دیربالا کے پہاڑی علاقوں کے دلفریب مناظر!
شیئر کریں
پرخطرسفرکے دوران سیاح اپنی گردن شیشوں کی جانب موڑے حسین نظاروں میں غرق نظرآتے ہیں ‘صرف ڈرائیورہی سڑک دیکھتا ہے
اونچے پہاڑ‘سبزڈھلوانیں ‘لکڑی کی جھونپڑیا ں ‘لہلہاتے کھیت ‘آس پاس چرتے مویشی دیکھ کرلگتاہے راوی یہاں چین ہی چین لکھتا ہے
دیر بالا شہر کا مرکزی بازار ثقافت و روایات کا ایک ایسا خزانہ ہے جسے سیاح دن بھر ٹٹولتے رہیں لیکن جی نہ بھرے‘باہرآنے کوجی بھی نہ چاہے
صبا حیات نقوی
ہم جب بھی پشاور جاتے تھے تو دوستوں کا اصرار ہوتا کہ دیر بالا چلنا چاہئے،لیکن پشاور سے دیربالا تک 6گھنٹے کا سفر سوچ کر ہی پسینہ آجاتا تھا ،لیکن اس دفعہ جب ہم پشاور پہنچے تودوست مصرہوگئے کہ اس دفعہ تو دیربالا ضرور ہی جانا ہے ، بہرحال دوستوں کے اصرار پر ہم اس پرخطر سفر پر تیار ہوگئے،دوست کے پاس گاڑی تھی اور وہ بھی نئی لہٰذا ناشتے کے بعد سفر کاآغاز کیا،جوں جوں ہم آگے بڑھتے جارہے تھے ایک پْرکیف سا ماحول طاری ہوتا جارہاتھا۔ ہم سب ایک دوسرے سے بے خبر گردنوں کو گاڑی کے شیشوں کی جانب موڑ ے حسین نظاروں میں غرق ہوچکے تھے۔ گاڑی میں جو دوست ڈرائیونگ سیٹ پر تھا صرف اْس کا ہی دھیان سڑک پر تھا۔واڑی بازار سے ہماری گاڑی نے چیونٹی کی رفتار پکڑلی، پختہ سیاہ کارپٹ نما سڑک کے ایک جانب بہتا دریا جس کے کنارے سبزہ زار تھا، جب کہ دوسری جانب تاحدِ نگاہ اونچے پہاڑ، سبز ڈھلوانوں کے اوپر لکڑیوں سے بنی جھونپڑیاں ، جس کے آس پاس چرتے مویشی، لہلہاتے کھیتوں میں مگن کسان، محسوس ہورہا تھا کہ ایسی بستی ہے کہ گویا یہاں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ القصہ ہم ایک چوراہے تک پہنچ گئے جس پر ایک گھڑسوار کا بڑا تراشیدہ مجسمہ نصب تھا۔ یہ دیر بالا شہر کا مرکزی حصہ ہے۔
گاڑی پارک کرکے تھوڑی دیر ایک ریستوران میں دودھ پتی چائے کی چسکیوں کا مزا لیا اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم نے دیر بالا بازار میں مٹرگشت شروع کردی۔اگست کے اوائل میں بھی دیر بالا کا موسم معتدل تھا۔ دیربالا کے پہاڑی علاقوں کے دلفریب مناظر سیاحوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن دیر بالا کے مرکزی شہر کا بازار ثقافت و روایات کا ایک ایسا خزانہ ہے جسے سیاح دن بھر ٹٹولتے رہیں لیکن جی نہ بھرے۔ گھومتے پھرتے جیسے ہی ہم مرکزی بازار میں داخل ہوئے تو پنڈی کے ’راجہ بازار‘ کی یاد تازہ ہوئی۔ تنگ گلی نما بازار، جابجا تجاوزات اور ریڑھی بانوں کی قطاریں جہاں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر انتظامیہ بروقت تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کے خلاف حرکت میں نہیں آئی تو آنے والے چند برسوں میں بڑے مسائل کا سامنا ہوگا۔ مرکزی بازار کے قریب ہی ایک بڑے ڈھلوان پر دیر نواب شاہ جہان خان کا گھر بھی موجود ہے۔ جس سے ریاست دیر کے آثار جھلکتے ہیں ۔ دیر کے نوابوں نے 1947 تا 1969تک ریاست دیر پر حکمرانی کی۔ شاہ جہان دیر کے آخری نواب تھے۔ بعض مصنفین کے مطابق نواب شاہ جہان انتہائی ظالم و جابر حکمران تھے، جس کی وجہ سے دیر کے عوام نے اْن سے منہ موڑنا شروع کردیا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا، مگر نواب شاہ جہان نے پھر بھی اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لئے کافی حد تک مزاحمت کی تو انہیں نظر بند کرنا پڑا۔
1969 میں یہ دیر بطور ریاست پاکستان میں ضم کردی گئی اور مالاکنڈ ڈویژن بننے کے بعد 1970 میں اِس کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1996 میں ضلع دیر مزید دو حصوں لوئر دیر اور اَپر دیر میں تقسیم کیا گیا۔ ریاست سوات اور دیر دونوں کا ایک ساتھ پاکستان میں انضمام ہوا۔ شانگلہ کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد سوات ایک وسیع اور بڑی آبادی والا ضلع ہونے کے باوجود مزید ضلعوں میں تقسیم نہیں ہوا۔
سوات کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ سیاسی حلقوں نے اب سوات کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ اٹھایا ہے، مگر اکثریتی سیاسی حلقے سوات کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کی محض اِس موقف کو لے کر مخالفت کررہے ہیں کہ اِس انتظامی تقسیم سے اخوت و ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہے۔ حالانکہ زمینی حقائق فرانس، جرمنی اور جاپان کی صورت میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ جہاں سب سے ذیادہ صوبے اور اضلاع کو ترتیب دے کر انتظامی امور میں آسانی پیدا کردی گئی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس تقسیم کو سیاسی، لسانی، اور قومیت کو بنیاد بنا کر نہیں بلکہ صرف انتظامی مقاصد کے لئے کیا جائے تب سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔
جب ہم نے سوات کوہستان(ضلع سوات کا بالائی حصہ) اور اَپر دیر کا ترقی کے لحاظ سے موازنہ کرنے کی غرض سے سہولتی مراکز کا جائزہ لیا تو انگشت بدنداں رہ گئے۔ کوہستان ضلع سوات کا تیسرا بڑا حصہ ہے، جہاں ملکی و غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کوئی بینک موجود نہیں ۔
اِس کے برعکس دیر بالا میں خیبر بینک کے علاوہ کئی نجی بینک اے ٹی ایم مشینوں کی سہولت کے ساتھ موجود ہیں ۔ معیاری سرکاری اسپتال، اسکول و کالج کے علاوہ انتظامی امور کے تمام ادارے ڈی سی ہاؤس، دفتر ضلع ناظم، ڈی پی او ہاؤس چند قدموں کے فاصلے پر دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بنیادی سہولیات کسی حد تک موجود ہیں ۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ہم نے تو یہی محسوس کیا کہ یہ سب کچھ ضلع کی حیثیت پانے کے ثمرات ہیں ۔
اپنے اِس خیال کو پختہ کرنے کے لئے راقم نے دیربالا کے ایک پسماندہ علاقہ مانکر سے تعلق رکھنے والے محقق و مصنف ڈاکٹر حضرت بلال سے نشست رکھی تو انہوں نے تائید کرتے ہوئے بتایا کہ دیربالا میں ترقی کی رفتار انتظامی تقسیم کے بعد تیز ہوئی۔ اْن کے مطابق اب ہمارے تمام تر ضلعی امور با آسانی نبٹائے جارہے ہیں ، دیر لوئر اور دیربالا کے تمام انتظامی دفاتر الگ الگ ہونے کی بدولت شہریوں کی مشکلات میں حددرجہ کمی واقع ہوئی ہے۔ حالیہ بلدیاتی نظام قائم ہونے کے بعد ضلعی اسمبلی کا فلور ہماری دسترس میں ہے، جہاں ہم اپنے تمام تر مسائل کو آسانی سے زیرِغور لاسکتے ہیں ۔
ڈاکٹر حضرت بلال کہتے ہیں کہ تھل لاموتی اور مانکر کو حال ہی میں سب ڈویژن بھی بنادیا گیا ہے جس سے ترقی کی راہیں مزید ہموار ہوگئی ہیں ، مگر ایک شکوہ جو ہمیشہ قدرتی مناظر سے سجے پسماندہ علاقوں کے باشندوں کا حکومت وقت سے رہتا ہے کہ، اْن کو کہیں نہ کہیں ضرور نظرانداز کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ تھل، لاموتی اور کْمراٹ کو، قدرتی جھیلوں ، آبشاروں اور چشموں سے مالامال سیاحتی علاقے ہونے کے باوجود خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ فوٹو: گل حسین اور وہاں کے باشندے اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم رکھے گئے ہیں ۔
اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ دیربالا کی ضلعی حکومت اور انتظامیہ بالائی سیاحتی علاقوں بالخصوص کمراٹ اور باڈگوئی کی خستہ حال سڑکوں پر خصوصی توجہ مرکوز رکھے تو دیر بالا کی سیاحت مزید پروان چڑھے گی، جس سے نہ صرف مقامی افراد کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں گے بلکہ ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر تیارہوگی اگرحکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہوتی تو شاید آج حکومت کی توجہ اس طرف دلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔