’’انقلابی‘‘ نواز شریف
شیئر کریں
کیا سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اسلام آباد تا لاہور ریلی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا ’’ایکشن ری پلے ‘‘ ہے، جب وہ 1967ء میں وقت کے طاقتور حکمران صدر ایوب خان کو چھوڑ کر راولپنڈی سے ٹرین میں سوار ہوکر کراچی تشریف لائے تھے اور راستے میں جگہ جگہ ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا ۔ چاہتوں کے اس سفر نے ہی بھٹو مرحوم کو یہ حوصلہ دیا تھا کہ وہ اپنی نئی سیاسی جماعت قائم کریں۔ صدر جنرل ایوب خان سے جنگ لڑیں اور اقتدار کی منزل تک پہنچ جائیں۔اس لڑائی میں ان کا اسٹیبلشمنٹ سے تصادم ہوا ۔ سانحہ مشرقی پاکستان نے انہیں وزارت عظمیٰ کی گدی تک تو پہنچا دیا مگر اسٹیبلشمنٹ نے معاف نہیں کیا ۔ بالآخر 5 جولائی 1979ء کو انہیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا ۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی جان کا خطرہ موجود ہے ۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی ہے اور پاکستان کی عدلیہ کو للکارا ہے ۔ ان کا نشانا وہ پانچ جج صاحبان ہیں جنہوں نے انہیں اقتدار سے ہٹانے اور نا اہل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ جے آئی ٹی بنائی جس کی رپورٹ میاں نواز شریف کے خلاف ہے ۔ یہ معاملہ اب احتساب عدالت میں سماعت کے لیے جارہا ہے ۔ میاں نواز شریف کا مقصد احتساب عدالت پر دبائو ڈالنا ہے ۔ ملک میں ان کے نامزد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت ہے ۔ اس کے باوجود میاں نواز شریف نے ریلی نکالی ہے اور راستے میں پڑائو ڈالتے ہوئے جلسوں سے خطاب کیا ہے ۔ ان کی تقاریر طنز کے زہر سے آلودہ تھیں ۔ ان کا شکوہ ہے کہ پانچ ججوں نے ایک منٹ میں عوام کے منتخب وزیر اعظم کو فارغ کردیا ۔ سابق وزیر اعظم کی تقاریر میں فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی نشانا بنی ۔ ان کا کہنا تھا کہ 70سال سے پاکستان کے وزرائے اعظم کے ساتھ یہی سلوک ہوتا آیا ہے ۔ اس دوران 18 وزیر اعظم برسر اقتدار آئے اور سارے مدت پوری کیے بغیر اقتدار سے ہٹا دیے گئے ۔ یہ سوال حقیقتاً پریشان کن ہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے آصف علی زرداری تو اپنے 5 سال پورے کرکے اقتدار سے الگ ہوتے ہیں اور وزرائے اعظم کیوں اپنی مدت پوری نہ کرسکے ۔ یہ فرق سیاست کا ہے ۔ سوچ اور سمجھداری کا ہے ۔ جن افراد کو نواز شریف ’’کون ہیں یہ لوگ جنہوں نے اقتدار سے ہٹایا‘‘ کہہ کر مخاطب کررہے ہیں ،ان ہی لوگوں نے تو ان کا ہاتھ پکڑ کر پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب اور پھر وزیر اعظم بنایا تھا ۔پاکستان میں ووٹوں کی شرح تو 30 فیصد بھی نہیں ہوتی ‘ پس پردہ فرشتے ہی جوڑ توڑ کے ذریعے وزیر اعظم یا صدر بنواتے ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوکر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ ’’مہربانوں‘‘ کی وہ عنایت بھی جو وزیر اعظم بنواتی ہے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جلسہ عام کے دوران گولی مار کر شہید کردیا گیا تھا ۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ پاکستان سے جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کی بات کابینہ کے اجلاس میں کردی تھی ۔ اس کابینہ کے بیشتر اراکین جاگیردار اور وڈیرے تھے ۔ وہ اپنا خاتمہ کیوں کراسکتے تھے ۔ چنانچہ افغانی قاتل سید اکبر تلاش کیا گیا جس نے اُنہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام کے دوران گولی مار کر شہید کردیا ۔
انقلاب کے لیے انقلابی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 1947ء کے بعد والی مسلم لیگ جاگیرداروں ‘ وڈیروں اور مفاد پرستوں پر مشتمل تھی ۔ میاں نواز شریف کی پارٹی بھی بیشتر ان ہی موروثی سیاستدانوں اور سیاسی خانوادوں پر مشتمل ہے، ان کی بنیاد پر وہ کون سا انقلاب برپا کرسکتے ہیں یہ مستقل مفاد کے حامل لوگ ہی تو انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ ڈر یہ ہے کہ یہ لوگ میاں نواز شریف کو بھی پانی پر چڑھا کر ان کی بلی نہ چڑھا دیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی زیادہ ریڈیکل اور انقلابی پروگرام کی حامل تھی مگر انقلاب اس لیے نہ لاسکی کہ ذوالفقار علی بھٹو خود جاگیردار تھے، اُن کا رویہ جاگیردارانہ تھا ۔ اُنہوں نے جنرل ایوب خان کی گود میں بالکل اسی طرح سے پرورش پائی تھی جیسے میاں نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں اقتدار کا سفر شروع کیا تھا اور جنرل جیلانی کی گود میں پلے بڑھے تھے ۔ پاکستان میں انقلاب کے دعویداروں کو پہلے طبقاتی فرق ختم کرنا ہوگا ۔ یہ نہیں چل سکتا کہ غریب عوام کے بچوں کو تو اپنے ہی ملک میں کالا پیلا اسکول بھی میسر نہ ہو اور اقتداری ٹولے کے بچے بیرون ملک حلیم کے مزے لوٹیں ۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نہایت شدت سے تین فوجی حکمرانوں ایوب خان ‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا ذکر کررہے ہیں کہ ان ’’ڈکٹیٹروں‘‘ نے 30 سال حکومت کی ہے ۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ جنرل ایوب خان کے دور میں سب سے زیادہ صنعتی ترقی ہوئی اور پی آئی ڈی سی جیسا ادارہ وجود میں آیا ۔ سویلین حکمرانوں نے اس ادارے کا حلیہ بگاڑ دیا اور آج یادگار کے طورپر کراچی میں صرف ایک پی آئی ڈی سی بلڈنگ رہ گئی ہے۔ کراچی کو اس کے میئر مصطفی کمال کے ذریعے جنرل پرویز مشرف نے بنایا ۔ اتنا کام کسی بھی سویلین حکمران نے نہیں کیا ۔ پاکستان میں ترقیاتی فنڈز خورد برد کرکے سرے محل اور رائے ونڈ محل بنانے والے سویلین حکمرانوں نے پاکستانی قوم کو ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے جال اور زنجیروں میں جکڑ دیا ہے جو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور سفر کے دوران جگہ جگہ انقلاب لانے کی بات کی ہے اور عوام سے کہا ہے کہ وہ ان کے اگلے اعلان کا انتظار کریں، اگر چہ عوام ان کی کال پر سڑکوں پر نکلے تو پیپلز پارٹی ‘ تحریک انصاف ‘ جماعت اسلامی بھی خاموش نہیں رہیں گی ۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی نے بڑے جلسے کیے ہیں ۔ وہ اب’’ میثاق جمہوریت‘‘ کے فریب میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ انقلاب لانے کے لیے انقلابی پارٹی بنانا ہوگی ‘ پارٹی کی صفوں سے وڈیروں کو نکال باہر کرنا ہوگا ،اپنی بودوباش اور رہائش کو تبدیل کرنا پڑے گا ۔ بیرونی ملکوں میں جمع اربوں روپے کا سرمایہ واپس لانا ہوگا ۔ عوام اور پاکستان سے سچی محبت کا اظہار کرنا ہوگا ۔ پاکستان کو اون کرلیا تو خود بخود انقلاب آجائے گا ۔
٭٭…٭٭