مضبوط دفاع کے لیے مضبوط اور مستحکم معیشت ضروری ہے
شیئر کریں
کراچی میں ملکی معیشت کے حوالے سے ایک سیمینار ہوا جس میں ملک کے 3 سابق وزرائے خزانہ بھی موجود تھے۔ مذکورہ سیمینار میںپاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ حکومت کو معیشت پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ پاکستان کی معاشی صورت حال اگر بہت بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے جبکہ مضبوط دفاع کے لیے مضبوط اور مستحکم معیشت ضروری ہے ۔ پاک فوج کے سربراہ کے اس بیان پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال نے امریکا سے ایک بیان جاری کیا اورنجی ٹی وی سے گفتگو اور امریکا میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب میں کہا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہئے‘ پاکستان کی معیشت مستحکم ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کا بیان نامناسب ہے۔ غیرذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت 2013کے مقابلے میں بہتر ہے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ایسی بات ہمارا کوئی دشمن کہے تو کہے لیکن ہم خود ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا شیخ رشید جیسے شخص کے بیان اور ذمہ دار سرکاری عہدے دار کے بیان میں فرق ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ہی سے پاک فوج اور سول حکمرانوں میں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے بالکل غیر ضروری بحث شروع ہوگئی ہے جس نے مناظرے کی سی شکل اختیار کرلی ہے۔ ایک طرف سے بیان آتا ہے تو دوسری طرف سے جواب آجاتاہے۔ فوج کی طرف سے اس سے پہلے کبھی معیشت کے حوالے سے تجزیے سامنے نہیں آئے۔ اس اعتراض پر ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل آصف غفورکا جواب آیا ہے کہ ہر پاکستانی کو معیشت کے بارے میں بات کرنے کا حق ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ کوئی بیان ذاتی نہیں پوری فوج کا مؤقف ہوتا ہے، میں نے نہیں کہا کہ معیشت غیرمستحکم ہے، اگر سیکورٹی اچھی نہیں ہو گی تومعیشت بھی اچھی نہیں ہوگی، مضبوط ملک بننے کے لیے سب کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔ کراچی میںمعیشت پر سیمینار میں 3 سابق وزرائے خزانہ، سینیٹرز اور ماہرین معیشت بھی شریک تھے ۔ ترجمان پاک فوج نے وزیر داخلہ کے ردعمل کے جواب میںکہا کہ جمہوریت کو پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں، اگر جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ جمہوریت کے جو تقاضے ہیں انہیں پورا نہ ہونے اور عوام کی امنگوں سے ہوسکتا ہے، ہم آئین و قانون کے مطابق اور ملک کے لیے جو بہتر ہو گا کام کریں گے، کوئی ایسا کام نہیں ہوگا جو آئین و قانون سے بالا تر ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ملک نے ترقی کرنی ہے تو ہر چیز کا استحکام ضروری ہے، حکومت کا چلنا بھی ضروری ہے، یہ ایک منتخب جمہوری حکومت ہے، آرمی چیف کا تقرر بھی منتخب حکومت کرتی ہے اور آپریشنز کی منظوری بھی حکومت ہی دیتی ہے، فوج کوئی فیصلہ خود نہیں کرتی، ریاست کے ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، فیصلہ حاکم وقت کا ہوتاہے۔ سندھ میں رینجرز آپریشن حکومت کی منظوری سے ہوا، پنجاب میں رینجرز کا آپریشن اس وقت تک نہیں ہوا جب تک سویلین حکومت نے اس پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اختلافات نہ ہوں، خواہ وہ ادارے کے درمیان ہی کیوں نہ ہوں، وہ ہوتے ہیں اور رہتے ہیں۔کیپٹن (ر) صفدر
کے بیان پر پوچھے گئے سوال پر آصف غفور نے کہا کہ اس پر بات ہوچکی ہے اس لیے اب کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ سے متعلق انہوں نے کہا کہ فوج ایک بہت بڑا ادارہ ہے، اس میں ایک نظام چلتا ہے اور سختیاں بھی ہوتی ہیں، رضوان اختر نے ذاتی طور پر ریٹائرمنٹ کی درخواست کی تھی اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہے، فوج میں ہر سال افسران ریٹائرڈ ہوتے ہیں، اسے کسی اور تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ملک میں فیصلہ سازی میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں اگر ہم تجویز دیں وہ نہ مانیں تو ہمیں مسئلہ ہو، قومی سطح کے فیصلوں کا اختیار وزیراعظم کو ہوتا ہے اور وزیراعظم پاکستان فیصلے کررہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمیں اس ملک کو آگے لے کر چلنا ہے جو چیزیں ہیں انہیں مزید بڑھاوا دینے کے بجائے ٹھنڈا کرنا چاہیے۔ میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے جو کہا میں اس پر قائم ہوں۔ جہاں تک ترجمان کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے عالمی ساکھ متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو کیا معیشت کے حوالے سے پاکستان کی ایسی ساکھ ہے جو متاثر ہوسکتی ہے۔ کس کو نہیں پتہ کہ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ گزشتہ 4سال میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے قرض لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے کہاں گئے ، ان کا استعمال کہاں ہوا اور ان سے ملک اور عوام کو کیا فائدہ پہنچا، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ حال یہ ہے کہ قرضوں کا سود چکانے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے مزید قرضے چڑھائے جارہے ہیں اور جب ان کی ادائی کا وقت آئے گا تو قرض لینے والے جانے کہاں ہوں گے۔ عوام کی گردن میں پھندا کستا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سود خور ادارے اگر مزید قرضے دینے کا وعدہ کرلیں تو خوشی سے بغلیں بجائی جاتی ہیں کہ یہ ہماری معیشت پر اعتبار کا ثبوت ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس خیال سے عدم اتفاق ممکن نہیں کہ معیشت اور دفاع کاچولی دامن کاساتھ ہے بلکہ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ملک کے استحکام کی بنیاد بھی معیشت ہے کون نہیں جانتااور کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت میں کمزور معیشت نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ اس طرح یہ بھی غلط نہیں کہ سیاسی عدم استحکام معیشت کو کمزور کرتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے وزیر داخلہ احسن اقبال اور دیگر وزرا اور لیگی رہنمائوں کو اس حوالے سے بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے ملکی معیشت کومستحکم کرنے اور قرضوں پر قرض حاصل کرکے ملکی معیشت کو مستحکم ثابت کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے ایوان وزیر اعظم ، ایوان صدر اور وزرا کے اللوں تللوں پر خرچ ہونے والے بھاری اخراجات پر کنٹرول کرنے اور یہ رقم عوام کی بہبود پر لگانے پر توجہ دینی چاہئے،انھیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہماری منتخب حکومت کے وزرا کو یہ زیب دیتاہے کہ جس ملک میں 60فیصد سے زیادہ لوگوں کوپینے کاصاف پانی میسر نہ ہو وہ ایک ایک درجن سرکاری گاڑیوں کے قافلے میں سفر کریں اور ان کے سڑک پر نکلتے ہی سڑکوں پر عام آدمی کی آمدورفت ممنوع قرار دیدی جائے ، کیا انھیں اس طرح زندگی گزارتے اور پھر عوام کی بہبودکی باتیں کرتے ہوئے ذرہ برابر شرم نہیں آتی۔پاک فوج کو تنقید کانشانا بنانے سے قبل ہمارے منتخب نمائندوں کو خود اپنی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے تاکہ کسی کو ان کے اقوال افعال میں تضاد سامنے لانے کا موقع نہ مل سکے ۔امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار پاک فوج کو مطعون کرنے کی کوششیں کرنے کے بجائے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی اصلاح پر توجہ دیں گے۔