میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعظم کی قرض اسکیم‘بیروزگار نوجوان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور

وزیراعظم کی قرض اسکیم‘بیروزگار نوجوان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور

منتظم
بدھ, ۱۲ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

×قرضوں کے لیے دی جانے والی درخواستوں پر بے جا اعتراضات ،100 بلین میں سے صرف 18 بلین کی رقم تقسیم کی جاسکی
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بے وزگار نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے انھیں ملازمت کی تلاش میں بھٹکنے کے بجائے اپنا کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دینے کیلئے دسمبر2013 میں آسان اقساط پر قرض فراہم کرنے کا اعلان کیاتھا اور دعویٰ کیاتھا کہ اس طرح ملک میں بیروزگاری اور غربت کم کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ اس اسکیم کے تحت بیروزگار نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں اور ضرورت کے مطابق 5 لاکھ سے 20 لاکھ روپے تک قرض فراہم کیاجائے گا ۔وزیر اعظم نے اس مقصد کیلئے100 بلین روپے کا فنڈ مختص کرنے کاا علان کیاتھا اور ہر سال نوجوانوں کو دیے جانے والے قرض کی رقم میں اضافہ کرنے کاعندیہ دیاتھا ،تاکہ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ، ہنر مند ، نیم ہنر مند اور بے ہنر نوجوان اس اسکیم سے فائدہ اٹھاکر اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور اس طرح بے روزگاری کی شرح کو کم کیاجاسکے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے اس اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے اس کی جو افادیت بیان کی گئی تھیں وہ بلاشبہ پرکشش تھیں اور اس میں کو ئی شک نہیں کہ اگر اس اسکیم پر اس کی روح کے مطابق عمل کیاجاتاتو نہ صرف یہ کہ ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو روزگار مل سکتاتھا بلکہ اس سے ملک میں گھریلو صنعتوںکاجال بچھایاجاسکتاتھا جو کسی بھی ملک کی بڑی صنعتوں کی ترقی کے لیے ضروری ہوتاہے، ہمارے سامنے جاپان ، کوریااور چین کی مثالیں موجود ہیں جہاں صنعتی ترقی کی ابتدا گھریلو صنعتوں کے فروغ سے ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تمام ممالک پوری دنیا پر چھاگئے۔اس اعتبار سے توقع یہ کی جارہی تھی کہ وزیر اعظم کم از کم اپنا اور اپنے اہل خانہ کا ووٹ بینک پکا کرنے کیلئے اس اسکیم پر پوری طرح عملدرآمد کراکے اگلے الیکشن میں اس اسکیم کو اپنی بڑی کامیابیوں کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کریں گے لیکن وزیر اعظم غالبا ً اس اسکیم کااعلان کرنے کے بعد بھول گئے اور انھوں نے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوئی میکانزم تیارکرنے اور اس کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام وضع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جس کی وجہ سے اسکیم کے اعلان کے بعد ہی بیروزگار نوجوانوں کے لیے امید کی کرن کی حیثیت سے سامنے آنے والی یہ اسکیم مایوسی کاپیغام بن گئی۔ اس اسکیم کے اعلان کے بعد جب نوجوانوں نے سرکاری بینک کا رخ کیا تو انھیں ابتدا ہی میں مشکلات کاشکار کردیاگیا قرض کی درخواستوں پر بینک کے کرتا دھرتائوں کی جانب سے من مانے اعتراضات لگا کر نوجوانوں کویہ اعتراضات دور کرنے کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیاجانے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوانوں نے برملا یہ کہناشروع کردیا کہ وزیر اعظم کی جانب سے اس اسکیم کے اعلان کا مقصد محض تالیاں بجوانا اور وقتی طورپر واہ واہ کرانے کے سوا کچھ نہیں تھااور وزیر اعظم نے اس اعلان کے ذریعہ نوجوانوں کے ساتھ سنگین مذاق کیا ہے۔
اس اسکیم کے حوالے سے سامنے آنے والے حقائق اور اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ اس اسکیم میں موجود بعض خامیوں یا متعلقہ بینک افسران کی وضع کردہ رکاوٹوں اور دشواریوں کی وجہ سے اب تک اس اسکیم کے تحت نوجوانوںکو قرض دینے کے لیے مختص کی جانے والی100 بلین روپے کی رقم میں سے اب تک صرف 18 بلین رقم نوجوانوں کو دی جاسکی ہے یعنی کل مختص رقم کا صرف 18فی صد حصہ ہی نوجوانوں کومل سکا ہے اور بقیہ رقم ابھی بینکوں کی تجوریوں میں ہی محفوظ ہے۔اب جبکہ حکومت کی 5سالہ مدت ختم ہونے کے قریب ہے ایسا ممکن نظر نہیں آتاکہ اس مدت کے دوران نوجوانوں کو وزیر اعظم کے مختص کردہ 100 بلین کی رقم بطور قرض مل جائے گی اور اب تک کے اعدادوشمار دیکھتے ہوئے یہی خیال اغلب ہے کہ دیگر منصوبوں کی طرح اس اسکیم کے لیے مختص رقم کا بڑ ا حصہ بھی سرکاری خزانے میں واپس چلاجائے گا اورقرض کے لیے نوجوانوں کی جانب سے دی جانے والی درخواستوں کا فیصلہ نئی آنے والی حکومت کی پالیسی اور مرضی پر منحصر ہوگا۔
اسٹیٹ بینک کی جنوری تامارچ سہ ماہی رپورٹ سے ظاہر ہوتاہے کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران نوجوانوں کو قرض کی فراہمی کے لیے نئی درخواستوں کی وصولی ان کی منظوری اور قرض کی فراہمی کی رفتار کچھ تیز کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ کام اس سرعت سے نہیں ہورہاہے جس کی ضرورت ہے، اطلاعات کے مطابق ا س اسکیم پر عملدرآمد میں بینکوں کی جانب سے کھڑی کی جانے والی مشکلات اور نوجوانوں کی مایوسی کی خبروں کی اشاعت کے بعد وزیر اعظم کو اپنی توجہ اس جانب مبذول کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے اور انھوںنے اب اسٹیٹ بینک کو اس پروگرام پر عملدرآمد کی نگرانی کرنے اور پورے عمل کو مانیٹر کرنے کی ہدایت کی ہے۔اسٹیٹ بینک کی جنوری تامارچ سہ ماہی رپورٹ سے ظاہر ہوتاہے کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ملک کے کم وبیش ایک درجن کمرشل بینکوں نے اس اسکیم کے تحت 18 ہزار 15 نوجوانوں میں مجموعی طورپر 18.04 بلین روپے تقسیم کیے اس طرح اوسطا ًہر نوجوان نے 10لاکھ روپے قرض کے طورپر حاصل کیے،نوجوانوں کو قرض کے طورپر دی جانے والی یہ رقم گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی یعنی اکتوبر سے دسمبر کے دوران نوجوانوں کو بطور قرض دی جانے والی رقم سے صرف 335 ملین روپے یعنی ساڑھے 33 کروڑ روپے ہی زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران پورے ملک کے صرف 325 نوجوان بینکوں سے اس اسکیم کے تحت قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے ظاہرہوتاہے کہ اس اسکیم کے تحت نوجوانوں کو سب سے زیادہ قرض نیشنل بینک کی جانب سے جاری کیاگیا اور نیشنل بینک سے مجموعی طورپر12 ہزار252 نوجوانوں نے 17.3 بلین روپے حاصل کیے۔
اطلاعات کے مطابق درخواستوں پر کارروائی میں غیر ضروری تاخیر پر اخبارات اور میڈیا پر سامنے آنے والی تنقید کے بعد نیشنل بینک کے کرتا دھرتائوں نے بہت سے درخواست دہندگان کے اکائونٹ میں عجلت میں رقوم منتقل کردی ہیں اور اس کی انھیں اطلاع تک دینے کی زحمت نہیں کی ہے جس پر نوجوانوں نے اس طرح منتقل کی جانے والی رقم وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بینک کے طرز عمل پر احتجاج کیاہے کیونکہ رقم کی منتقلی کے بعد ہی سے اس پر مارک اپ وغیرہ کا اطلاق ہوجاتاہے اور رقم کی فراہمی کی تاریخ ہی سے اس کی قسط کی واپسی کی تاریخ بھی طے ہوجاتی ہے، اطلاعات کے مطابق اس رقم کی ایک سال کے اندر واپسی کی صورت میں اس کے لیے کراچی میں انٹر بینک آفر ریٹ (کیبور) پلس5 فیصد ہے۔ بینک عام طورپر چھوٹے قرضوں کی واپسی کی مدت میں اضافہ کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اس طرح کے چھوٹے قرض زیادہ خطرات کے حامل ہوتے ہیں۔
رواں سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جنوری مارچ کے اعدادوشمار کے مطابق اس سہ ماہی کے دوران کم وبیش 4 ہزار 479 افراد نے کاروبار شروع کرنے کی اس اسکیم کے تحت قرض کی درخواستیں دی ہیں ،یہ تعداد گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں6فیصد زیادہ ہے۔اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دورا ن نیشنل بینک کو قرضوں کی 4 ہزار 244 درخواستیں موصول ہوئیں ،اعدادوشمار کے مطابق 31 مارچ 2017 تک بینکوں کومجموعی طورپر نئے قرضوں کی 78 ہزار 939 درخواستیں موصول ہوئیں ،ان درخواست دہندگان میں 13 فیصد خواتین شامل تھیں، جبکہ اس اسکیم کے تحت خواتین کے لیے50 فیصد کاکوٹہ مختص ہے۔اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ ان درخواست دہندگان میں سے صرف 28 فیصد درخواستیںیعنی صرف 21 ہزار 734 افراد کی درخواستیں منظور کی گئیںاور ان میں صرف 18 ہزار 015 افراد کو نقد رقم مل سکی۔
نوجوانوں کو قرض کی فراہمی میں اس سست روی اور نوجوانوں کو قرض کی فراہمی سے انکار کی شکایات پر وزیر اعظم قبل ازیں عدم اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بینکوں کے ارباب اختیار اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں ہیں جس کا اظہار رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران بینکوں کی جانب سے قرضوں کی منظوری کے اعدادوشمار سے ہوتاہے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران بینکوں نے 531 ملین روپے کے نئے قرضوں کی منظوری دی جو گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی سے صرف 2 فیصد زیادہ ہے۔ان میں سے نیشنل بینک نے 431 ملین روپے کے قرضوں کی منظوری دی جبکہ دیگر کمرشیل بینکوں نے مجموعی طورپر 100 ملین روپے کے قرضے منظور کیے۔ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے نوجوانوں کو قرض فراہم کرنے کی اسکیم کی منظوری اور اس پر عملدرآمد میں سست روی پر عدم اطمینان کے اظہار کے باوجود گزشتہ 4 سال کے دوران صرف 21 ہزار734 درخواست دہندگان کی درخواستیں منظوری کا مرحلہ طے کرنے میں کامیاب ہوسکی ہیں اور موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے تک نوجوانوں کو قرض کی فراہمی کے لیے مختص فنڈز کا بہت کم حصہ ضرورت مند نوجوانوں تک پہنچ سکے گا ،اس طرح ہوسکتاہے کہ حکومت اپنے اختتامی مرحلے پر نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے قرض اسکیم کی بچی ہوئی رقم سیاسی بنیادوں پرتیزی کے ساتھ تقسیم کرے اوراس طرح قرض کی اس رقم کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے رشوت کے ایک طریقے کے طورپر استعمال کی جائے ۔
ایچ اے نقوی


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں