میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(آخری قسط )

پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(آخری قسط )

منتظم
هفته, ۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

برطانیہ میںٹوریز آف شور کمپنیوں کے کردار کو چھپانے کے حوالے سے اپنے کردار پر شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے
٭یورپی کمیشن ، برطانوی ، امریکی اور تمام ممالک غلط کاریاں بے نقاب کرنے والوں کے تحفظ کیلیے قانون سازی کریں
٭ٹیکس چوری پر اس وقت تک موثر پابندی نہیں لگائی جاسکتی جب تک منتخب ارکان رﺅسا سے فنڈ مانگتے پھر رہے ہوں
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
ان ڈاکومنٹس کے منظر عام پر آنے کے بعداگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اصل ڈاکومنٹس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات کا آغاز کیاجا سکے گا۔ تفتیشی رپورٹرز کی عالمی تنظیم آئی سی آئی جے اور اس سے متعلق اخبارات نے بجاطورپر یہ واضح کردیاہے کہ وہ قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو اس حوالے سے کوئی ڈاکومنٹس نہیں دیں گے۔ تاہم میں ذاتی طورپر اپنی حد تک قانون نافذ کر نےوالے اداروں کےساتھ تعاون کرنے کوتیار ہوں۔
میں نے اپنی آنکھوں سے امریکا اور یورپ میں اس طرح کے انکشافات کرنے والوں کا حشر دیکھاہے۔ ایڈورڈ سنوڈن کا حال ہمارے سامنے ہے وہ امریکی صدر اوباما کی جانب سے اس پر جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چلانے کے اعلان کی وجہ سے اب ماسکو میں محصور ہے۔حالانکہ ایک ہیرو کی طرح اس کااستقبال کیاجانا چاہیے تھااوراسے اپنی اس کوشش اور جرات کے اظہار پر انعام سے نوازا جانا چاہیے تھا۔سوئس بینک یوبی ایس سے متعلق معلومات افشا کرنے پراب تک سزا بھگت رہاہے۔ لگژمبرگ کی جانب سے ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے ساتھ ٹیکس ڈیلز کے بارے میں جس کے تحت پڑوسی ممالک سے اربوں ڈالر کے ٹیکس چرائے گئے ،صحافیوں کو خبریں دینے کے الزام میں انٹونی ڈیلٹور کو ابھی تک مقدمات کاسامنا کرناپڑرہاہے ۔اس کے علاوہ اہم معلومات اورجرائم پر سے پردہ اٹھانے والے صحافیوں کو پیش آنےوالی مشکلات اوران کی جان کو لاحق خطرات کی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔اس صورت حال کے تحت میںیورپی کمیشن ، برطانوی پارلیمنٹ، امریکی کانگریس اور تمام ممالک کی پارلیمنٹس اور ارکان پارلیمنٹس سے یہ گزارش کرنا چاہتاہوں کہ وہ غلط کاریاں بے نقاب کرنے والوں کے تحفظ کیلیے مناسب قانون سازی کریں ۔ یورپی یونین کے ہر رکن ملک میں کارپوریٹ رجسٹر تک بآسانی رسائی ممکن ہے ، برطانیہ اپنے ملک میں اس حوالے سے کی گئی اب تک کی کارروائی پر فخر کرسکتاہے لیکن اب تک اپنے زیر انتظام جزائر میں مالیاتی راز کاسلسلہ ختم کرنے کیلیے جوکہ پوری دنیا میں ادارہ جاتی کرپشن کا بڑا ذریعہ ہے اسے بہت کچھ کرناباقی ہے۔ امریکا کو اب بھی اپنے کارپوریٹ ڈیٹاکے بارے میںٹھوس فیصلے کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے اپنی 50ریاستوں پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اب یہ کام امریکی کانگریس کا ہے کہ وہ آگے بڑھ کرڈیٹا تک عوامی رسائی کو یقینی بنانے اور اسے شفاف بنانے کیلیے مناسب قانون سازی کرے۔لیکن کیاایسا ہوگا؟؟ یہ ایک بڑا سوال ہے کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکا میں منتخب ارکان اپنا زیادہ تر وقت فنڈ جمع کرنے پر صرف کرتے ہیں،ٹیکس چوری پر اس وقت تک موثر پابندی نہیں لگائی جاسکتی جب تک منتخب ارکان رﺅسا سے فنڈ مانگتے پھر رہے ہوں۔
یہ صورتحال صرف امریکا کی نہیں ہے، نیوزی لینڈ کے وزیراعظم جون نے مالیاتی فراڈ کے حوالے سے اپنے ملک کے کردار پر چپ سادھ رکھی ہے، برطانیہ میںٹوریز آف شور کمپنیوں کے کردار کو چھپانے کے حوالے سے اپنے کردار پر شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔جبکہ امریکا کے محکمہ خزانہ کے فنانشیل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک کے ڈائریکٹر جینیفر شاسکی کالویری نے دنیا کے سب سے زیادہ بدنام ایچ ایس بی سی کے ساتھ کام کرنے کیلیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیاتھا۔ گزشتہ 50سال کے دوران پوری دنیا کی حکومتیں ٹیکس چوری کے مقامات کے خلاف کارروائی کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ بینک،مالیاتی ریگولیٹری اور ٹیکس حکام اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے،اور کم آمدنی والے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے دولت مندوں کو چھوٹ دینے میں لگے رہے۔
افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ جج اور عدالتیں بھی اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے اور عام طورپر دولت مندوں کے تربیت یافتہ وکلا کے دلائل پر تکیہ کرتے رہے جبکہ کم وسیلہ افراد موزاک فونسیکا جیسے اداروں جیسے ماہر وکلا کی خدمات حاصل کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ان ناکامیوںکی وجہ سے اخلاقی اقدار کوناقابل تلافی نقصان پہنچا، اور سرمایہ دارانہ نظام کو پھلنے پھولنے کاموقع ملاجسے اقتصادی اور معاشی غلامی کی ایک شکل قرار دیاجاسکتاہے۔اس نظام میں غلامی کرنے والے غلاموں کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ان کی ان کے مالک کے سامنے ، ان کی نظروں میںکیاحیثیت ہے۔ان کو ایسی خوبصورت بیڑیوں میں جکڑاجاتاہے جنھیں ناقابل رسائی قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔دنیا کی یہ ہولناک صورت حال ہمیں جھنجھوڑ کر جگا دینے کیلیے کافی ہونی چاہیے۔لیکن جب کوئی اندر کا آدمی الارم بجاتاہے تو اسے خوفناک نتائج کاسامنا کرنا پڑتاہے۔
”اظہار تشکر“
آخر میں میں اپنے اس ذریعے کاشکریہ ادا کرنا چاہتاہوں جس نے 2.6 ٹیرا بائیٹ کا انٹرنل ڈیٹا افشا کیا جو کہ اس ریسرچ کی بنیاد بنا۔یہ راز افشا کرنے والے یاکرنے والی نے ڈیٹا ہمیںفراہم کرکے بہت بڑا خطرہ مول لیا یہ اس کی جرا¿ت تھی جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے سب سے زیادہ صحافیوں کے اشتراک سے ان ڈاکومنٹس کاافشاممکن ہوا۔یہ ذریعہ اگر ہمیں ڈیٹا فراہم نہ کرتاتو ہم یہ انکشاف نہ کرسکتے کہ آئس لینڈ کے امرا نے کیسے پوری قوم کولوٹا، اور روس کے صدر ولادیمر پوٹن کے حلقہ احباب اور ان کے دوستوں نے کیسے لاکھوں ڈالر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردئے۔ہم یہ انکشافات شائع کرنے کاخطرہ مول لینے والے اخبارات اور ناشرین کے بھی شکر گزار ہیں جن کی ہمت اور جرات کی وجہ سے یہ سب کچھ پوری دنیا کے علم میںلانے میں مدد ملی اورسودش زیتانگ ہماری خصوصی مبارکباد کا مستحق ہے کیونکہ ان کی شاندار ادارتی ٹیم کے بغیر یہ کتاب کبھی بھی نہ لکھی جاسکتی تھی۔ہم اس حوالے سے تفتیشی رپورٹنگ کی تنظیم آئی سی آئی جے کے تمام ساتھیوں کا بھی شکریہ اداکرنا چاہتے ہیں جن کی بھرپور کوششوں ، تعاون اور اشتراک کی وجہ سے ہی یہ کام تکمیل کو پہنچایاجاسکا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں