نااہلی کیس، غیر ملکی فنڈگ پر ہر سیاسی جماعت کو حساب دینا ہوگا، سپریم کورٹ
شیئر کریں
اسلام آباد (بیورو رپورٹ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران خان کی نا اہلی اور ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کے دور ان کہاہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کی شق 17 کی ذیلی شق 3 کے تحت ہر سیاسی جماعت فنڈز کی تفصیلات فراہم کرنے کی پابند ہے ٗ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو کلیئر قرار نہیں دیا،جبکہ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیئے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے غلط دستاویز سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے ٗچاہتے ہیں کہ عدالت میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے پیرکو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کی۔سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ امید کرتا ہوں انور منصور صاحب آپ کی طبیعت اب بہتر ہوگی جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ دستاویزات جمع کرائی ہیں تاہم زیادہ دیر کھڑا نہیں ہو سکتا ٗ تحریری معروضات میں سوالوں کے جواب دے چکا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کہتے ہیں الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈز پر فیصلہ نہیں دے سکتا جس پر انور منصور نے کہا کہ جی بالکل ٗالیکشن کمیشن یہ کیس نہیں سن سکتا ٗپولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں پورا قانون تبدیل کر دیا گیا تھا ٗچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کا کہنا ہے اکاؤنٹ رپورٹ کے بعد الیکشن کمیشن اکاؤنٹس نہیں دیکھ سکتا جس پر انور منصور نے کہا کہ میرا موقف ہے رپورٹ جمع کروانے کے بعد آڈٹ نہیں کرا سکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت فنڈنگ ذرائع بتانے کی پابند ہے جس پر انور منصور نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا میں جوابدہ نہیں ہوں، عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق ہر جماعت کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا جواب حتمی ہے، جبکہ الیکشن کمیشن آپ کو سنے بغیر فیصلہ نہیں کریگا۔ انور منصور نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کو نہ چنا جائے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون کے مطابق آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف مجھے سزا نہ دیں ٗآپ اپنے موقف سے خود کو الزام سے صاف کریں۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میرے جواب پر اعتراض سے پہلے وکیل انورمنصور پورا پیرا پڑھیں، جبکہ بدنیتی اور فراڈ پر مبنی جواب پر الیکشن کمیشن معاملہ کو دیکھ سکتا ہے ٗ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے عمومی بات کی ہے کسی کو منسوب نہیں کیا۔ وکیل انور منصور نے کہا کہ عدالت جواب کو شروع سے پڑھے تو فراڈ کا لفظ پی ٹی آئی کیلئے استعمال کیا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو اکاؤنٹ کی جانچ کا حق حاصل ہے، الیکشن کمیشن اکاؤنٹینٹ کی رپورٹس کو قبول اور مسترد کر سکتاہے اور کیا اگر چند سال بعد الیکشن کمیشن کو پتہ چلے تو وہ اس کو نظر انداز کر دیگا ٗ فارن فنڈنگ کی معلومات تو دوسرے ذرائع سے آئیگی۔وکیل عمران خان انور منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں یہی کررہی ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرعمران خان کا ڈکلیئریشن غلط نکلے اور ہم معاملہ الیکشن کمیشن بھیجیں تو آپ کی قیادت کا کیا موقف ہوگا ٗانور منصور نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر کمیشن بنا سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ادارے کو چھوڑ کر کمیشن کیوں بنانا چاہیے؟انور منصور نے کہا کہ سیاسی جماعت کے نجی اکاؤنٹس کی تشہیر نہیں کی جاسکتی جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کے اکاؤنٹس نجی کیسے ہو سکتے ہیں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون میں لکھا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کے اثاثے ظاہر کئے جائیں جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ قانون میں ایسا نہیں لکھا جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہر سال الیکشن کمیشن ان کی شفافیت کو مد نظر رکھ کر پبلک کرتا ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر سیاسی جماعت نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ حساب الیکشن کمیشن نے لینا ہے جس پر انور منصور نے کہا کہ حساب تو سب نے دینا ہے عدالت نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت (آج) منگل کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔