02 نومبریوم شہادت.... مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
تقسیم ہند سے پہلے کسی زمانے میںمتحدہ ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے ¾ صوبہ سرحد (جس کا نیا نام اب صوبہ خیبر پختون خواہے ) چند قبائل پختون قبائلی علاقے سے ہجرت کرکے ہندوستان کے موجودہ دارالخلافہ ”دہلی“ میں وارد ہوئے تھے ، جن میں سے ایک خاندان حکیم مختار حسن خان حاذق کے آباو¿ اجداد کا بھی تھا ۔ حکیم مختار حسن خان حاذق نہایت متواضع ، منکسر المزاج ، دیانت و امانت دار ، مخلوق خدا کے خدمت گار اور علماءوصلحاءکے نہایت ہی قدردان تھے۔ آپ دہلی کے رہنے والے تھے اس لیے دہلی ہی میں ”طب“ کی تعلیم بھی حاصل کرنا شروع کردی ، یہاں تک طب و حکمت اور حذاقت و مہارت میں اپنا نام اتنا پیدا کیا کہ لفظ ” حاذق©©“ آپ کا تخلص بن کر رہ گیا ۔
۴۴۹۱ ءمیں حکیم مختار حسن خان حاذق دہلوی کے یہاں ایک بچے نے جنم لیا ، جس کا نام انہوں نے ”حبیب اللہ مختار“ تجویز کیا۔ حبیب اللہ مختار نامی بچے نے جب اپنی زندگی کی تیسری بہار میں قدم رکھا تو اس وقت ہندوستان کی تقسیم کا وقت آن پہنچا تھا اور مسلمانوں کے لیے الگ سے ایک نئے اور خود مختار اسلامی ملک کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا جس کے نتیجہ میں ۷۴۹۱ ءمیں ہندوستان کی تقسیم کا مرحلہ آیااور اس کے نتیجہ میں بالآخر بڑی کوششوں اور انتہائی جدوجہد کے بعد ہمارا یہ وطن عزیز ملک پاکستان عدم سے وجود میں آیا ، یوں حکیم مختار حسن خان حاذق دہلوی اپنے اہل و عیال اور اپنے بال بچوں سمیت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرکے یہاں شہر قائد کراچی میں سکونت پذیر ہوگئے اور اپنے اسی طب و حکمت کے شعبے سے دوبارہ وابستہ ہوگئے۔
حکیم مختار حسن خان حاذق دہلوی نے خاندانی رسوم و آداب کے تحت سن شعور میں داخل ہوتے ہی اپنے اس ہونہار فرزند کے لیے گھر کے دینی ماحول کے ساتھ ساتھ دینی درس گاہ کے تعلیمی ماحول کا انتظام بھی فرمایا اور اس وقت کراچی کے مشہور و معروف مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ کی قائم کردہ عظیم دینی درس گاہ ”دار العلوم نانک واڑہ“ ( جو آج کل ”دار العلوم کراچی“ کے نام سے مشہور ہے ) میں ابتدائی دینی تعلیم کے لیے داخل فرمایا ، لیکن جب محرم ۴۷۳۱ ھ بمطابق ۴۵۹۱ ءمیں محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمة اللہ علیہ نے اپنے مدرسہ ”مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاو¿ن “ (جوکہ آج کل” جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاو¿ن “کے نام سے مشہور میں ہے ) کی بنیاد رکھی تو حضرت بنوریؒ کی تکوینی و روحانی کشش حکیم مختار حسن خان حاذق دہلوی کے اس ہونہار فرزند حبیب اللہ مختار کو دار العلوم کراچی سے کھینچ کر بنوری ٹاو¿ن لے آئی ، چنانچہ یہاں بنوری ٹاو¿ن آکر آپ نے درس نظامی کی تکمیل کی اور ۳۶۹۱ ءمیںیہیں سے سند فراغت حاصل کی ۔
درس نظامی سے فراغت حاصل کرنے کے بعد حضرت بنوریؒ کے ہی ایماءپرمزید علمی تشنگی بجھانے کے لیے آپ نے فقہ و حدیث میں تخصص کی طرف رجوع کیا اور ان دونوں موضوعات میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے بھر پور جوہر دکھلائے ، چنانچہ دارالافتاءمیں رہ کر حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمة اللہ علیہ کی زیر تربیت علمی و تحقیقی فتاویٰ کی مشق کی اور حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمة اللہ علیہ کے زیر سایہ رہ کر” تخصص فی الحدیث النبویہ“ کیا اور ” ا¿لسنة النبویة والقرآن الکریم “ کے عنوان سے ”حجیت حدیث “ کے نام سے وقیع علمی وتحقیقی مقالہ سپردِ قلم فرمایا ، جس کے امتیازی نمبروں کی بناءپر آپ ” تخصص ف¸ الحدیث النبویة “ کی سند کے اعزاز کے نوازے گئے۔
۶۶۹۱ ءمیں حضرت بنوری ؒ کے حکم سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور چار (۴) سال تک وہاں زیر تعلیم رہے ، وہاں سے چار (۴) سالہ نصاب مکمل کرکے ۰۷۹۱ ءمیں واپس بنوری ٹاو¿ن تشریف لائے ، اس کے بعد ۳۷۹۱ ءمیں جامعہ کراچی سے آپ نے ایم ، اے اسلامیات کیا ، جس میں آپ نے پہلی پوزیشن لے کر گولڈ میڈ لسٹ کا اعزازحاصل کیا اور ۱۸۹۱ ءمیں جامعہ کراچی سے ہی پی ، ایچ ، ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ تمرین اور تدریس کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا ۔
مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے علمی استعداد ، ذہانت و فطانت ، اعلیٰ اوصاف اور بلند اخلاق اور انتظامی صلاحیتوں کا وافر حصہ عطاءفرما رکھا تھا ۔ آپ نے اپنی زندگی کا کوئی ایک لمحہ بھی ضائع نہیں فرمایا بلکہ وقت کی قدر و قیمت کا احساس کرتے ہوئے اور عمر عزیز کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک امانت سمجھتے ہوئے ہمہ وقت آپ تعلیمی ، تدریسی ، تصنیفی اور انتظامی معاملات میں مگن رہے ۔ تاریخ نے ہمیشہ وقت کے قدر دان لوگوں کی قدر کی ، اسی بناءپر آپ کے تاریخی اور علمی کارہائے نمایا ں بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے مشعل راہ اور ایک روشن قندیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ خالص علمی اور تحقیقی کاموں سے تعلق رکھتے تھے ، عربی ادب سے خصوصی لگاو¿ تھا ۔ آپ نے اپنے پیچھے بے شمار تصانیف و تالیفات اور تراجم کے علاوہ تلامذہ کی صورت میں ذی استعداد علمائے کرام کی ایک پوری جماعت یاد گار چھوڑی ہے ۔
جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاو¿ن سے آپ کا آغاز ایک مدرس اور رفیق دار التصنیف کی حیثیت سے ہوا ۔ تدریس کے میدان میں ابتدائی کتب سے لے کر درس نظامی کی آخری حدیث کی سب سے بڑی کتاب صحیح بخاری تک ہر اہم کتاب آپ کے زیر درس رہی ۔۶۱۴۱ ھ بمطابق ۵۹۹۱ ءمیں جامعہ بنوری ٹاو¿ن کے ناظم تعلیمات اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کے وصال پر ملال کے بعد صحیح بخاری کے دونوں حصے آپ ہی کے زیر درس رہے ۔ رفیق دار التصنیف کی حیثیت سے آپ نے اپنے استاذ اور شیخ حضرت بنوری ؒ کے کئی علمی و تحقیقی خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا ، جن میں ” کشف النقاب عما یقولہ الترمذ¸ وف¸ الباب “ سر فہرست ہے جس کی پانچ (۵) ضخیم جلدیں منصہ شہود پر آچکی ہیں ۔ اس کے علاوہ (۰۵) سے زائد چھوٹی اور بڑی کتابیں اور تراجم اپنے علمی ورثہ میں یادگار چھوڑیں اور یوں حضرت بنوریؒ کے دار التصنیف کی رفاقت کے لیے اپنے انتخاب کو درست ثابت کردکھایا ۔
بالآخر ۲ رجب المرجب ۸۱۴۱ ھ بمطابق ۲/ نومبر ۷۹۹۱ءکو آپ کی مظلومانہ شہادت کا سانحہ¿ فاجعہ اس وقت پیش آیا جب آپ اپنے چند رفقاءکے ہمراہ اپنے ادارے کی ایک برانچ میں ایک تصفیہ طلب مسئلے کے حل کے لیے تشریف لے گئے اور واپسی پر آپ کی گاڑی ”گرومندر“ کے قریب جامعہ بنوری ٹاو¿ن سے چند قدم کے فاصلے پر پہنچی تھی کہ دن دیہاڑے لوگوں کے ایک جم غفیرکے سامنے آپ کو اپنے رفیق مولانا مفتی عبد السمیع اور ڈرائیور محمد طاہر کے ہمراہ شہید کردیا گیا اور یوں جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاو¿ن کا یہ نامور علمی سپوت اور علم و فضل کایہ آفتاب جہاں تاب ا ور ماہتاب عالم تاب اپنی عمر عزیز کی ۴۵ بہاریں دیکھ کر شہر قائد کراچی کے افق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیااور جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاو¿ن کے احاطے میں مسجد کی دائیںجانب اپنے شیخ و مربی اور محبوب و مشفق استاذ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمة اللہ علیہ کے پہلو میں محو استراحت کردیا گیا
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ ”صاحب اسرار“