واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ میں لاکھوں روپے کے گھپلے … نیب نے تحقیقات شروع کردی
شیئر کریں
پی ایسIII کے آٹھ پراجیکٹس میں گھپلے بے قاعدگیاں منظرعام پرآنے کے بعد قومی احتساب بیوروکوحرکت میں آناپڑا
لیاری ریور کنڈیوٹ سیوریج لائنز پر 2007 سے اب تک6 ارب روپے خرچ کیے جاچکے‘ کام کہیں بھی نظر نہیں آتا
کراچی کے شہریوںکوپانی فراہمی کے لیے شروع کیے گئے ’’کے تھری منصوبے‘‘ میں بھی بڑے پیمانے پر خردبردسامنے آئی
نیب کی جانب سے تحقیقات کی اطلاعات کے بعد واٹربورڈکے متعلقہ افسران ‘انجینئروںا وردیگرملازمین میں کھلبلی مچ گئی
ایچ اے نقوی
قومی احتساب بیورو کراچی نے امتیاز مگسی کے زیر انتظام واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اپ گریڈیشن کے لیے کراچی واٹر اور سیوریج بورڈ کی جانب سے شروع کیے جانے والے ایس III پراجیکٹ میں مبینہ طورپر سنگین بد انتظامی اورلاکھوں روپے کے گھپلوں کے حوالے سے بڑھتی ہوئی شکایات کانوٹس لیتے ہوئے اس پروجیکٹ کے انتظام میں بدنظمی اور مالی کرپشن اور خورد برد کی تفتیش کا آغاز کردیاہے۔
واٹر بورڈ کے اندرونی ذرائع نے بتایا ہے کہ نیب نے 27 جولائی 2017 کو شہری انتظامیہ کے منیجنگ ڈائریکٹر ہاشم رضا زیدی کو اس حوالے سے ایک خط لکھاہے جس کا نمبر 200779/CVC-2412/10-6/NAB ہے۔اس خط میں ہاشم رضازیدی کو واٹر بورڈ کے مذکورہ پراجیکٹ میں مبینہ بد انتظامی اور مالی خورد برد اور کرپشن کی تحقیقات شروع کرنے کے بارے میں اطلاع دی گئی ہے، یہ بھی معلوم ہواہے کہ نیب کے ڈائریکٹر جنرل کے ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹاف محمد عامر نے واٹر بورڈ کے حکام کو پی ایسIII پراجیکٹ پر 2007 سے اب تک کام کرنے والے عملے اور ٹھیکیداروں کی تفصیلات اور پراجیکٹ کی پی سی ون طلب کی ہے۔انھوں نے واٹر بورڈ کے حکام کو 2007 سے اب تک مکمل کیے گئے اورزیر تکمیل تمام پراجیکٹس کی مکمل تفصیلات اور پراجیکٹس کے پی سی ون بھی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔اس کے علاوہ نیب نے واٹر بورڈ سے ایسIII پراجیکٹ کی بہتری کے لیے بنائے گئے نظرثانی شدہ پی سی ون اور دیگر تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔
واٹر بورڈ کے ذرائع کے مطابق ہاشم رضا نے نیب کا یہ خط موصول ہونے کے بعد اس حوالے سے نیب کی تفتیش کے دوران نیب حکام کو ان کی طلب کردہ تمام تفصیلات اور ڈاکومنٹس پیش کرنے اور اس تفتیش کے حوالے سے نیب کے حکام سے مکمل تعاون کے لیے ایس III کے اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر مختار علی کو اپنا ترجمان مقرر کردیاہے۔
ذرائع کے مطابق ہاشم رضا نے واٹر بورڈ کے تمام عملے کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اس تحقیقات کے حوالے سے نیب حکام کے ساتھ مکمل تعاون کریںاور نیب حکام کے طلب کرنے پر انھیں متعلقہ کاغذات اور ڈاکومنٹس اور فائلیںبلاتاخیر فراہم کیے جائیں تاکہ نیب کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے میں آسانی ہو اور یہ تحقیقات جلد مکمل کی جاسکے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وفاقی حکومت کی مرکزی ترقیاتی ورکنگ پارٹی اس پراجیکٹ کانظر ثانی شدہ پی سی ون پہلے ہی قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سامنے منظوری کے لیے ارسال کرچکی ہے، اطلاعات کے مطابق نظر ثانی شدہ پی سی ون میں اس پراجیکٹ کی لاگت کا تخمینہ 36.11 بلین روپے یعنی 36 ارب 11 کروڑ لگایاگیاہے۔
اطلاعات کے مطابق ایس III پراجیکٹ کے ایک حصے لیاری ریور کنڈیوٹ سیوریج لائنز پر 2007 سے اب تک کم وبیش6 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں جبکہ اس پراجیکٹ پر انجام دیا ہوا یہ کام کہیں نظر نہیں آتا اور اس سے لیاری ندی کے سیوریج لائز میں کہیں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔نیب کے ذرائع کاکہنا ہے کہ واٹر بورڈ کے اس پراجیکٹ میں خورد برد اور گھپلوں کی تفتیش کے دوران اس پراجیکٹ کے معاملات کی بھی تفتیش کی جائے گی اور اس پراجیکٹ میں کسی گھپلے کے انکشاف کی صورت میں متعلقہ حکام کے خلاف خواہ وہ کتنا ہی بااثر نہ ہو فوری کارروائی کی جائے گی۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ نیب کے حکام سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ (ایس ٹی پی ون) ہارون آباد وار ایس ٹی پی تھرڈ ماری پور کے معاملات کی بھی تفتیش کریں گے اس کے علاوہ نیب اس منصوبے کے دیگر 8 پراجیکٹس کے معاملات کی بھی تفصیلی تفتیش کرکے گھپلوں کے ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرے گا۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ ایس ٹی پی ون اور ایس ٹی پی تھرڈ بالترتیب 10 اور17 سال سے ناکارہ اور بیکار پڑے ہیں اور ان سے اس طویل عرصے کے دوران کسی طرح کا کوئی استفادہ نہیں کیا جاسکاہے جس کی بنیادپر یہ کہاجاسکتاہے کہ ان پراجیکٹس پر اب تک خرچ کی جانے والی خطیر رقم ضائع ہوچکی ہے جبکہ اس خطیر رقم سے شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی کے دوسرے منصوبوں کومکمل کیاجاسکتا تھا۔حکام کا موقف یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بروقت فنڈز فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے ان پراجیکٹس پر کام رکا ہوا ہے اورطویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کو مکمل کرنا ممکن نہیں ہوسکاہے۔
نیب کے اندرونی ذرائع سے یہ بھی رپورٹ ملی ہے کہ نیب کے حکام کراچی کے شہریوں کو اضافی پانی کی فراہمی کے لیے شروع کیے گئے پانی کے کے تھری منصوبے میں بھی مبینہ خورد برد کے معاملے کی تفتیش کریں گے۔ واٹر بورڈ کے اندرونی ذرائع کاکہناہے کہ نیب کی جانب سے ایس تھری منصوبے کے معاملات کی تفتیش شروع کرنے اور منیجنگ ڈائریکٹر کی جانب سے اس پراجیکٹ ہی کے اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر کو نیب سے تعاون کے لیے اپنا ترجمان مقرر کیے جانے کی خبر کے بعد اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ٹھیکیداروں، ان کے بلوں کی منظوری دینے والے انجینئروں اور افسران اور عملے کے دیگر ارکان میں کھلبلی مچ گئی ہے اور بعض افسران نے اس حوالے سے ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے ضمانت قبل از گرفتاری کرانے کے لیے وکلا سے رابطہ قائم کرنا شروع کردیا ہے۔تاہم اطلاعات کے مطابق وکلا نے ان افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس حوالے سے نیب کی کارروائی شروع ہونے کاانتظار کریں اور اپنی گرفتاری کا یقین ہوجانے کے بعد ہی اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کی در خواست جمع کرائیں ورنہ وہ بلاوجہ نیب حکام کی نظر میں آجائیں گے اور نیب حکام سب کچھ چھوڑ کر اپنی تفتیش کاآغاز ان ہی سے کرنے کی کوشش کرے گی ایسی صورت میں ان کی ضمانت قبل از وقت گرفتاری کاحربہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکے گاکیونکہ ٹھوس ثبوت ہونے کی صورت میں نیب حکام عدالت کے سامنے یہ ثبوت پیش کرکے ان کی ضمانت منسوخ کراسکیں گے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نیب کے قانون میں ترمیم اور نیب کی سرگرمیوں کو صرف وفاق تک ہی محدود کیے جانے کے بعد بھی نیب حکام اس معاملے کی تفتیش جاری رکھ سکیں گے یا قانون میں اس ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واٹر بورڈ کے ٹھیکیدار اور افسران کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔