میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین ص

سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین ص

ویب ڈیسک
منگل, ۲۶ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

(پانچویں قسط:)
نماز ادا کرلینے کے بعد امام حسین صنے پھر قتال شروع کردیا، اب یہ لوگ آپ تک پہنچ چکے تھے ، حنفی آپ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور سب تیر اپنے بدن پر کھاتے رہے ، یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گرگئے ، زہیر بن القین صنے آپ کی مدافعت میں سخت قتال کیا، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے ۔ اس وقت امام حسینص کے پاس بجز اپنے چند گنے چنے رفقاء کے اور کوئی نہ رہا تھا اور بچے کھچے رفقاء بھی خوب اچھی طرح سمجھ گئے کہ اب ہم نہ امام حسین صکی جان بچا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی جان ، اس لئے ہر شخص کی خواہش یہ ہوئی کہ میں امام حسینص کے سامنے سب سے پہلے شہید کیا جاؤں ، اس لئے ہر شخص نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر تا رہا ، اسی میں امام حسین صکے بڑے صاحب زادے (بلکہ بڑے شہزادے) علی اکبریہ شعر پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے جس کا ترجمہ ہے : ’’ میں حسین بن علیص کا بیٹا ہوں ، رب کعبہ کی قسم! ہم اللہ کے رسول ا کے بہت قریب ہیں۔‘‘اتنے میں مرہ بن منقذ آگے بڑھا اور ان کو نیزہ مار کر زمین پر گرادیا ، پھر کچھ اور بدبخت آگے بڑھے اور لاش مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔ امام حسین صلاش کے قریب تشریف لائے اور کہا : ’’اللہ تعالیٰ اس قوم کو برباد کرے جس نے تجھ کو قتل کیا ہے ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کیسے بے وقوف ہیں ، تیرے بعد اب زندگی پر خاک ہے۔‘‘اس کے بعد ان کی لاش اٹھا کر خیمہ کے پاس لائی گئی ۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسن صکے بیٹے قاسم بن حسن صکے سر پر تلوار ماری جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور ان کے منہ سے نکلا : ’’ہائے میرے چچاحسینص‘‘۔ امام حسین صنے بھاگ کر ان کو سنبھالا اور عمرو بن سعد پر تلوار سے جوابی وار کیا جس سے کہنی تک اس کا ہاتھ کٹ گیا ۔اس کے بعد امام حسینص اپنے بھتیجے قاسم بن حسن صکی لاش اپنے کندھے پر اٹھا کر لائے اور اپنے بیٹے اور دوسرے اہل بیت کی لاشوں کے قریب لاکر رکھ دی۔
اب امام حسینص تقریباً تن تنہا اور بے یار و مددگار رہ گئے تھے، لیکن ان کی طرف بڑھنے کی کسی کو ہمت نہیں ہورہی تھی ، کافی دیر تک یہی کیفت رہی کہ جو شخص بھی آپ کی طرف بڑھتا اسی طرح واپس لوٹ جاتا اور کوئی بھی آپ کے قتل کا گناہ اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا ، یہاں تک کہ قبیلہ کندہ کا ایک شقی القلب شخص مالک بن نسیر آگے بڑھا اور اس نے امام حسینص کے سر مبارک پر حملہ کردیا ، جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے ۔ اس وقت آپ نے اپنے چھوٹے صاحب زادے عبد اللہ بن حسین کو اپنے پاس بلایا اور ابھی اپنی گود میں بٹھایا ہی تھاکہ بنو اسد کے ایک بد نصیب شخص نے ان پر ایک تیر چلایا جس سے وہ بھی شہید ہوگئے، امام حسین صنے اپنے معصوم بچے کا خون دونوں ہاتھوں میں لے کر زمین پر بکھیر دیا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کی کہ : ’’اے اللہ! تو ہی ان بدبخت اور ظالموں سے ہمارا انتقام لینا۔‘‘
اس وقت امام حسینص کی پیاس حد کو پہنچ چکی تھی ، آپ پانی پینے کے لئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے ، مگر حصین بن نمیر ایک ظالم شخص نے آپ کی طرف ایک تیر پھینکا جو آپ کے منہ پر جاکر لگا جس سے آپ کے دہن مبارک سے خون پھوٹنے لگ گیا۔
اس کے بعد شمر ذی الجوشن دس آدمی اپنے ساتھ لے کر امام حسینص کی طرف آگے بڑھا ، آپ اس وقت پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسینص کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو آواز لگائی کہ :’’ سب یک بارگی ان پر حملہ کردو ۔‘‘ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسینص پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
شمر ذی الجوشن نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ، مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے ، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ۔ بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر تینتیس (33) زخم نیزوں کے ،چونتیس ( 34) زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے بھی تھے۔رضی اللہ عنہم وارضاہ ورزقنا حبہ وحب من والاہ۔
شمر ذی الجوشن کو سرزنش:
امام حسین ص اور عام اہل بیت کے قتل سے فارغ ہوکر یہ ظالم علی اصغر حضرت امام زین العابدین کی طرف متوجہ ہوئے، شمر نے ان کو بھی قتل کرنا چاہا، مگر حمید بن مسلم نے کہا: ’’سبحان اللہ! تم بچے کو قتل کرتے ہوحالاں کہ وہ بیمار بھی ہے۔ ‘‘ شمر نے چھوڑ دیا، عمرو بن سعد آگے آئے اور کہا کہ: ’’اِن عورتوں کے خیمے کے پاس کوئی نہ جائے، اور اس بیمار بچے کے درپے کوئی نہ ہوئے!۔(شہید کربلا: ص۹۰)
لاش کو روندا گیا:
ابن زیاد شقی کی طرف سے عمر بن سعد کو حکم تھا کہ قتل کے بعد امام حسین ص کی لاش کو گھوڑوں کے ٹاپوں سے رُوندا جائے، اب اس کا وقت آیا، اُس نے پکار کر کہا: ’’اِس کام کے لئے کون تیار ہے؟۔‘‘ دس (10۱) آدمی تیار ہوئے ، اور گھوڑے دوڑا کر جسم مبارک کو روندا گیا۔
مقتولین اور شہداء کی تعداد:
جنگ کے خاتمے پر مقتولین اور شہداء کی تعداد شمار کی گئی تو امام حسینص کے اصحاب میں بہتر (72) حضرات شہید ہوئے اور عمرو بن سعد کے لشکر کے اٹھاسی (88) سپاہی مارے گئے۔ امام حسین ص اور اُن کے رفقاء کو اہل غاضریہ نے ایک روز بعد دفن کردیاتھا۔(ابن جریر طبری: ج ۶ ص ۲۶۱، کامل یعقوبی)
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں