بینظیر بھٹو کا مقدمہ قتل!
شیئر کریں
محترمہ کے قتل والے مقدمہ کاکئی سالوں بعد عدالت نے فیصلہ سنا ڈلا۔ڈکٹیٹر مشرف کے وارنٹ گرفتاری اور اس کی ساری جائیداد کی قرقی کے علاوہ دو پولیس افسران سابق سی سی پی او راولپنڈی سعود عزیز اور سابق ایس پی خرم شہزاد کو 17/17سال قید اور پانچ لاکھ فی کس جرمانہ کی سزا دی گئی ہے دیگر ملزمان جن کویہ ‘طالبان’ کے افراد کہتے نہیں تھکتے تھے کو بری کردیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرف سمیت دیگر دو پولیس کے ملزمان صرف سہولت کار تھے ہو سکتا ہے پلاننگ کرنے والوں کے ساتھ بھی ان کا رابطہ ہو مگر کس نے گولیاں چلائیں کس نے بلاسٹ کیا وہ تو پولیس افسران نہ تھے اور نہ ہی مشرف تو پھر وہ قاتل ملزمان کدھر ہیں ؟
اگر ثبوت مہیا نہ ہو نے یا گواہیاں اورشہادتیں نہ ملنے پر وہ سارے بری ہوگئے ہیں تو یہ بھی اچنبھے کی بات ہے کہ حکمران مشرف کے حکم سے ہی ڈیڑھ گھنٹہ میں مقتولہ کے سارے ثبوت اس جگہ سے مکمل ختم کر ڈالے گئے اور اس کا پوسٹمارٹم بھی نہ کیا گیا۔جس کے نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی آج تک نہ بتائی گئی ہے۔ صرف لواحقین ہی ایسی التجا کرسکتے ہیں، ایسی تحریر بھی کہیں نظر نہیں آتی ، ان کے قتل سے آخر کون فائدہ اٹھا گیا تو وہ صرف اور صرف زرداری صاحب ہیںمیری زندگی کے بعدوہ میرے سیاسی وارث ہونگے آخر یہ وصیت کہاں درج اور رجسٹرڈ ہوئی؟ حلفیہ بیان محترمہ کا کہاں ہے؟ یہ وصیت کہاں سنبھال کر رکھی گئی؟ کیا محترمہ کے بنک لاکر سے ملی ؟اس پر کئی سوالات جنم لیتے رہیں گے۔
محترمہ نے تو کئی سالوں سے زرداری صاحب سے ذرا بول چال کم کر رکھی تھی پھر یہ وصیت کہاں سے نازل ہوگئی۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے اقتدار کے دوران جب ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دے کر اسکی تمام لیڈر شپ کو گرفتار کرکے سندھ کی جیلوں میں بند کردیا تھا تو ان میں جناب زرداری کے والد محترم حاکم علی زرداری بھی شامل تھے جو کہ ان دنوں نیپ سندھ کے صدر تھے۔بھٹو صاحب نے سندھی ہونے کے ناطے ان کو بلوا کرانھیں” مجبور کیا تھا”کہ وہ پارٹی چھوڑ دیںمگر وہ بھٹو صاحب کی طرف سے ہر قسم کے دبائو کے باجود قطعاً نہ مانے ۔لازمی امر ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے آصف علی زرداری کو ساری بپتا کہانی ضرور من وعن بتا دی ہوگی۔بعد ازاں جناب آصف علی زرداری محترمہ بینظیر کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔اورمحترمہ کی وزارت عظمیٰ کے دور ہی میں ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹوکو سندھ پولیس نے "المرتضیٰ "کراچی میں داخل ہوتے وقت گولیوں سے بھون ڈالا۔اپنے جواں سال بھائی کے یوں قتل کا دکھ محترمہ کو تاحیات رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی نرینہ اولاد ہی ختم ہوگئی تھی اور صرف وہ بھٹو صاحب کی آخری نشانی کے طور پر باقی تھے۔
حالات نے ایسا پلٹا کھا یا کہ محترمہ اور نواز شریف کو مشرف کے دور میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنی پڑی محترمہ اور نواز شریف کے درمیان صرف جمہوریت کے لیے معاہدہ طے پاگیا تو محترمہ نے وطن واپس آنے کا اعلان کرڈالا۔کراچی پہنچیں لاکھوں افراد استقبال کے لیے پورے ملک سے پہنچے کہ ان کے جلوس پربموں سے حملہ کرکے پی پی پی کے سینکڑوں کارکن شہید کرڈالے گئے مگر محترمہ شومیٔ قسمت سے بچ رہیں کہ وہ جس کنٹینر پر سوار تھیں ، اس سے چند منٹ پہلے ہی نیچے اپنے چیمبر میں چلی گئی تھیں بعد ازاں عام انتخابات کے دوران راولپنڈی کے جلسہ عام کے دوران انہیں شہید کرڈالا گیا۔
راوی بتاتے ہیں کہ جونہی محترمہ پنڈی کے جلسہ عام کو خطاب کرکے نکلیں اور اپنی گاڑی میں سوار ہو کر چل پڑیں، اس روز حکومت کی طرف سے صحیح سیکورٹی مہیا نہ کی گئی تھی ۔گاڑی میں بیٹھنے کے بعد ان کی سیکریٹری جن کے پاس محترمہ کا بلیک بیری فون ہوتا تھا پر کسی ’’اہم ‘‘ شخصیت نے فون کرکے محترمہ سے بات کروانے کا کہا ،محترمہ نے فون سنااور کھڑی ہوگئیں اور گاڑی کے سن روف سے گردن باہر نکال کر لوگوںکا ہاتھ لہرا کر شکریہ ادا کرنا شروع کردیا۔ لازماً یہ وہ سازشی ٹولا تھا جس نے مخصوص قاتلوں سے پلان بنا کر محترمہ کو راستے سے ہٹانے کا پروگرام ترتیب دیا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ محترمہ نے پاکستان واپس آنے سے قبل پاکستان میں طالبان وغیرہ دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین بیانات جاری کیے تھے۔ انہوں نے مشرف کی طرف سے ایسے عناصر کے خلاف کاروائیوں کو بھی سراہا تھا مگر یہ بھی کہا تھا کہ اگر میں اقتدار میں آگئی تو ڈکٹیٹر سے بھی زیادہ سخت اقدامات کروں گی۔
ویسے قتل کا مقدمہ سنانے والی عدالت سات دیگر ملزمان کو مسلسل عدم حاضری پر اشتہاری قرار دے چکی ہے، مقدمہ کے فیصلہ کو محترمہ کے بیٹے بلاول اور بیٹیوں آصفہ اور بختاور نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ لگتا ہے عسکریت پسندوں کی فتح ہوئی ہے۔ مقدمہ قتل میں محترمہ کے وکیل اعتزاز احسن کئی سال سے پیشیوں پر پیش ہی نہیں ہوئے۔ رحمٰن ملک ہوں یا لطیف کھوسہ یا دیگر زرداری صاحب کے قریبی ساتھی انہوں نے اس مقدمہ میں گہری دلچسپی کا اظہار ہی نہیں کیا ۔بتایا جاتا ہے کہ تفتیش پر بھی انہوں نے مکمل تعاون نہیں کیا۔بیرونی ممالک سے کئی تفتیشی کمپنیاں اور وفود آئے مگر ان کے ساتھ زرداری دور میں تعاون ہی نہیںکیا گیا ۔وہ یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ ان کے تحقیقاتی عمل میں الٹی رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ محترمہ کے قتل کے بعدکئی لوگوں نے رحمٰن ملک صاحب کو فون کیا اور انہوںنے کہا کہ محترمہ بالکل ٹھیک ہیں اور یہاں تک غلط بیان دیا کہ محترمہ ہمارے ساتھ بلاول ہائوس پہنچ چکی ہیں ۔محترمہ کا بلیک بیری فون جس پر کال آنے کے بعدوہ کھڑی ہو کر گاڑی سے ہاتھ ہلانا شروع ہوئی تھیں کہ ظالموں نے گولیاں گردن میں پیوست کردیںوہ کہاں ہے؟اس کا ڈیٹا کہاں ہے ؟اس سے وہ مخصوص کال کرنے والے کا تو پتہ چل سکتا تھا جس نے محترمہ کو گاڑی سے سر باہر نکال کر ہاتھ ہلانے کا کہا تھا کہ یہ ساری پلاننگ قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کی تھی۔
اعتزاز احسن جیسے پائے کے وکلاء کو کس نے محترمہ کے مقدمہ قتل میں پیش ہونے سے روکا؟یہ سب سر بستہ راز ہیں بھی اور نہیںبھی !!قوم بجا طور پر جواب طلب کر رہی ہے آخر محترمہ بینظیرکی سیکریٹری ناہید خاں کیوں نہیں بتاتیں کہ وہ فون کال کسی کی تھی جو اس نے خود سن کر محترمہ کو فون سننے کے لیے دی ۔ابھی تک قتل کے عینی شاہدین زندہ ہیں۔ وہ سچ بولیں تب ہی قتل کی اصل گتھیاں کھل سکتی ہیں۔ان سبھی کرداروں کو سچ بولنے سے جو طاقت روک رہی ہے وہی مرحومہ کی اصل قاتل ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔