ایم کیو ایم اور تحریک انصاف اپوزیشن لیڈر کیوں نہیں لاسکیں؟
شیئر کریں
ایک وقت تھا جب کراچی میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتاتھا۔ عمران خان نے الطاف حسین کے خلاف کھل کر بولنا شروع کیا تو ایم کیو ایم کے کارکن اوررہنما مشتعل ہوگئے اورانھوں نے جوابا چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف بیابات دیناشروع کردیئے ایک بارتوایم کیوایم کے کارکنوں کے احتجاج کے باعث کراچی ایئر پورٹ سے عمران خان کوواپس لاہور جانا پڑا تھا۔ یہ وہ دورتھا جب الطاف حسین کراچی کے کرتادھرتا تھے۔ ان کے اشارے کے بغیر کراچی میں چڑیابھی پرنہیں مارسکتی تھی۔ایک کال پر پورا شہر بند ہو جاتا تھا ۔ ہڑتال کے دوران جلائو گھیرائو اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجانا معمول تھا۔ یہ وہ دورتھا جب ریاست بھی اس ساری کارروائیوں کودیکھنے کے باوجودخاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ جب بھی عام انتخابات ہوتے ایم کیوایم کے نامزد امیدوارصرف کراچی سے ہی نہیں سندھ کے شہری علاقوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے ۔کئی مخالفین کی ضمانتیں تک ضبط ہوتی دیکھی گئیں۔
ایم کیوایم کی کامیابی کومبینہ طورپرٹھپہ مافیاکارگردگی کہاجاتا تھا۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کا انتخاب ہو یا بلدیاتی الیکشن ایم کیوایم کی ٹھپہ مافیااپنے امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے الیکشن والے دن رات بارہ بجے مصروف ہوجاتی تھی نتیجہ ایم کیو ایم کے امیدواروکولاکھوں ووٹوں کی صور ت میں نکلتاتھا۔لیکن 2013ء کے عام انتخابات میں عمران خان نے ڈیفنس ‘کلفٹن کی نشست پرڈاکٹرعارف علوی کوٹکٹ دیاجنھوں نے یہاں سے کامیابی سمیٹ کرعمران خان کی جھولی میں ڈال دی۔ الطاف حسین اوران کی پارٹی کویہ شکست ہضم نہیں ہوئی ۔تحریک انصاف اورایم کیوایم میں مخالفت مزید بڑھنے لگی۔اسی دوران پی ٹی آئی کی خاتون رہنما ڈاکٹرزہرہ شاہدکوان کے گھرکے باہرقتل کردیاگیا۔ جس کے بعد عمران خان نے پہلی باربراہ راست اس قتل کاالزام بانی ایم کیوایم الطاف حسین پرلگایا۔ جسے ایم کیوایم کے مقامی رہنمائوں فاروق ستار‘حیدرعباس رضوی ودیگرنے ایک پریس کانفرنس کے دوران سختی سے مستردکردیا۔اس معاملے پردونوں جماعتوں میں موجودتلخیاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئیں۔تاہم پولیس نے زہرہ شاہد کے قتل کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کیا جن کاتعلق ایم کیوایم سے ہی ہے ۔ ان کے خلاف مقدمات زیرسماعت ہیں ۔ عدالتوں سے فیصلہ آنا باقی ہے۔
22 اگست کوپریس کلب کے باہراحتجاج کے دوران الطاف حسین کی متنازعہ تقریرکے بعدایم کیوایم واضح طورپردوگروپو ں میں تقسیم ہوگئی۔ اس حوالے سے یہاں تذکرہ کرنا معاملے کوطول دینے کے مترادف ہوگا۔ قارئین سارے معاملات سے اخبارات والیکٹرانک میڈیاکے ذریعے مکمل طورپرآگا ہ ہیں۔ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی لوگ آج جیلوں میں بندہیں ان کودونوں گروپ اپناکارکن کہتے ہیں ۔ لیکن جب بھی کہیں سے اسلحہ برآمد ہوتاہے یاکوئی بدنام ملزم پکڑاجاتاہے تواسے صرف اورصرف ایم کیوایم لندن کا ظاہر کیا جاتا ہے ۔
ایک جانب توایم کیوایم کے خلاف فورسزکا آپریشن جاری تھا۔ دوسری جانب عمران خان اپنے بیانات کے بائونسر بھی الطاف حسین کوکراتے رہے ۔ جس سے دونوں جماعتوں کی کشیدگی عروج پرہی رہی ،لیکن اچانک عمران خان کے دل میں اپنی جماعت سے قومی اسمبلی قائدحزب اختلاف لانے کی خواہش جاگ اٹھی تو انھوں نے پینترابدلااورایم کیوایم پاکستان کی جانب دوستی ہاتھ بڑھادیا۔اورقومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے تعاون مانگ لیا۔ اور شاہ محمودقریشی کوفاروق ستارسے ملاقات کے لیے کراچی بھیج دیا ۔ دونوں رہنمائوں کی ملاقات کے دوران جہاں دونوں جماعتوں میں دوستی کی فضانظرآئی وہیں۔ اپوزیشن لیڈری کی تبدیلی کے لیے معاملات بھی طے ہوئے ۔اورقومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے اسپیکرکودرخواست دینے کافیصلہ ہوا۔ لیکن دونوں جماعتوں کے کارکنوں اوررہنمائوں میں تلخیاں اس قدر موجودتھیں کہ وہ کسی طورمخالفین سے اتحادپرآمادہ نظرنہیں آتے تھے ۔ خودایم کیوایم اورتحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی بھی ایک دوسرے کی جماعت کے امیدوارکوووٹ دینے پر تیار نظر نہیں آتے تھے اس لیے جب فاروق ستار اور عمران خان نے اپنے کارکنوں اور اراکین اسمبلی کارویہ دیکھا تو خود ہی ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے اور خورشید شاہ اوران کی جماعت نے سکھ کاسانس لیا۔
دوسر ی جانب ایم کیوایم اورتحریک انصاف کوقومی اسمبلی میں اپناقائد حزب اختلاف لانے کے لیے مطلوبہ عددی اکثریت بھی حاصل نہیں تھی۔ ان کے بارہ اراکین پہلے ہی اپنی قیادت کاساتھ نہیں تھے اس لیے ایوان میں قائدحزب اختلاف کی تبدیلی کی تحریک کامیاب ہونابھی ممکن نہ تھا۔ دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی دیگراپوزیشن جماعتوں سے رابطے بڑھادیئے تھے ۔اس کے لیے آصف زرداری خوداسلام آبادمیں آکر بیٹھ گئے ۔ انھوں نے اپنی جماعت کے رہنمائوں کوقائدحزب اختلاف کی نشست بچانے کے لیے متحرک رکھا‘ پیپلز پارٹی نے مولانافضل الرحمان ‘نوازشریف سمیت تمام بڑے چھوٹے رہنمائوں سے رابطے کیے۔ جے یوآئی (ف)، پختونخوا میپ، اے این پی، قومی وطن پارٹی اور فاٹا کے اراکین نے اس معاملے پر پیپلز پارٹی کاساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حلیف جماعت اسلامی نے بھی خورشیدشاہ کوحمایت کی یقین دہانی کراکے عمران خان کے اپناقائدحزب اختلاف لانے کے ارمان ٹھنڈے کرا دیئے ۔آئندہ کیا ہو گا یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گا۔