عمران خان سندھ میں داخل
شیئر کریں
جب سے پنجاب ’’پنجابی‘‘ بناہے ۔ سندھ میں قوم پرستوں نے سکٹرنا شروع کردیا ہے‘ پنجاب بڑا بھائی ہے‘ چھوٹے بھائیوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے لیکن جب کوئی چھوٹا بھائی وفاق میں پہنچتا ہے تو دوسرے چھوٹے بھائیوں حتی کہ بڑے بھائی کی حق تلفی بھی شروع کردیتا ہے۔ آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی سیڑھی کے ذریعے وفاق تک پہنچے۔صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان بن گئے تو اپنے ہی صوبہ میں سندھ کے شہری علاقوں اور ان کی قیادت کو دور کردیا۔ شہری علاقوں کے اداروں پر دیہی قیادت اور افسر شاہی کو لابٹھایا۔ پہلے تو بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے تاکہ مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے کا سوال ہی پیدانہ ہو۔ ایڈمنسٹریٹروں ‘ ڈپٹی کمشنروں اور میونسپل افسروں سے کام چلایا گیا منتخب بلدیاتی قیادت پیدا نہیں ہونے دی ،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے مقامی حکومتوں کے اختیارات پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کی کوشش کی تو اس کا بھی بائیکاٹ کردیا۔ بعدازاں جماعت اسلامی‘ جے یو آئی‘ پی ٹی آئی اور اے این پی بھی اسی لائن میں لگ گئیں اور انہوں نے بھی بائیکاٹ کردیا۔ البتہ مسلم لیگ (ن) شرکت کے لیے تیار ہوگئی ۔مسلم لیگ (نواز) خالصتاً پنجاب پراڈکٹ ہے۔ صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم اس کے خالق تھے۔ انہوں نے اس کی کمان شریف برادران کو سونپی تھی۔ اس وقت بھی مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہے۔ معزول وزیراعظم محمد نواز شریف کی جگہ شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں کراچی تشریف لائے تو متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے بھی ملاقات کی اور کراچی حیدرآباد کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 35 ارب روپے کی خطیر رقم کا اعلان کردیا۔
آصف علی زرداری نے 2008 میں پورے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تھا۔ سندھ میں آج بھی ان کی پارٹی حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے لیکن وہ کراچی اور حیدرآباد پر اتنے زیادہ کبھی مہربان نہیں ہوئے۔ گزشتہ 9 سال کی حکومت میں ان کی پارٹی نے کراچی حیدرآباد‘ سکھر میرپور خاص اور نوابشاہ کے شہری علاقوں کے لیے اس محبت کا اظہار نہیں کیا جو مسلم لیگ (نواز) کررہی ہے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کی حکومت میں شہری علاقوں کا تو ذکر ہی کیا۔ دیہی علاقوں میں بھی کرپشن اور رشوت کے ناسورنے سندھ کو کھوکھلا کردیا ہے۔وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی ذاتی دلچسپی نے کچھ منصوبوں میں جان ضرور ڈال دی ہے لیکن بد عنوانیوں کی دیمک ہر اچھے عمل کو بھی چاٹ رہی ہے۔ آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب میں مورچہ لگارکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف اور اداروں کی لڑائی میں کچھ نہ کچھ سیاسی مال غنیمت ان کے بھی ہاتھ لگے گا اور وہ 2018 کے عام انتخابات کے لیے مقتدر امید واروں کی معقول تعداد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن میاں برادران اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان انہیں راستا نہیں دے رہے ہیں۔ صوبہ میں ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ نئی سیاسی قوتیں بھی سر اٹھارہی ہیں۔ مہاجر اور سندھی قوم پرستوں کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ قوم پرست رہنما امان اﷲ شیخ نے سندھ پروگریسیو کمیٹی قائم کی ہے جس کے وہ خود کنوینئر ہیں۔ جئے سندھ قومی محاذ کے عبدالخالق جو نیجونے علیحدگی اختیار کرکے عوامی جمہوری پارٹی بنائی ہے جبکہ کمیونسٹ پارٹی کے صوبائی سیکریٹری کامریڈ اقبال بھی پروگریسیو کمیٹی میں شامل ہیں۔جئے سندھ قومی محاذ کے 50 سے زائد کارکنان نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے ملک گیر جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ جئے سندھ قومی محاذ 1972 میں سندھ کے قوم پرست سیاستدان سائیں جی ایم سید نے قائم کیا تھا۔ اس میں پہلی دراڑ 1991 میں پڑی جب ڈاکٹر قادر مگسی نے بعض اختلافات پر علیحدگی اختیار کرکے اپنی جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی قائم کی تھی۔ جی ایم سید کے قریبی عزیز سید شاہ محمد شاہ گزشتہ کافی عرصہ سے مسلم لیگ( ن ) میں فعال کردار ادا کررہے ہیں۔جے ایس کیوایم سے علیحدگی اختیار کرنے والوںمیں حیدر شاہانی ‘ڈاکٹر دو دو مہری‘ کامریڈ حسین بخش تھیبو بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے گروپ قائم کیے۔ ان دنوں یہ عمل مزید تیز ہوگیا ہے اور سندھی قوم پرست آہستہ آہستہ قومی جماعتوں میں شامل ہورہے ہیں۔ جی ایم سید کے پوتے سید جلال محمود شاہ، سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور ایک پیروکار امیر بخش بھنبھرو سندھ نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں۔ صنعان قریشی اپنے والد بشیر خان قریشی شہید کی جانشینی کا فرض انجام دے رہے ہیں مشہور لیڈر قمر بھٹی بھی تاریخ کی کتابوں میں گم ہیں‘ یہ تمام لوگ جئے سندھ تحریک کا دست وبازو اور طاقت تھے جو آج اپنے اپنے دائروں میں سرگرم عمل ہیں۔گزشتہ برس 22 اگست2016 کو کراچی پریس کلب پر لندن سے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد مہاجر قوم پرست تحریک بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔
25 سال قبل ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرنے والے آفاق احمد مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) پاکستان کے چیئرمین اور روح رواں ہیں۔ اس عرصہ کے دوران چیئرمین عظیم احمد طارق نے اپنا گروپ قائم کیا تھا جنہیں بعدازاں قتل کردیا گیا اور ان کا گروپ ختم ہوگیا تھا۔ اب ایم کیو ایم چار واضح گروپوں میں تقسیم ہے جن میں سے تین گروپ ایم کیو ایم کے نام سے کام کررہے ہیں اور مصطفیٰ کمال‘ انیس احمد قائم خانی کی قیادت میں جو گروپ سندھ کی سیاست میں فعال ہے وہ پاک سرزمین پارٹی کے نام سے پورے ملک میں اپنی افزائش کے لئے سرگرم ہے۔ صوبے کی سیاست تبدیلیوں کے عمل سے گزررہی ہے۔ نئی قیادت اور نئی فکر منظر عام پر آنے کے لیے بے تاب ہے۔ پیپلز پارٹی کو بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں نوجوان اور پرجوش قیادت مل رہی ہے۔ ان کی دونوں بہنیں بختاور اور آصفہ بھٹو ان کے ہمرکاب ہیں لیکن تینوں بہن بھائی کی سیاست ان کے والد آصف علی زرداری کے زیر اثر ہے جن کا سیاسی ماضی زیادہ اُجلا نہیں ہے۔ ان کے ساتھ اگر مرتضیٰ بھٹو شہید کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو جو نیئر اور فاطمہ بھٹو بھی شامل ہوجائیں تو یہ پورے ملک کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوسکتے ہیں۔ پنجاب میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ہزاروں کارکن ایک مرتبہ پھر 1967 کا دور تازہ کرسکتے ہیں۔ حبیب اﷲ شاکر جیسے معروف لیفٹسٹ لیڈر بلاول بھٹو کے دست وبازو بن سکتے ہیں۔ 1970 کی سیاست کو پھر جگہ مل سکتی ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں اور اس سے قبل تشکیل پانے والے قوم پرست گروپ تحلیل ہورہے ہیں۔ بلاول بھٹو انہیں اپنے دامن میں سمیٹ سکتے ہیں۔ تحریک پاکستان سے وابستہ کراچی کا ’’ہارون خاندان‘‘ اور اس کے روح رواں عبداﷲ حسین ہارون بھی سندھ میں اپنے حامیوں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے ہیں ان کی زیادہ دلچسپی گو کہ کراچی کے علاقوں لیاری‘ابراہیم حیدری اور ملیر میں ہے لیکن قومی سیاست میں بھی ان کا اہم مقام ہے‘ عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کا بھی سندھ کی سیاست میں اہم مقام ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس سارے لشکر کو سمیٹنے کے لیے سندھ میں داخل ہوچکے ہیں انہوں نے جمعہ کی شب سکھر میں بہت بڑا اور تاریخی جلسہ عام منعقد کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ سندھ میں بھی ایک فرعون جلد کہے گا کہ اسے کیوں نکالا ہے۔ عمران خان نے سندھ کے گاؤں اور گلیوں میں جانے کا اعلان کیا ہے‘ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ بکھرے ہوئے قوم پرست سیاسی کارکن اور دانشور عمران خان کے چبوترے پر جمع ہوسکتے ہیں جہاں ان کے لیے دانہ پانی کا انتظام ہے۔ عمران خان کے ساتھ ان کی پارٹی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی بھی ہیں۔ جن کے سندھ میں لاکھوں مرید ہیں۔ سکھر کی جلسہ گاہ اس کا ثبوت ہے جہاں سروں کا سمندر موجیں ماررہا تھا۔
٭٭…٭٭