خطبہ جمعہ ئ....موت اور عقل کا اختتام
شیئر کریں
ندیم الرشید
موت حق ہے۔ آپ نے فرمایا”الموت حق“ یعنی موت برحق ہے جو واقع ہو کر رہے گی۔ سورة قصص کی آیت نمبر 88میں خدائے ذوالجلال کا ارشاد ہے: ”اللہ جل شانہ کی ذات کے علاوہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور اصل بادشاہت اسی کی ہے اور اسی کی طرح تمہیں لوٹنا ہے۔“ سورة الرحمن میں ہے کہ ”کرہ ارض پر موجود ہر شے پر موت واقع ہونے والی ہے ،صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات باقی رہنے والی ہے۔“ سورة الانبیاءمیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں”ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔“
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں۔ میں نے موت سے بڑھ کر یقینی چیز اور کوئی نہیں دیکھی‘ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے‘ مگر لوگ اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرتے ہیں جیسے یہ کوئی مشکوک چیز ہے اور اس میں یقین نہیں ہے‘ حالانکہ سب مرنے پر یقین رکھتے ہیں خواہ کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم(تفسیر الشعراوی ص 7233)ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص اپنی زندگی میں یقیناً نہیں دیکھا ہوگا جو مرنے پر یقین نہ رکھتا ہو۔ لیکن بقول امام حسن بصری علیہ الرحمہ ہم جس طرح موت کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں‘ اسے دیکھ کر تو یوں لگتا ہے‘ جیسے ہمیں اس میں شک ہے۔ ذرا سوچیے !ہم حصولِ رزق کے لیے کس طرح تیاری کرتے ہیں‘ حالانکہ اس میں شک ہے‘ ہم ہر گز نہیں جانتے کہ کل ہم کتنا رزق کھاسکیں گے ۔ اس کے باوجود ہم رزق کے لیے بہت محنت کرتے ہیں‘ بہت منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن موت جو ایک قطعی حقیقت ہے‘ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ اسے موت آئے گی‘ سوال یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنی تیاری کرتے ہیں؟
ہم موت کے صرف ایک پہلو کے حوالے سے تیاری کررہے ہوتے ہیں۔ ہم کسی کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے تیاری کررہے ہوتے ہیں‘ کسی قبرستان میں قبر کھدوارہے ہوتے ہیں ،کسی کو قبر میں اتار رہے ہوتے ہیں یا پھر کسی کی یاد میں کوئی تقریب منعقد کررہے ہوتے ہیں اور پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہوتے ہیں۔ گویا ہم موت کی مساوات کے صرف ایک حصے کو حل کررہے ہوتے ہیں جو دنیاوی انتظامات سے متعلق ہے۔ ہم موت کی مکمل مساوات کو حل کرنے سے کتراتے ہیں یعنی مرنے کے بعد دوسری طرف جو کچھ پیش آتا ہے اس کے لیے ابھی تک کوئی تیاری نہیں کی ہوتی ہے۔ واقعتاً یہ ایک حیران کن امر ہے کہ یہاں آکر بعض مرتبہ بڑے بڑے دانشوروں کی عقل بھی کام چھوڑ جاتی ہے۔
آئزک زیمو بیسویں صدی کا معروف مصنف ہے‘ جو بائیو کیمسٹری کا پروفیسر اور سائنسی افسانہ نگاری میں دنیا کا ایک بڑا نام ہے۔ متعدد ایوارڈ جیتنے والے اس مصنف کی کتابیں فلکیات‘ حیاتیات‘ ریاضی‘ مذہب اور سوانح جیسے فنی موضوعات سے متعلق ہیں ۔ 1950میں اس کا پہلا ناول (Pebble in the sky)کے نام سے شائع ہوا اور 16اپریل 1992کو دنیا کے اس مشہور محقق‘ ادیب اور دانشور کا نیویارک میں انتقال ہوا۔ مرنے سے چند ماہ پہلے آئزک ازیمو کا انٹرویو ہوا .انٹرویو لینے والے نے اس سے سوال کیا‘ آپ کا کیا خیال ہے‘ کہ مرنے کے بعد آپ کو کیا پیش آئے گا؟ اس نے جواب دیا:کچھ نہیں‘ کچھ بھی نہیں ،میرے مرنے کے بعد مجھے کچھ بھی پیش نہیں آئے گا۔ میں خاک میں تبدیل ہوجاو¿ں گا۔ ذرا غور کیجیے۔ اس کے علم‘ اس کی کتابوں‘ اس کی ساری ذہانت‘ ساری شہرت اور ساری دولت نے اس کی عقل پر کچھ اثر نہیں ڈالا۔ اس کی عقل اور چودہ سو سال پہلے مکہ کے جاہل شخص کی عقل میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں ہے‘ کیونکہ وہاں بھی مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے منکر یہی بات کرتے تھے۔ دنیا کے مشہور و معروف مصنف کو اس کے علم نے کچھ فائدہ نہیں دیا۔
اگرچہ وہ ذہین آدمی تھا‘ لیکن بات یہ نہیں کہ کوئی شخص کتنا ذہین ہے ‘ اللہ تبارک و تعالیٰ غیر مسلموں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب وہ قیامت کے دن حقیقت کا نظارہ کریں گے‘ تو کہیں گے: ”اگر ہم سنتے رسول کی بات اور سمجھتے حقیقت اور درست بات کو تو ہم دوزخیوں میں سے نہ ہوتے۔“ (سورة الملک)
یعنی وہ افسوس کریں گے‘ کاش ہمیں عقل ہوتی‘ کچھ فہم نصیب ہو جاتا‘ ذرہ برابر بھی سمجھ ہوتی تو آج ہم جہنم میں نہ ہوتے۔ اگر ہماری دانش ہمیں یہاں آگ میں لے آئی ہے‘ پھر تو ہم بڑے جاہل تھے ،ہمارے پاس کچھ علم نہ تھا۔ نہ ہمارے پاس ذہانت ہے نہ دماغ ہے‘ کچھ بھی تو نہیں ہے۔ اگر ہماری عقل کا اختتام بھی ہمارے ساتھ یہیں جہنم میں ہورہا ہے۔ تو پھر یہ کیسی عقل ہے۔
٭٭٭