واٹر بورڈ کی نااہلی،کراچی پر نگلیریا کا حملہ
شیئر کریں
گلشن اقبال، نارتھ کراچی اور اورنگی ٹائون سے حاصل پانی کے نمونوں سے انکشا ف ہوا کہ شہریوں کو کلورین ملائے بغیر پینے کاپانی فراہم کیاجارہاہے
ماہرین کے مطابق نگلیریا فلوری کی افزائش کاموسم شروع ہوچکاہے ، فوری طورپر اس کے سدباب کی کوششیں نہ کی گئیں تو یہ ہلاکت خیز جرثومہ تباہی لاسکتا ہے
شہلا حیات نقوی
کراچی کے شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کے ذمہ دار ادارے واٹر بورڈ کے عملے کی کام چوری اور افسران کی نااہلی کی وجہ سے صاف پانی میں پنپنے والے جان لیوا جرثومے نگلیریا فلوری نے ایک دفعہ پھر کراچی کے شہریوںکو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے، انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد سیدھا دماغ کا رخ کرنے اور دماغ کو کھاکر ختم کردینے والے اس جرثومے کا نشانا بن کر گزشتہ صرف ایک ہفتہ کے دوران میں کراچی کے دونوجوان جان کی بازی ہار چکے ہیں۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس سال صوبہ سندھ میں نگلیریا فلوری کانشانا بن کر مجموعی طورپر 3 افراد جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ جن میں ٹنڈو الہٰ یارکارہائشی 23 سالہ نوجوان بھی شامل ہے جسے نگلیریا کے حملے کے بعد علاج کے لیے کراچی لایاگیاتھا۔
محکمہ سندھ کے نگلیریا فلوری سے متعلق مانیٹرنگ سیل کے ترجمان ڈاکٹر ظفر مہدی نے نہ صرف ان تینوں افراد کی اموات کی تصدیق کی ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ یہ تینوں افراد صاف پانی میں پرورش پانے والے جرثومے نگلیریا فلوری کاشکار ہوئے ہیں۔ماہرین کاکہناہے کہ نگلیریا فلوری صرف پینے کے پانی کے ذریعے ہی جسم میں داخل نہیں ہوتا بلکہ گھروں میں نہانے یا سوئمنگ پول ،جھیل ،تالاب یا دریا میں نہاتے ہوئے بھی ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتاہے اور جسم میں داخل ہوتے ہی یہ دماغ کا رخ کرتاہے اور دماغ کو کھاکر انسان کو ہلاک کردیتاہے۔
ایک طرف نگلیریا فلوری نامی جرثومہ اس شہر کے لوگوں کے جان کے درپے ہے اور دوسری طرف کراچی کے شہریوںکے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم سے بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے واٹر بورڈ کے ارکان اور اہلکار اپنے فرائض سے غافل ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور اس طرح شہریوں کو صاف پانی فراہم کرنے اور گندے پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام کرنے کے واضح عدالتی احکامات کا مذاق اڑارہے ہیں۔
کراچی کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے حوالے سے واٹر بورڈ کے حکام کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں شہر کے بعض گنجان آباد علاقوںجن میں گلشن اقبال، نارتھ کراچی اور اورنگی ٹائون کے علاقے شامل ہیں، سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ شہریوں کو صاف پانی کے نام پر پینے کے لیے فراہم کیے جانے والے پانی میں سے 40 فیصد پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے اس میں کلورین کی سر ے سے آمیزش ہی نہیں کی گئی تھی یعنی شہریوں کو بغیر کلورین ملائے اور صاف کیے بغیر پینے کاپانی فراہم کیاجارہاتھا،اس رپورٹ سے کراچی واٹر بورڈ کے افسران اور عملے کی کرپشن کا بھی اندازا لگایاجاسکتاہے کیونکہ شہریوں کو کلورین ملاکر صاف شدہ پانی کی فراہمی کے لیے کلورین کی بھاری مقدار خریدی جاتی ہے اور جب شہر کی کم وبیش 40 فیصد آبادی کو کلورین ملائے بغیر پانی فراہم کیاجارہاہے تو کلورین کی اس مقدار کی رقم یقینا متعلقہ افسران اورعملے کی جیب میں جارہی ہوگی۔
ماہرین کاکہناہے کہ نگلیریا فلوری کی افزائش کاموسم شروع ہوچکاہے اور اگر فوری طورپر اس کے سدباب کی کوششیں نہ کی گئیں تو یہ ہلاکت خیز جرثومہ یابیکٹیریا مزید قیمتی جانیں نگل سکتاہے، محکمہ سندھ کے نگلیریا فلوری سے متعلق مانیٹرنگ سیل کے ترجمان ڈاکٹر ظفر مہدی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نگلیریا فلوری کی افزائش کاموسم نہ صرف یہ کہ شروع ہوچکاہے ،بلکہ ان دنوں عروج پر ہے اور یہ موسم اگست تک جاری رہے گا،اس دوران پانی کے ذخائر کی مکمل حفاظت اور اس جرثومے کی افزائش روکنے اور اسے ختم کرنے کی بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے،ڈاکٹر ظفر مہدی نے دعویٰ کیاہے کہ سندھ کے محکمہ صحت نے اس حوالے سے کام شروع کردیاہے،انھوں نے بتایا کہ نگلیریا فلوری کا جرثومہ عام طوپر تالابوں، سوئمنگ پولز، دریا یا دوسرے آبی ذخائر میں نہاتے یا تیراکی کے دوران ناک کے راستے جسم میں داخل ہوتاہے اور پھر دماغ میں گھس کر دماغ کے ٹشوز کو ناکارہ بنادیتاہے جس کے نتیجے میں انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے،اور اس کی روک تھام کاواحد طریقہ پانی میں کلورین کی آمیزش ہے۔
ڈاکٹر ظفر مہدی نے بتایا کہ اس ہلاکت خیز جرثومے پر قابو پانے کے لیے محکمہ صحت نے ایک کمیٹی قائم کردی ہے جس کو اس مرض کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مناسب اقدام کی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن یہ کمیٹی ابھی تک اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود صوبے کے صرف 30 فی صد پانی کے ذخائر، جھیلوں،
تالابوں اور دریا کے پانی کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوسکی ہے، ڈاکٹر ظفر مہدی نے دعویٰ کیا کہ شہریوں کوفراہم کیا جانے والا 60 فیصد صاف پانی اب انسانی استعمال کے قابل ہے یعنی اس میں کلورین کی مناسب مقدار شامل ہے تاہم ابھی پانی کومکمل طورپر قابل استعمال بنانے کے لیے مزید40 فیصد پانی میں کلورین کی آمیزش کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے بتایا کہ لوگوں کو اس ہلاکت خیز جرثومے کے حملے سے بچانے کے لیے کمیٹی نجی سوئمنگ پولز کابھی جائزہ لے رہی ہے اور گزشتہ ہفتہ ایئرپورٹ ہوٹل کے سوئمنگ پول کے پانی میں کلورین کی مناسب آمیزش نہ ہونے کی وجہ سے سوئمنگ پول کوسیل کردیاگیاتھا۔ڈاکٹر ظفر مہدی نے اعتراف کیا کہ کمیٹی نے جن علاقوں کو فراہم کئے جانے والے پانی میں کلورین کی افزائش کو یقینی بنایاہے ان میں اورنگی ٹائون شامل ہے لیکن اورنگی ٹائون سے حاصل کیے جانے والے پانی کے نمونوں سے ظاہرہوتاہے کہ اس علاقے کے پانی میں کلورین کی مناسب مقدار شامل نہیں کی گئی ہے اس پر کارروائی کی جارہی ہے۔ڈاکٹر ظفر مہدی نے اس حوالے سے مناسب مقدار میں کلورین کی عدم دستیابی کی بھی شکایت کی ،انھوں نے بتایا کہ کراچی واٹر بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کوپانی کی فراہمی سے قبل اس میں مناسب مقدار میں کلورین ملائی جائے لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ بعض علاقوں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں سیوریج کے پانی کی آمیزش بھی پائی گئی ہے تاہم اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر ظفر مہدی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پانی میں خواہ کلورین کی کتنی ہی مقدار ملادی جائے پائپ لائن کے آخری حصے کے صارفین کو فراہم کیے جانے والے پانی میں کلورین کی کمی کی شکایت پیداہوسکتی ہے۔ دوسری جانب واٹر بورڈ کا یہ حال ہے کہ اس کے پاس پینے کے پانی میں کلورین کی آمیز ش کرنے کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے جبکہ پانی کا معیار جانچنے کا بھی واٹر بورڈ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔جس کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کو دریائے سندھ سے فراہم کیے جانے والے یومیہ 550 ملین گیلن پانی میں سے 200ملین گیلن پانی میں کلورین سرے سے شامل ہی نہیں ہوتی۔ڈاکٹر ظفر مہدی کاکہنا ہے واٹربورڈ کے حکام کو پمپنگ اسٹیشنز پر پانی میں کلورین ملانے کاانتظام کرنا چاہئے۔ اس طرح پوے شہر کے لوگوں کوکلورین ملے صاف اور قابل استعمال پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نگلیریا فلوری کے تازہ ترین حملوں کے بعد شہریوں کو ان کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے واٹر بورڈ کے حکام اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر کس حد تک توجہ دیتے ہیں اور شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کی ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کرنے یا کوتاہی اور غفلت کے مرتکب افسران اور عملے کے خلاف کیاکارروائی کی جاتی ہے۔