سی پیک ،پاک چین اور روس اتحاد کی بنیاد ثابت ہوسکتاہے
شیئر کریں
ذوالفقارعلی بھٹونے پاکستان اورروس کے درمیان حائل دوریاں ختم کیں‘ضیاء الحق نے حکومت کاتختہ الٹ کرمعاملہ ہی الٹ دیا
ضیاء دور میں پاکستان نے امریکاکاساتھ دے کرپاک روس تعلقات کی تلخیوں میں مزید اضافہ کیا‘سی پیک کی بدولت جمودٹوٹ رہاہے
سی پیک میں شمولیت سے جہاں روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی کوششیں بارآوورثابت ہونگی ‘وہیں امریکاکے مقابل نیا اتحادتشکیل پائے گا
پاکستانی منصوبہ سازموجودہ صورت حال کافائدہ اٹھاکرباربارپیٹھ میں چھراگھونپنے والے امریکاسے جان چھڑانے کی حکمت عملی بناسکتے ہیں
شہلاحیات نقوی
پاک روس دوستی کبھی بھی ایسی نہیں رہی جسے مثالی کہاجاسکے ،ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں روس اورپاکستان کے درمیان دوریاں ختم کرنے کی کوششیں کیں اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے لیکن ان کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ جمانے والے آمر جنرل ضیاالحق نے افغان تنازعہ میں امریکا کاساتھ دے کر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے کی گئی کوششوں پر پانی پھیر دیااور پاک روس تعلقات ایک دفعہ پھر جمود بلکہ تلخیوں کاشکارہوگئے،لیکن گزشتہ دو برسوںکے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات پر طاری یہ جمود ٹوٹنا اور برف پگھلنا شروع ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ دونوں ملکوں کو رہنمائوں کو باہمی دوستی اور تعاون کی اہمیت کاکسی حد تک اندازہ ہوگیاہے،خاص طورپر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعددونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور تعاون کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے ۔
چین کے رہنما ژی جی پنگ کی جانب سے سی پیک منصوبے کوون روڈ ون بیلٹ کے تصور میں بدل دیئے جانے سے چینی رہنما کی فراست کااندازہ ہوتاہے اور اس سے ظاہرہوتاہے کہ کوئی دور اندیش رہنما کس طرح اپنے خیالات کو عملی شکل دے سکتاہے۔شنگھائی تعاون کونسل کی رکنیت ملنے کے بعد پاکستان بڑی حد تک روس کے قریب آگیاتھا اور اس وقت سے علاقے میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے تھے۔
جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں عام طورپر پایاجانے والا یہ خیال کہ یہ محض سڑکوں اورپلوں کے ایک ایسے جال کانام ہے تو مختلف ممالک کو آپس میں ملانے اور فاصلے کم کرنے کا ذریعہ ہے مکمل طورپر درست نہیں ہے کیونکہ سی پیک صرف شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس میں راستے میں آنے والے علاقوں میں مختلف صنعتوں اور پراجیکٹس کی تعمیر اور قیام شامل ہے جس کا اندازہ پاکستان میں بجلی کے مختلف منصوبوں کے سی پیک سے تعلق سے لگایاجاسکتاہے۔
سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جس نے پاکستان اور چین کے درمیان انفرااسٹرکچر ،انرجی اور زراعت کے مختلف پراجیکٹ میں باہمی تعاون کی بنیاد فراہم کی اور سی پیک کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں انفرااسٹرکچر کی بحالی کے ساتھ ایسے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ بعض منصوبے قبل از وقت ہی تکمیل کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اور عنقریب ان کا افتتاح یقینی نظر آنے لگاہے۔یہ خبریں بھی ملی ہیں کہ کوریڈور سے تیل کی ایک پائپ لائن بھی گزاری جائے گی جس کے ذریعہ یومیہ 10 لاکھ بیرل تیل چین کوپہنچایاجاسکے گا۔یہ چین کے لیے ایک بہت بڑی سہولت کی فراہمی کا ذریعہ ہوگا کیونکہ چین کو فی الوقت اپنی تیل کی ضروریات کی تکمیل کے لیے مختلف ممالک سے کم وبیش 8 ملین یعنی 80 لاکھ بیرل تیل درآمد کرنا پڑتاہے اور اس کی نقل وحمل کے لیے چین کو بھاری رقم خرچ کرنا پڑتی ہے اس طرح کی پائپ لائن کی تنصیب سے چین کو تیل کی فراہمی آسان بھی ہوجائے گی اس میں کسی طرح کی رکاوٹ اور خلل پڑنے کا امکان بھی نہیں ہوگا دوران ترسیل تیل کے ضائع ہونے کا خدشہ نہیں رہے گا اور تیل کی ترسیل پر اخراجات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائیںگے۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا سی پیک منصوبے سے پاکستان کو بھی کچھ فائدہ ہوگا اور اس منصوبے کے تکمیل کے بعد اس پر آنے والی لاگت کی رقم چین کو کس طرح ادا کی جائے گی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سی پیک سے خود چین کو اتنے زیادہ فوائد حاصل ہوں گے کہ چین اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو خوشی خوشی برداشت کرنے کو تیار ہوجائے گابلکہ تیار ہے۔تاہم پاکستان کو سی پیک کے تحت مکمل کئے جانے والے متعدد منصوبوں کی لاگت بہر طورسود کے ساتھ ادا کرنا ہوگی اور اس پر پاکستان کی حکومت او ر عوام کا پریشان ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
اس بات کابار بار دعویٰ کیاجارہاہے کہ سی پیک کا یہ منصوبہ اس پورے خطے کی تاریخ بدلنے کی بنیاد بنے گا اوریہ حقیقی معنوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیا کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔اس بات کا بھی خدشہ ظاہرکیاجارہاہے کہ بھارت سی پیک کے خلاف محاذ آرائی شروع کردے گا اور منصوبے کے مطابق اس کومکمل کرنے کی راہ روکنے کی کوشش کرے گا یہ خدشہ اپنی جگہ بے بنیاد نہیں ہے بلکہ پاکستان کے خلاف بھارت کی حالیہ محاذ آرائی کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر اس کی فوجوں کی چھیڑ چھاڑ اسی منصوبے کی کڑیاں ہیں دراصل بھارت پاکستان کو اشتعال دلاکر جنگ چھیڑنے پر مجبور کرنا چاہتاہے تاکہ پاکستان کی پوری توجہ سرحدوں کی حفاظت کی جانب مبذول ہوجائے اور سی پیک پر کام رک کر رہ جائے،لیکن بھارت اس ضمن میں کوئی بڑی فوجی کارروائی کرنے کامتحمل نہیں ہوسکتا،کیونکہ سی پیک منصوبہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تعاون کامنصوبہ نہی ہے بلکہ اس میں اس خطے کے متعدد دیگر ممالک بھی شامل ہیں اس لیے بھارت کو اس منصوبے کے خلاف محاذ آرائی سے قبل یہ دیکھنا ہوگا کہ اس میں مزید کتنے ملک شامل ہیں ،اس منصوبے میں شامل ممالک فوجی اعتبار سے کتنے مضبوط ہیں اور ان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی نوعیت کیاہے۔ظاہر ہے کہ بھارت اتنے سارے ممالک کے خلاف کھڑانہیں ہوسکتا اور اس پراجیکٹ کے خلاف محاذ آرائی کے ذریعے اتنے ملکوں کی مخالفت مول لینے کی غلطی کبھی نہیں کرے گا۔
جہاںتک روس کاتعلق ہے تو یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ روس کے ساتھ بھارت کے قریبی دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں روس سرفہرست ہے۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا روس بھارت کے ساتھ قریبی مراسم اور گہرے تجارتی فوجی تعلقات کے باوجود بھارت کے دو بنیادی دشمن چین اور پاکستان کے ساتھ سی پیک معاہدے میں شامل ہوجائے گا، تو اس حوالے سے اب تک جو حقائق سامنے آرہے ہیں اور جو اشارے ملے ہیں ان سے ظاہرہوتاہے کہ روس بھارت کو پیچھے چھوڑ کر اس معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ہے خاص طوپرامریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد اب امریکا کے مقابلے ایک بڑا اتحاد قائم کرنا وقت کی ضرورت بن چکاہے اور روس اور چین کااپنا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اس خطے کے دیگر ممالک کو ملاکر ایک ایسا اتحاد قائم کریں جو امریکا کی جانب سے روس اور چین کو گھیرنے کی پالیسی کو ناکام بناسکے۔یہ وہ صورت حال ہے جس نے اس خطے میں پاکستان کی اہمیت دوچند کردی ہے،اور اس بات کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں کہ روس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کوعروج پر لے جانے کی کوشش کرے گا اور سی پیک معاہدہ پاک، روس اورچین کے درمیان ایک نئے اور مضبو ط اتحاد کی صورت میں سامنے آئے گا،اس امکان کی اہمیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے پاکستان کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان کے بعد جب پاکستان نے امریکا کے سامنے جھکنے اور منانے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے نظر انداز کرکے روس اور دیگرممالک کے دورے کے پروگرام کااعلان کیاتو امریکا کے غبارے سے ہوانکل گئی اور اہم امریکی رہنما وضاحتوں کے لیے پاکستان کی طرف دوڑ پڑے لیکن پاکستان کی جانب سے ان سے ملنے سے انکار نے امریکی منصوبہ سازوں کے صفوں میں کھلبلی مچادی۔
روس کے پاکستان کے قریب آنے اور سی پیک کاحصہ بننے کے امکانات کااندازہ اس طرح بھی لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ دنوں روس کی انٹیلی جنس کے سربراہ الیگزنڈر بگدانوف نے گوادر کی بندرگاہ کا دورہ کرنے کے بعد چین اورپاکستان کے ساتھ سی پیک کاحصہ بننے کی خواہش کابرملا اظہار کیاتھا،روس کی جانب سے سی پیک کاحصہ بننے کی اس خواہش کاایک بڑا سبب گوادر کی بندرگاہ بھی ہے ۔سی پیک کاحصہ بن جانے کے بعد روس کی اس بندرگاہ تک رسائی آسان ہوجائے گی جبکہ روس طویل عرصے سے گرم پانی تک رسائی کی راہیں تلاش کرتارہاہے۔اس سے اس خطے میں روس کے جنگی اخراجات میں کمی آئے گی اور مختلف ممالک تک اس کی رسائی زیادہ آسان ہوجائے گی۔
روس کے رہنما پاک بھارت تعلقات کی نوعیت اور دونوں ملکوں کے درمیان میں تلخیوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی بھارتی رہنمائوں کوبوکھلا کررکھ دے گی لیکن بھارتی رہنمائوں کی جانب سے امریکا کی جانب حالیہ جھکائو اس خطے کے حوالے سے امریکی پالیسی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسیوں اور سی پیک سے ہونے والے متوقع فوائد،افغانستان سے وابستہ روس اور پاکستان کے مفادات، افغانستان میں داعش کی مبینہ موجودگی کے امکانات جو افغانستان سے بآسانی روس کی پڑوسی اور زیر نگیں ریاستوں تک پہنچ سکتے ہیں، روس کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر مجبور کرسکتے ہیں اور اس طرح اس خطے میں پاک ،چین روس اتحاد کے وجود میں آنے کے امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتا۔
اب دیکھنایہ ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز ان امکانات سے فائدہ اٹھانے اور بار بار پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے امریکا سے جان چھڑانے کے لیے کیاحکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اور پاک چین روس اتحاد اس خطے اور خاص طورپر پاکستان کی قومی سلامتی وخودمختاری کے دفاع اور پاکستان کے عوام کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہوسکتاہے۔