سپریم کورٹ اور فوج کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی خطرناک ہے
شیئر کریں
میاں محمد نواز شریف نے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقلی کو سیاسی بنا دیا ہے جسے ’’تاریخی استقبال‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس مہم جوئی کے دو ہی مقاصد ہوسکتے ہیں اداروں کو پیغام دینا اور مخالفین کو ’’اسٹریٹ پاور‘‘ سے آگاہ کرناہے بظاہر ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ عدالت سے نااہل قرار دئے جانے کے باوجود اْن کی مقبولیت میں رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا۔ لاہور آمد کے سلسلے میں موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ کا انتخاب اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مسلم لیگ ن مخالفین کے سامنے ’’پاور شو‘‘کرنا چاہ رہی ہے،بظاہر یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ ایک جذباتی فیصلہ ہے لیکن یہ کوئی جذباتی فیصلہ ہرگز نہیں ہے بلکہ انتہائی سوچ سمجھ کر کیاگیا فیصلہ ہے نواز شریف کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ اور فوج کے ساتھ ٹکرائو کی کیفیت پیدا کرنا چاہ رہے ہیں، پہلے حکومتیں برطرف ہوتی تھیں تو حالات کسی اور طرف بڑھ جاتے تھے، لیکن اب حکومت نہیں وزیراعظم برطرف ہوئے ہیں اور حکومت قائم ہے، اس لئے غالباً نواز شریف کو یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شائد اس طرح کا راستہ اختیار کرنے میں ان کیلئے بہتری پیدا ہو سکتی ہے لیکن ان کی اس سوچ کوکسی طرح درست قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کی مثالیں ان کے سامنے ہیںاور نواز شریف کو ان سے سبق حاصل کرناہوگا،نواز شریف کو یقینا یہ معلوم ہوگا کہ جب امریکہ میں جارج بش کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو انہوں نے وہاں نہ تو احتجاج کیا اور نہ ہی جلوس نکالے۔مگر ہمارے ہاں عجب صورتحال ہے، اچھی سیاست ممکنات کا کھیل ہوتی ہے، ہمارے خیال میں میاں نواز شریف نے پاور شو اور ٹکرائو کاجو راستہ چنا ہے اس سے انکی حب الوطنی پر بھی سوال اْٹھائے جائیں گے۔
میاں نواز شریف کو اپنے مقدمات کا سامنا ’’عوامی عدالتوں‘‘ میں نہیں بلکہ پاکستان کی عدالتوں کے سامنے ہی کرنا چاہئے تاکہ وہ بطور قومی لیڈر دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ ہمیں اپنے اداروں پر مکمل اعتماد ہے اور اہم اپنے اداروں کے پیچھے ہر حال میں کھڑے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں اور اس جنگ کو سیاسی جنگ بنا دیتے ہیں تو اس سے ملک کا نقصان ہو گا، معیشت کا نقصان ہو گا اور سچی بات تو یہ ہے کہپوری دنیا میں پاکستان کا امیج بھی خراب ہو گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج خود حکومت اپنے خلاف ’’اپوزیشن‘‘ کرتی نظر آ رہی ہے، اپنے ہی اداروں کیخلاف سڑکوں پر آ چکی ہے، اوراپنے ہی دور میں اپنے ہی اداروں کے سامنے پیش ہونے سے ڈر رہی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس پر سیاسی الزامات لگا کر اْن کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ ایسا طرز عمل ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اگر نواز شریف اوران کے رفقا کو اس بات کایقین ہے اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں اور ان پر الزامات کی سیاست کی جا رہی ہے تو انھیں مکمل اعتماد کے ساتھ اداروں کا سامنا کر کے قوم اور دنیا کیلئے ایک روشن مثال قائم کرنی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی احتساب کے نام پر سیاست نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ نے انھیں موقع دیاہے کہ وہ احتساب کے اداروں کے پاس جاکر اپنے آپ کو کلیئر کرائیں ۔
میرے خیال میں موجودہ بحرانی وقت میں اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کیلئے نواز شریف کو کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ایک منشور اور سیاسی پروگرام کے تحت پارٹی کا ڈھانچہ بنانے کیلئے کام کا آغاز کرنا چاہئے جہاں صرف خاندان کی اجارہ داری نہ ہو بلکہ سیاسی کام کرنے والے اور صلاحیت کا مظاہرہ کرنے والے کسی بھی شخص کیلئے اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کرنا ممکن ہو۔نواز شریف کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اْنکے4 سالہ دور حکومت کے دوران پاکستان کس قدر خارجی مسائل کا شکار ہو چکا ہے اور جس طرح کی خطرناک صورتحال اس خطے میں ہے خاص طور پر افغانستان ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے، ہمارے احسانات کو بھلا کر بھارت کی زبان بول رہا ہے جبکہ ازلی دشمن بھارت پوری دنیا میں پاکستان کیخلاف زہریلا پراپیگنڈہ کررہا ہے،سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، افغانستان میں اپنی فوجوں کی غیر معینہ مدت تک برقرار رکھنے کے اشارے سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کیلئے مزید مشکلات بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قطر اور سعودی ریاستوں میں بھی پاکستان کے حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت عرب ممالک میں کم و بیش 60 سے 70 لاکھ پاکستانی موجود ہیں اور ان ملکوں میں کشیدہ مالی حالات کی وجہ سے غیر ملکی تارکین وطن پر سختی ہو رہی ہے۔ اس صورت میں پاکستانی وطن واپس آ رہے ہیں، ہم سب کو محب وطن قوم بن کر آگے بڑھنا چاہئے۔ اسی طرح سوچنا چاہئے اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ایک بڑا نقصان ہو گا ۔
آج کی صورت حال کاجائزہ لیاجائے تو یہ واضح نظر آتاہے کہ پاکستان کی3 بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کو فروغ دے رہی ہیں، پاکستان اور اس کے عوام ان جماعتوں کی ترجیح ہی نہیں ہیں اور رہی بات احتساب کی تو پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی شاید ایسا نہیں سوچ رہی ہیںکہ میرٹ پر احتساب ہو۔ تینوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ایک دوسرے کے پردے چاک کر رہے ہیں، یہ رویہ سیاسی ناپختگی اور فیصلے کرنے کی قوت سے عاری ہونے کا عملی ثبوتہے۔ سیاستدان تدبیر، ترکیب اور تربیت کو آگے لیکر بڑھتا ہے۔ اس لئے تمام سیاستدانوں کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ ملک میں تعلیم، صحت، امن و امان اور معیشت اور ان 10 کروڑ نوجوانوں کیلئے روزگار پیداکرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے جو اس قوم کی حالت بدل سکے اور یہ کام کوئی بھی کرے خواہ سیاستدان کریں، اسٹیبلشمنٹ کرے یا عدالتیں کریں عوام اْسی کے ممنون و شکر گزار رہیں گے۔ اگر آپ سی پیک کے ثمرات سمیٹنا چاہتے ہیں تو صحت، تعلیم، تربیت اور امن و امان کے پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا چاہئے۔ قوم کو ٹیکنالوجی سے آشنا کریں، قوم کو انڈسٹری کے فوائد سے آشنا کریں، زمینوں کے کاروبار سے باز رکھیں۔
آخر میں میاں نواز شریف سے یہ کہاجاسکتاہے کہ میاں صاحب آپ نااہل ہو گئے ہیںاب اس فیصلے کو غلط ثابت کرکے اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج حضرات کومشکوک بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے ، اب نیب کے ریفرنسز کا مقابلہ کریں آپ کی جگہ نیا وزیراعظم آ گیا ہے جو آپکی ہی پارٹی کا ہے، اپنی حکومت کو احتیاط اور تدبر سے چلائیں، یہی بہترین راستہ ہے۔ سیاست کو ضرور مضبوط کیا جائے لیکن اس کیلئے ریاست اور ریاستی اداروں کو کمزور نہ کیا جائے، لڑائی کا راستہ اچھا راستہ نہیں ہے، سٹریٹ پاور ضرور دکھائیں، جلسے ضرور کریں، لیکن یہ وقت مناسب نہیں یہ وقت خطرناک ہے اس لئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔
امید کی جاتی ہے کہ نواز شریف اب بھی ہوش کے ناخن لیں گے اورعوام کو گمراہ کرنے کیلئے اسٹریٹ پاور جیسے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرنے کے بجائے احتساب عدالتوں سے خود کو کلیئر کرانے کی کوشش کریں۔اگر وہ اپنے آپ احتساب عدالتوں سے کلیئر کرانے میں کامیاب ہوگئے تو یقینا ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوگا اور اگلے عام انتخابات میں ان کی جماعت کو پہلے سے زیادہ بھاری اکثریت سے کامیابی ملنے کاامکان رد نہیں کیاجاسکتا۔
٭٭…٭٭