برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری میںمسلسل کمی تشویشناک ہے
شیئر کریں
حکومت کو غیر ملکی قرضوں پر منافع کی ادائیگی میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑ سکتاہے
ایچ اے نقوی
نئے مالی سال کے دوران برآمدات کے حوالے سے ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق جولائی اور اگست کے دوران پاکستان کی برآمدات میں 6.2 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ ریکارڈ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب زرمبادلے کے ذخائر میں تاریخ ساز اضافے کے دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سال سے ہماری برآمدات میں مسلسل کمی ہورہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب اسٹیٹ بینک سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ہی سہہ ماہی کے دوران پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں نے اپنے منافع کی مد میں 33کروڑ50لاکھ ڈالر بیرون ملک بھیج دئے یعنی رواں سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران پاکستان ساڑھے 33کروڑ ڈالر کے زرمبادلے سے محروم ہوگیا،تاہم اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ سہہ ماہی کے دوران بیرون ملک بھیجی جانے والی رقم گزشتہ مالی سا ل کی پہلی سہہ ماہی سے کچھ کم تھی،اسٹیٹ بینک کے اعددوشمار کے مطابق 2015-16کی پہلی سہہ ماہی کے دوران ملک سے 35 کروڑ90لاکھ ڈالر منافع کے نام پر بیرون ملک بھیجے گئے تھے جو کہ رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران بھیجی جانے والی رقم سے 24کروڑ زیادہ تھی۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے ملنے والی رپورٹ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ رواں سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران بیرون ملک بھیجی جانے والی رقم میں کمی کا سبب ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بتدریج آنے والی کمی ہے، اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے ظاہرہوتاہے کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کےدوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں 38فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس سے یہ تشویشناک حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اگرچہ منافع کے نام پر بیرون ملک بھیجی جانے والی رقم میںمعمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے لیکن براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اور تشویشناک حد تک کمی ہورہی ہے۔
پاکستان جیسے ملک کیلئے جس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر پہلے ہی بہت کم ہیں اور اسے غیر ملکی قرضوں پر سود یامنافع کی ادائیگی کیلئے بھاری زرمبادلے کی ضرورت ہے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری اور برا?مدات میں مسلسل کمی سے اس ملک کیلئے بڑے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں ،اور ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کوجو ملک کی معیشت کے استحکام کا ڈھول بجانے میں مصروف ہیں مشکل ہی نہیں بلکہ سنگین صورت حال کاسامنا کرناپڑ سکتاہے۔
پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی سے یہ ظاہرہوتاہے کہ ہمارے ارباب اختیار خاص طورپر وزیر تجارت اور خزانہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے میں ناکام رہے ہیں۔جبکہ پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملی کمپنیاںبھی منافع کی منتقلی کے نام پر اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں،اور وہ اس ملک میں کمائے گئے منافع کو پاکستان میں سرمایہ کاری میں توسیع کیلئے استعمال کرنے کوتیار نہیں ہیں۔
اس سے پاکستان کودرپیش کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں اضافے کی بھی نشاندہی ہوتی ہے اعدادوشمار کے مطابق جس میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہاہے ہے۔کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کی صورتحال کاجائزہ لیاجائے تو ظاہرہوتاہے کہ اس میںسال بہ سال اضافہ ہوتاجارہاہے اور رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران اس کی مالیت ایک ارب 36کروڑ اور 80لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔رواں سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران منافع کے نام پر سب سے زیادہ رقم پیٹرولیم ریفائننگ کے شعبے کی جانب سے بیرون ملک بھیجی گئی جس کی مالیت 6کروڑ 90لاکھ ڈالر کے مساوی تھی،جبکہ مالیاتی اداروں کی جانب سے 6کروڑ17لاکھ اور تجارتی اداروں کی جانب سے 3کروڑ 78لاکھ ڈالر بیرون ملک بھیجے گئے۔
پاکستان کی برآمدات میںکمی کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کی برآمدات 20.8 بلین یعنی 20ارب 80 کروڑ ڈالر کے مساوی رہی جبکہ 2015 کو ختم ہونے والے سال کے دوران پاکستان کی برآمدات 23.9 بلین یعنی 23 ارب90 کروڑ ڈالر تھیں، اس کے مقابلے میں2014 کو ختم ہونے والے سال کے دوران پاکستان کی برا?مدات کی مالیت25.11 بلین یعنی 25 ارب 11 کروڑ ڈالر تھی۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران کسی بھی سال پاکستان کی برآمدی آمدنی حکومت کے مقرر کردہ ہدف تک نہیں پہنچ سکی۔
برآمدات میں کمی کے کئی اسباب بتائے جاتے ہیں جن میں عالمی سطح پر کساد بازاری ،تجارتی سرگرمیوں کے اخراجات میں اضافہ ، عالمی منڈی میں دوسروں ملکوں سے سخت مقابلہ، صنعتی شعبے کی ناقص کارکردگی اورتوانائی یعنی بجلی اور گیس کی فراہمی میں تعطل شامل ہے لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو برا?مدات میں کمی کی بنیادی وجہ برآمدات کی درست پالیسی کا فقدان ہے۔
ان تین برسوں میں پہلی مرتبہ مالیاتی کو آرڈی نیشن بورڈ اسٹیٹ بینک اور نجی شعبے کے متعدد ماہرین نے برآمدات میں کمی کے اس ختم نہ ہونے والے سلسلے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے عالمی منڈی میں سخت مقابلے کو اس کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس صورت حال کا سرکاری طورپر اس مسئلے کابرملااعتراف کیاہے اور ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے اصلاح احوال اوربرآمدات میں اضافے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں،انھوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ اب صنعتوں کیلئے لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی اور ٹیرف میں بھی کٹوتی کی جائے گی۔اس کے ساتھ ہی انھوںنے عالمی منڈی میں سخت مقابلے کیلئے صنعت کاروں کو سہولتوں کی فراہمی کیلئے وفاق کے ساتھ ہی صوبائی اور مقامی سطح پربھی مربوط اقدامات پیداوار اور برآمدات سے متعلق وزارت کی ذیلی کمیٹی کے باقاعدہ اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت کااظہار بھی کردیا۔
وفاقی حکومت کے سابق اقتصادی امور کے مشیر ڈاکٹر اشفاق حسین نے جو ان دنوں سائنس وٹیکنالوجی کی نیشنل یونیورسٹی کے بزنس اسکول کے ڈین کے فرائض انجام دے رہے ہیںبرآمدات میں مسلسل کمی کی اس صورتحال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہناہے کہ جب آپ تیل اور گیس سے سالانہ کم وبیش ایک کھرب روپے ٹیکس کی صورت میں وصول کریں گے جو کہ ملک کی مجموعی آمدنی کے ایک تہائی کے مساوی ہوتاہے تو ظاہر کہ ملک میں تیار ہونے والی اشیا کی پیداواری لاگت بڑھے گی اور وہ عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل نہیں رہے گی۔ان کاکہناہے کہ آپ نے خود ہی تجارت کے عمل کے
اخراجات میں اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے برآمدات میں کمی ہونا فطری عمل ہے۔مانیٹری اورفسکل کوآرڈی نیشن بورڈ کے ایک رکن نے شرح تبادلہ کو بھی برآمدات میں کمی کاایک بڑاسبب قراردیاہے اور کہا ہے کہ روپے کی قیمت مصنوعی طورپر زیادہ رکھنے کی کوششیں بھی عالمی منڈی میں مقابلے میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔