگیا جو میری مرضی اور طبیعت کے خلاف ہے اور بظاہر یہ کام اچھا معلوم نہیں ہورہا ۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمارہے ہیں کہ : ’’ارے نادان! تو اپنی محدود عقل سے سوچ رہا ہے کہ یہ کام تیرے حق میں بہتر نہیں ہوا ، لیکن جس کے علم میں ساری کائنات کا نظام ہے وہ جانتا ہے کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور کیا بہتر نہیں تھا ، اُس نے جو کیا وہی تیرے حق میں بہتر تھا ۔ بعض اوقات پوری زندگی میں کبھی پتہ نہیں چلے گا ، جب آخرت میں پہنچے گا تب وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ واقعی یہی میرے لیے بہتر تھا ۔‘‘
الغرض انسان کسی طرح بھی اپنی محدود عقل سے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کا ادراک کرسکتا ہے ؟ وہی جانتا ہے کہ کس بندہ کے حق میں کیا بہتر ہے؟ انسان صرف ظاہر میں چند چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو برا ماننے لگتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ کس کے حق میں کیا اور کب بہتر ہے؟۔