پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی
شیئر کریں
طویل عرصے کے بعد ایک دفعہ پھر غیر ملکی کھلاڑیوں نے آخرکار پاکستان میں کرکٹ کے میدان کو رونق بخش دی ،اس طرح ایک مرتبہ پھر سیٹی بجی،میدان سجا اور کھلاڑیوں نے چوکے چھکے لگا کرپورے ساڑھے8سال بعد پاکستان کو کرکٹ کے میدان میں تنہائی سے نکل کر عالمی افق پر جگمگانے کاموقع فراہم کردیا، ورلڈ الیون ٹیم کی قیادت کرنے کے لیے پاکستان پہنچنے والے کپتان فاف ڈیوپلیسی کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں صرف کرکٹ کے لیے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ کرنے کے لیے کھیل رہے ہیں۔ورلڈ الیون ٹیم کے کوچ اینڈی فلاور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاف ڈیوپلیسی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان آکر کھیلنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے‘۔اس دوران ورلڈ الیون ٹیم کے کپتان فاف ڈیوپلیسی اور کوچ اینڈی فلاور نے ٹیم کی کِٹ کی رونمائی کی۔انہوں نے کہا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس پر خوشی بھی محسوس کر رہے ہیں۔فاف ڈیوپلیسی نے کہا کہ پاکستان میں زبردست استقبال پر وہ پاکستانی قوم کے شکر گزار ہیں۔پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں اپنی شرکت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر وہ پی ایس ایل کے دوران دستیاب ہوئے تو ٹورنامنٹ ضرور کھیلیں گے۔اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ورلڈ الیون کے کوچ اینڈی فلاور نے 2009 میں سری لنکاکی ٹیم پر دہشت گرد حملوں میں جاں بحق ہونے والے اہلکاروں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ورلڈ الیون کے تمام کھلاڑی پاکستان آکر خوشی محسوس کر رہے ہیں جبکہ تمام کھلاڑی یہاں سے اچھی یادیں لے کر جانا چاہتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کا دورہ کرنے والی ورلڈ الیون کی ٹیم کو تمام کرکٹ بورڈز اور آئی سی سی کی مدد حاصل ہے۔اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 90 کی دہائی میں تین مرتبہ زمبابوے کی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں جن میں سے 1998 کا دورہ پاکستان ان کے لیے سب سے زیادہ یاد گار تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ سے ہی زمبابوے کرکٹ کی مدد کی ہے اور اب پاکستان کے عوام اپنے ملک میں کرکٹ دیکھیں گے۔ورلڈ الیون کی ٹیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کوچ اینڈی فلاور کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم میں پاکستان کے خلاف جیتنے کے لیے بڑے کھلاڑی موجود ہیں جبکہ انہیں یقین ہے کہ ورلڈ الیون گرین شرٹس کے خلاف اچھی کارکردگی دکھائے گی۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ الیون کی ٹیم بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور اس ٹیم کے تمام کھلاڑی پاکستان میں کرکٹ بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ورلڈ الیون ٹیم میں بھارتی کھلاڑیوں کی شمولیت کے حوالے سے سوال کے جواب میں اینڈی فلاور کا کہنا تھا کہ بھارتی کھلاڑیوں کی شمولیت میں سیاسی مسائل درپیش تھے۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان اور مختلف ممالک کے صف اول کے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم آئی سی سی ’ورلڈ الیون‘ کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی 12 ستمبرکو کھیلاگیا، دوسرا ٹی ٹوئنٹی 13 ستمبر جبکہ تیسرا ٹی ٹوئنٹی 15 ستمبر کو کھیلا جائے گا۔ورلڈ الیون کے کھلاڑیوں میں جنوبی افریقہ کے فاف ڈیو پلیسی، ہاشم آملا، مورنے مورکل، ڈیوڈ ملر، عمران طاہر، ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی، سیمیول بدری ، آسٹریلیا کے جارج بیلی, ٹم پین، بین کٹنگ، انگلینڈ کے پال کالنگ وڈ، نیوزی لینڈ کے گرانٹ ایلیٹ، سری لنکا کے تھسارا پریرا اور بنگلہ دیش کے تمیم اقبال شامل ہیں۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں پاکستان میں ورلڈ الیون کے ساتھ کرکٹ کے مقابلوں سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کی راہ ہموار ہوگی اور سری لنکا کی ٹیم کے کھلاڑیوںپر دہشت گردوں کے حملے کی وجہ سے پاکستان پر عالمی کرکٹ کے بند ہونے والے دروازے دوبارہ کھل جانے کے امکانات روشن ہوجائیں گے ۔اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد نے ہی ورلڈ الیون کی ٹیم کے پاکستان آنے کی راہ ہموار کی اور اس کے ساتھ ہی بھی ایک حقیقت ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی کامیابی نے کئی ناکام لوگوں کو قربان ہونے سے بچالیا ہے، انہیں نئی زندگی دی ہے۔ ایونٹ میں کامیابی سے کئی لوگوں کے معاہدے بچ گئے ورنہ قربانی ضرور ہوتی۔ بہر حال ایک ایونٹ میں فتح نے کئی افراد کی نوکریاں پکی کر دی ہیں یوں اس کامیابی کے صدقے بہت لوگ بچ گئے۔اسی طرح ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی سے بھی بہت سوں کو ریلیف ملا ہے، بورڈ میں بیٹھے کئی لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے لیے بلاشبہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور خاص طورپر اس کے چیئرمین نجم سیٹھی نے انتھک محنت کی ہے اور اس کا کریڈٹ انھیں دیاجانا چاہئے کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی قیادت سنبھالنے کے بعد نجم سیٹھی نے پہلے گھر کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینے کے بجائے اپنی تمامتر توجہ بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی پر مرکوز کردی ،ان کی اس حکمت عملی کو اس اعتبار سے درست قرار دیاجاسکتاہے کہ بین الاقوامی کرکٹ بحال کرنے کا تمام تر دارومدار غیر ملکی ٹیموں اور حکومتوں کی مرضی پر ہوتاہے اس لیے ان کو پاکستان آنے پر رضامند کرنے کے لییٍ اضافی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ جہاں تک کرکٹ بورڈ کے اندرونی معاملات اور اس کے عہدیداروں کے نظم وضبط اور رویئے کو ٹھیک کرنے کامعاملہ گھر کا معاملہ ہے اور اس پر کسی بھی وقت توجہ دے کر ٹھیک کیاجاسکتاہے ۔ اس طرح نجم سیٹھی نے درست حکمت عملی اختیار کی اور اس طرح پوری دنیا کے اہم کھلاڑیوں کو پاکستان لانے میں کامیاب ہوگئے ،لیکن اندرونی معاملات پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے اطلاعات کے مطابق اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے کئی ڈائریکٹرز نے سورج کی تپش ختم ہونے کے بعد دفتر کا رخ کرنے کی عادت بنا لی ہے جبکہ یہ بھی شکایات ہیں کہ کچھ تو شاید گھر سے ہی حاضری لگوا لیتے ہیں اور، بعض نے دفتری اوقات کار اپنی مرضی سے مقرر کر لیے ہیں۔ کوئی انکو پوچھ نہیں سکتا کیونکہ نجم سیٹھی تو ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے کاموں میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس ان معاملات کو دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہے۔وہ ان دنوں اتنے مصروف ہیں کہ اپنے خاص لوگوں کو بھی وقت نہیں دے پاتے ان کے ایک معتمد خاص بتا رہے تھے کہ 4 مرتبہ فون کیا ہے لیکن اٹینڈ نہیں ہوا۔ بہرحال نجم سیٹھی کا مصروف ہونا تو پاکستان کرکٹ کے لیے اچھا ہے لیکن اپنے معتمد خاص کا فون نہ سننا بہر حال پریشان کن ہے۔ اس وقت وہ ملکی کرکٹ کی سب سے اہم شخصیت ہیں اگر خاص لوگوں کے فون نہیں سنیں گے تو عام افراد کا کیا بنے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں انہیں اپنے ڈسپلن میں کام کرنے والوں پر زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انڈیپینڈینس کپ لوگو کی تقریب رونمائی میں وہ میڈیا پر برہم نظر آئے۔ ان کے خیال میں میڈیا منفی باتیں پھیلا رہا ہے۔ ایسی خبریں دی جا رہی ہیں جن سے ملک کی ساکھ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کرکٹرز پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ ویسے تو وہ خود بہت باخبر ہیں۔ حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، معاملہ فہم بھی ہیں لیکن اس معاملے میں انہوں نے سب کو ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند روز میں سخت موسم کے دوران بھی صحافیوں نے مثبت اور وطن دوست رپورٹنگ کرکے یہ ثابت کیاہے کہ وہ بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے نجم سیٹھی کے مقابلے میں زیادہ پرجوش ہیں ،نجم سیٹھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کی سیکورٹی کے معاملات دیکھنے اور اس کی نگرانی کے لیے سیکیورٹی ٹیم کی آمد کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں کو بروقت معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں تھیںاور نہ صرف کے رپورٹرز کو اس حوالے سے معلومات فراہم نہیں کی جارہی تھیں بلکہ اس میںرابطے کا فقدان بھی نظر آ رہا تھا۔ نجم سیٹھی خود بھی کسی نہ کسی طرح صحافت سے وابستہ رہے ہیں وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ یہ ایک اہم موقع ہے اس موقع پر ان کی جانب سے میڈیا سے مثبت رویے کی توقع اور درخواست بیجا نہیںبلکہ وقت کی ضرورت کے مطابق ہے لیکن صحافیوں سے ذمہ داری کامطالبہ کرتے ہوئے انہیں بھی صحافیوں کو بروقت معلومات بہم پہنچانے کا انتظام بھی کرنا چاہئے کیونکہ اس ایونٹ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور پاکستان کے جوش وجذبے کو اجاگر کرنے میں صحافیوں کے اہم کردار کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔امید کی جاتی ہے کہ نجم سیٹھی صاحب انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں کامیابی کا جشن منانے کے ساتھ ہی صحافیوں کو ضروری سہولتوں اور خاص طورپر معلومات کی بروقت فراہمی کا انتظام کرنے پر توجہ دیں گے کیونکہ ایونٹ کے انعقاد کی تیاریوں اورانتظامات کے ساتھ ہی صحافیوں کوسہولتوں کی فراہمی بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے۔
زمبابوے کا دورہ پاکستان ہو یا پھر پاکستان سپر لیگ کا فائنل قذافی ا سٹیڈیم میں میچ کور کرنے والے ا سپورٹس کے صحافیوں نے ہمیشہ مثبت رپورٹنگ کی ہے۔ جہاں تک ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا تعلق ہے، پاکستان سپر لیگ کی کامیابی کا تعلق ہے اس کے لیے نجم سیٹھی کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ ہر پاکستانی خواہ وہ کرکٹ کو پسند کرتا ہے یا نہیں ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی چاہتا ہے۔ لیکن نجم سیٹھی کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ اس مشکل وقت میں کرکٹ بورڈ کی اعلی انتظامیہ کو مزید متحرک اور فعال رہنے کی ضرورت ہے۔ بابو کے انداز میں کام کرنے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لیے چیئرمین کرکٹ بورڈ کو بھی اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک سب پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ہماری دعا ہے کہ ورلڈ الیون کا دورہ کامیابی سے ہم کنار ہو، اس کے بعد سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں بھی پاکستان کا دورہ کریں۔ آئندہ برس پاکستان سپر لیگ کے میچز کا انعقاد بھی ہو اور ملک کے تمام ا سٹیڈیمز ایک مرتبہ پھر غیر ملکی ٹیموں کی میزبانی کریں۔ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔