سنتا جا شرماتا جا……!اینٹی کرپشن کا محکمہ کرپشن کا گڑھ !!
شیئر کریں
اینٹی کرپشن کے افسران کو کرپشن کی تحقیقات نہ کرنے پر بطور انعام ایک کروڑ روپے دے دیے گئے
الیاس احمد
حکومت سندھ ان دنوں نیب سے خفا ہے اور اپنا صوبائی احتساب کمیشن بنانا چاہتی ہے، اور امکان ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن کو احتساب کمیشن یا اینٹی کرپشن ایجنسی کا نام دے دیا جائے گا یعنی بوتل نئی کرکے اُس میں پُرانی شراب اُنڈیلی جائے گی۔ محکمہ اینٹی کرپشن پر حکومت سندھ خصوصاً آصف علی زرداری اور فریال ٹالپور راضی ہیں کیونکہ محکمہ اینٹی کرپشن کے حال ہی میں تبدیل ہونے والے چیئرمین غلام قادر تھیبو اس وقت آصف زرداری اور فریال ٹالپور کے ذاتی ملازم کی طرح کام کر رہے ہیں۔ ان کو کہا گیا تھا کہ محکمہ آبپاشی، محکمہ ریونیو کی رجسٹریشن ونگ اور لینڈ یوٹیلائیزیشن کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنی تو وہ تابعداری کے ساتھ اس حکم پر عمل کرتے رہے۔ مجال ہے کہ اُنہوں نے ان محکموں کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو، وہ ہر حکم پر بجا آوری کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں اسی سابق چیئرمین اینٹی کرپشن نے وزیراعلیٰ سندھ کو ایک سمری ارسال کی جس میں کہا گیا تھا کہ محکمہ اینٹی کرپشن کے ملازمین اچھا کام کر رہے ہیں ان کی بنیادی تنخواہ ڈبل کی جائے تو وزیراعلیٰ ہنس پڑے اور سمری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا اینٹی کرپشن والوں کو بھی تنخواہ کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور پھر وزیراعلیٰ نے سمری مسترد کر دی تو سابق چیئرمین محکمہ اینٹی کرپشن غلام قادر تھیبو دوڑے دوڑے فریال ٹالپور کے پاس پہنچے اور اپنے دکھڑے سنائے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کے محکمے کے وفادار ملازمین ایسے محکموں میں جاتے بھی نہیں جہاں جانے کے لیے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے فریال ٹالپور نے فوری طور پر وزیراعلیٰ سے رابطہ کیا اور وزیراعلیٰ نے کہا کہ ٹھیک ہے دوبارہ سمری بھیجی جائے۔ اس کے لیے وزیراعلیٰ نے تحریری حکم نامہ بھی جاری نہیں کیا لیکن چونکہ سابق چیئرمین اینٹی کرپشن کو جلدی تھی اس لیے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خود ہی سمری تیار کرکے دوبارہ بھیج دی، اس پر چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن ناراض ہوئے کہ ہم کیوں دوبارہ مسترد شدہ سمری بھیجیں اگر وزیراعلیٰ سندھ کو اس کی ضرورت ہوگی تو وہ تحریری طور پر حکم جاری کریں گے لیکن پھر بھی سابق چیئرمین اینٹی کرپشن بار بار رابطے کرتے رہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن کے ملازمین کی ڈبل تنخواہ فوراً کرادی جائے۔ بآلاخر محکمہ خزانہ نے مخالفت کر دی ،یوں یہ معاملہ ختم ہوگیا۔ البتہ محکمہ اینٹی کرپشن کے عملہ کو اینٹی کرپشن الائونس دلانے میں وہ کامیاب ہوگئے اس طرح وہ خاموش ہوکر نہیں بیٹھے۔ پھر اوپر سے جاکر منت سماجت کی کہ جب اینٹی کرپشن کے محکمہ نے تابعداری کا مظاہرہ کیا ہے جہاں کرپشن ہو رہی ہے وہاں وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے تو ان کو کچھ تو انعام ملے۔ اس پر اوپر والوں نے وزیراعلیٰ کو کہا کہ انہیں کچھ انعام دیا جائے جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے ایک کروڑ روپے انعام محکمہ اینٹی کرپشن کے سابق چیئرمین کے حوالے کیا۔ اُنہوں نے مبینہ طور پر 50 لاکھ روپے ڈائریکٹر عثمان غنی صدیقی کے حوالے کیے اور باقی 50 لاکھ روپے صوبہ کے ڈپٹی ڈائریکٹرز کو دے دیے۔ عثمان صدیقی اصل میں انور مجید کے قریبی رشتے دار ہیں اس لیے ان کو اتنی بڑی رقم دی گئی۔
یہ بات ایک لطیفے سے کم نہیں کہ اینٹی کرپشن کو کرپشن پر خاموشی اختیار کرنے پر انعام ملا ہے۔ اگر وہ کرپشن روکنے کے لیے اقدامات کرتے تو اس سے صوبے کا فائدہ ہوتالیکن ایسا نہیں ہے اب کرپشن پر آنکھیں بند کرنے پر انعام ملتا ہے۔ تو غلام قادر تھیبو کی نظریں نئی اینٹی کرپشن ایجنسی صوبائی احتساب کمیشن کی سربراہی پر جمی ہوئی تھیں لیکن نئے ادارے کی سربراہی کے لیے جو نام زیر غور ہیں خوش قسمتی سے ان میں غلام قادر تھیبو کا نام شامل نہیں ۔ اب انہیں کراچی پولیس چیف مقرر کرکے راستے سے ہی ہٹا دیا گیا۔ غلام قادر تھیبو نے آئی جی سندھ پولیس بننے کے لیے بڑی بھاگ دوڑ کی ہے اس کے لیے اُنہوں نے ایک طاقتور خاتون رکن قومی اسمبلی کو رام بھی کیا مگر پھر بھی وہ آئی جی نہ بن سکے۔ محکمہ اینٹی کرپشن میں اُنہوں نے ایسی’’خدمات‘‘ انجام دی ہیں کہ وہ جیسے جیسے منظر عام پر آتی رہیں گی ، لوگوں پر حیرت کے دَر کھلتے رہیں گے۔