ایک روشن چراغ تھا نہ رہا۔۔۔ڈاکٹر رتھ فائو بھی چل بسیں!
شیئر کریں
جذام کے مریضوں کا علاج کرنے والی ‘پاکستان کی مدر ٹریسا ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی میں انتقال کرگئیں۔کراچی کے علاقے صدر میں جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے قائم میری ایڈیلیڈ سینٹر کے سی ای او کے مطابق 88 سالہ ڈاکٹر وتھ فاؤ 2 ہفتے سے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھیں جہاں گزشتہ رات ساڑھے 12 بجے ان کا انتقال ہوا۔میری ایڈیلیڈ سینٹر نے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر روتھ فاؤ کی صحت یابی کے لیے دعا کی اپیل بھی کی تھی۔ڈاکٹر رتھ فاؤ 1960 میں جرمنی سے پاکستان آئی تھیں، انہیں 1979 میں ہلال امتیاز اور 1989 میں ہلال پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ڈاکٹر رتھ فاؤ کو 1988 میں پاکستانی شہریت دی گئی، ان کی کوششوں کی بدولت پاکستان کو 1996 میں جذام فری ملک قرار دیا گیا۔میری ایڈیلیڈ سینٹر کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 55 سالہ سے جذام کے مریضوں کا علاج کرنے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ کے نام پر 2017 میں تیسری مرتبہ آئی ایم کراچی (آئی اے کے) ایوارڈ بھی دیا گیا۔
ڈاکٹر رتھ فائو نے فلاحی کاموں کی ابتدا جرمنی میںراہباؤں کی ایک جماعت، ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری، سے کی جس کی وہ آخر دم تک رکن رہیں، اسی تنظیم نے طالب علموں کی طبی خدمت کے لیے انہیں 1960 میںپاکستان بھیجا- اس وقت ڈاکٹر رتھ فائو کا ارادہ تھا کہ وہ بھارت بھی جائیں گی تاہم قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا- جب انہوں نے پاکستان میںجذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں ان کی ضرورت زیادہ ہے ،انھوں نے اپنی تنظیم کے ہیڈ آفس کو خط لکھ کر پاکستان کو ہی اپنی سرگرمیوں کامرکز بنانے کی اجازت مانگی اور بھارت کے لیے متبادل انتظام کرنے کو کہا ان کی تنظیم نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے انھیں پاکستان کو ہی اپنا گھر اورمستقل مسکن بنانے کی اجازت دے دی جس کے بعد وہ بھارت گئیں اور وہاں جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال کی خصوصی تربیت حاصل کرکے پاکستان آگئیںاور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔
ڈاکٹر فاؤ نے جذام کے مریضوں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف حصوں کا دورہ کیا- اس سفر کو انہوں نے بہت زیادہ انجوائے کیا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کی حالت میں بہتری کی جانب واضح فرق نظر آناشروع ہوگیا۔ ڈاکٹر رتھ فائو کی کوششوں کی کامیابی کے نتیجے میں 1996 میں، عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو، ایشیا کے ان اولین ملکوں میں سے ایک قرار دیا جہاں جذام پر قابو پا لیا گیا ہے۔ایک مرتبہ جب ایک صحافی نے ان کا انٹرویو کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ اگر انہیں انتخاب کا موقع دیا جائے تو کیا وہ کسی اور ملک میں کام کرنا چاہیں گی تو ان کا فوری جواب تھا ‘نہیں۔ اپنی زندگی میں اگر میں کوئی چیز ٹھیک کرنا چاہوں گی تو بس میں اتنا چاہوں گی کہ کاش میں جب پاکستان آئی، اس سے تین سال پہلے آ جاتی’۔پاکستان میں اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وہ ہمیشہ یہی بات دُہراتی تھیں کہ میں اس بات کو نظر انداز نہیں کر پائی کہ اس ملک کے بارے میں کتنی پرامید ہوں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے مثبت خیالات کے باوجود ایسے مواقع بھی آئے جب ڈاکٹر فاؤ کا خیر مقدم نہیں کیا گیا- انہوں نے پاکستان کے ایسے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا جہاں جذام کے مریضوں کے لیے کوئی بھی طبی سہولتیں موجود نہیںتھیں اور جہاں اگر وہ خواتین مریضوں کا معائنہ کرتیں تو لاٹھی بردار مردوں کی جانب سے انھیں دھمکایا گیا۔ ایم اے ایل سی پر ایسے کڑے وقت بھی آئے جب ڈاکٹر فاؤ نے مریضوں کے لیے پیسے حاصل کرنے کے لیے اپنے انعامات اور اعزازات بیچ ڈالے- ڈاکٹر فاؤ کاکہناتھا کہ یہ انعامات اور اعزازات ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے اگر ان کے مریض تکلیف میں مبتلا رہیں۔ڈاکٹر رتھ فائو کا قائم کردہ اسپتال، ایک آنکھوں کے وارڈ پر مشتمل ہے جبکہ یہاں ٹی بی کے مریضوں کا بھی مفت علاج اور دوا دونوں مفت فراہم کیے جاتے ہیں- ایک سماجی/سوشل ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جہاں لوگ مالی امداد کی تلاش میں آتے ہیں۔جذام سے شفایابی کے عمل کے سب سے زیادہ اہم مرحلے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، ایم اے ایل سی نے ایک بحالی کا پروگرام شروع کیا ہے جہاں جذام کے مریضوں کے خاندانوں کی کونسلنگ اور مشورہ دیا جاتا ہے- یہاں، بیماری کے بارے میں بیداری اور سمجھ پیدا کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ڈاکٹر فاؤ کی ترجیح ہوتی تھی کہ وہ اپنے جذام کے مریضوں کو اسپتال میں نوکری دیں تاکہ ان میں یہ احساس اجاگر ہو سکے کہ ان کی زندگی معمول پر آ چکی ہے۔ ایم اے ایل سی کے کچن مینیجر اور ایک گارڈ ان کی اس ترجیح کا ثبوت ہیں۔ بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی طرف سے ایم اے ایل سی کو اعزازی ادویات فراہم کی جاتی ہیں جنہیں یہ ادارہ اپنے مریضوں کو بلا معاوضہ فراہم کرتا ہے- ڈاکٹر رتھ فائو کی زندگی اور دکھی انسانوں کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کی جستجو اور خواہش اور اس میں ان کی کامیابی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سچی ہمت ہو تو کوئی مذہب ، زبان اور عقائد آڑے نہیں آتے یہی وہ سچی لگن اور ہمت تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر فاؤ نے اپنا آبائی ملک چھوڑ کر ایک نامعلوم، اجنبی اور کبھی کبھی مخالف ایسے لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کافریضہ انجام دینے کی راہ کاانتخاب کیا جو مصیبت اور تنہائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ان کا بے لوث کام کسی کو بھی بنی نوع انسان کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے- ایک دوسرے کا خیال کرنے کے حوالے سے ہم کتنی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں؟ بے شک، آج ہمیں اس کا جواب دینا چاہئے۔کیا یہ ہمیں ہمارے گھروں اور دنیاوی آرام کو پیچھے چھوڑنے کے لیے کافی ہے؟ہو سکتا ہے کہ اس کا جواب مشکل ہو لیکن یہ تو آسان ہے کہ ہم ان لوگوں کے شکر گزار ہوں جنہوں نے ایسا کیا- جنہوں نے بنا کسی دعوت کے، بنا کسی کے کچھ کہے، ہمیں دکھایا کہ بے حسی کے گراں بار تلے بھی کیسے انسانیت اپنی فتح کی راہ بناتی ہے۔
اب جبکہ ڈاکٹر رتھ فائو جنھیں بجا طورپر لوگ ماں کہہ کر پکارتے تھے ہمارے درمیان نہیںرہیںاب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیاہمارے درمیان اب ایسا کوئی فرد ہے جو ان کے اس خلا کوپر کرسکے اور ان کی طرح ان کے قائم کردہ ادارے کو چلاسکے، دکھی انسانوں کی خالص انسانیت کے جذبے کے تحت خدمت کرسکے، اگر چہ ڈاکٹر رتھ فائو نے اپنی زندگی کے دوران اپنے بعض ساتھیوں کو اس جذبے سے ہمکنار کرنے اور انھیں انسانیت کی خدمت کی اہمیت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی قلبی خوشی اور طمانیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہوگی اور وہ اس آڑے وقت میں اس ادارے کو چلانے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑھتی ہوئی مادیت پرستی
کے اس دور میں ایسے مخلص لوگوں کی کمی پوری کرنے کے لیے لوگوں کی اخلاقی بنیادوں پرتربیت کی جائے تاکہ کسی ایک فرد کی وجہ سے پورے پورے اداروں کا وجود ختم ہونے کااندیشہ نہ رہے ۔امید کی جاتی ہے کہ معاشرے کے باشعور افراد اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔