لائیوا سٹاک فارم ! ہا تھی کے دانت!
شیئر کریں
کئی لائیوا سٹاک فارم خصوصاً پنجاب میں’’ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘ کی طرح جیسی صورتحال سے دو چار ہیں۔ فارم بنانے کا پلان یہ تھا کہ ان میں اعلیٰ نسل کی بھینسیں گائے بھیڑ بکریاں پالی جائیں گی تاکہ ملک میں دودھ اور اعلیٰ گوشت کی فراونی ہو مگر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی طرح ان فارموں کی اندرونی تشویشناک صورتحال پرکسی ایجنسی یا متعلقہ محکمہ نے آج تک چھان بین نہیں کی اور مست ہاتھیوں کی طرح سالانہ اربوں روپوں کے فنڈز بالکل ضائع کرکے سرکاری خزانہ کو بیورو کریٹوں کی ملی بھگت سے نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
پنجاب کے تین بڑے فارم ہارون آباد ،پتو کی اور اوکاڑہ میں ہیںصرف ہارون آباد کا فارم 25مربع یعنی 625ایکڑوں سے کچھ زائد زمین پر وجود رکھتا ہے جس میں لوئرا سٹاف پر 50سے زائد ملازم موجود ہیں۔ فارم منیجر ،ڈپٹی منیجر ،ہیڈ کلرک ،اکائونٹنٹ ،کلرکس اور خزانچی جیسے بھی درجن کے قریب موجود ہیں ۔عالیشان بلڈنگز اور جانوروں کے لیے صاف پانی اور ان کے باندھنے اور چارہ ڈالنے کے لیے اعلیٰ انتظام موجود ہیں ،ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں ،25مر بع زمین میں سے تقریباً 20مربع زمین آباد ہے ۔نصف درجن سے زائد ٹریکٹرز بمعہ ٹرالیاں موجود ہیں۔ کاشت و برداشت کے تمام سازو سامان بھی مہیا کیے گئے ہیں ۔سالانہ لاکھوں روپے کھاد کی مد میں ملتے ہیں ۔جانوروں کے ونڈا کے لیے بھی لکھوکھا روپے بجٹ میں مختص ہیں۔ منیجر اور ڈپٹی منیجر نما افسران ہمیشہ ڈاکٹر ہوتے ہیںمگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ واقعی زرعی یونیورسٹیوں کے گریجویٹ ہیں یا جعلی ڈگری ہولڈرز سفارشی بھرتی شدہ ہیںکہ جانوروں کی دیکھ بھال عام کسانوں سے بھی ابتر ہے۔ اس طرح زیادہ جانور بیمار رہتے اور موت کا شکار ہوتے رہتے ہیں ۔خفیہ راہوں سے زیادہ زمین ٹھیکہ پر دے ڈالتے ہیں ۔ضلع بہاولنگر میں فی ایکڑ ٹھیکہ45/50ہزار روپوں سے کم نہیں۔ اس طرح آبادزمین کاٹھیکہ ہی سالانہ اڑھائی تین کروڑ بنتا ہے جس کا ذکر کسی کھاتے میں نہیں ہوتا کہ یہ زمینیں تو جانوروں کو پالنے کے لیے ہیںمگر ایسی تمام رقوم حصہ بقدر جثہ ہو کر اوپر تک باقاعدگی سے پہنچتی ہیں۔کرپٹ ایکسپرٹ بیورو کریسی مزے لیتی ہے کہ ان کے جسموں میں حرام خوری کی عادت مستقل حصہ بن کر ان کا وطیرہ بھی بن چکی ہے۔ مویشیوں کے لیے ونڈا کی ضمن میں لکھوکھا روپے دکھلاوے کی معمولی رقوم کے علاوہ باہر باہر ہی ہڑپ ہوجاتے ہیں ۔ایک ہزار جانوروں کے ٹارگٹ کی جگہ بھینسیں بمشکل20,25موجود ہوں گی کہ آجکل صبح کو دودھ 20کلو اور شام کو کل 30کلو ہوتا ہے پہلے تو شہریوں کو 70روپے کلو مل جاتا تھا مگر اب اس کے لیے ہزاروں روپے پیشگی رشوت کے ذریعے ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ فارم شہر سے تین کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے اور فارم پر 6سے زائد ٹریکٹر ویگن تانگے سرکاری موجود ہیں۔
سرکاری ملازم عرصہ دراز سے دودھ شہر میں پہنچاتے رہے ہیںتو خالص دودھ کا تصور قائم تھا۔ اب اسی شہرکے دودھ دہی کی دکان والے کو ٹھیکہ دیا گیا ہے تو لازماً دودھ فارم سے شہر لاکر اس میں "پانی اور دیگر ادویات ڈال کر اسے تیار”کرنے کے بعد شہریوں کو سپلائی کیا جاتا ہوگا ۔کیا پچاس سے زائد ملازم صرف تنخواہیںوصول کرنے اور حرام مال سے حصہ بٹورنے کے لیے ہیں؟پھر جب عید شب برات کا موقع آتا ہے تو یہ صبح والے20اور رات والے30کلو دودھ سے بھی شہری محروم رہ جاتے ہیں کہ سارے کا سارا دودھ یہ نام نہاد حرام خور ملازمین خود ہی رکھ لیتے ہیں، اس کی رقم کہاں سرکار کے پاس جمع ہوتی ہوگی؟
کرپٹ حکمرانوں کے کارندے ایماندار ہوں ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ان کا حال بالکل ان ٹریفک پولیس والوں کی طرح ہے کہ عام حالات میں بغیر نمبر پلیٹ یا لائسنس سوار کو پکڑنے پر 50یا سو روپے لیکر چھوڑ دیتے ہیں مگر جب عیدین کا موقع بالخصوص عید قربان کا آتا ہے توان کا یہ کہہ کر رشوت کا ریٹ تین چار گنا ہوجاتا ہے کہ” اَسیں بکرا نہیں لینا؟” بھلا حرام مال سے قربانی دیکر یہ پولیس والے ثواب کے حق دار ہوں گے؟ بعینہ دیگر ملازمین بھی رشوت کے پیسوں سے قربانی خریدتے اورذبح کرتے ہیں تو کیا اس طرح قربانی کی سنت ادا ہو جائے گی ؟ فارم پر پچاس ملازم اگر20،18ہزار روپے بھی تنخواہ پر ہوں تو ماہانہ کم ازکم 9لاکھ اور سالانہ ایک کروڑ آٹھ لاکھ بنتا ہے۔ دیگر افسران نما درجن بھر ملازمین 35یا چالیس ہزار روپے وصول کریں تو ماہانہ کم ازکم چار لاکھ اورسالانہ48لاکھ بنتا ہے۔ اس طرح صرف تنخواہوں کی مد میں تقریباًڈیڑھ کروڑ سے زائد سالانہ کا ٹیکہ خزانے کو خواہ مخواہ لگ رہا ہے جب بھینسیں ہی اس لیے نہ زیادہ پالی جائیں کہ انکے لیے چارا زیادہ اُگانا پڑے گا زمین کا خفیہ جعلی ٹھیکہ کم ہو جائے گا تو ایسے فارموں کا خدا ہی حافظ ہے ! پچا س سے زائد ملازم اور چھ ٹریکٹر بقیہ پانچ مربع زمین بھی آباد نہیں کرسکے، آرام پرستی کاہلی سستی ہڈ حرامی اور مستقل حرام خوری کی عادات بد آڑے آگئی ہوں گی، کئی ملازم فارم پر موجود ہی نہیں۔ مگر ان کی تنخواہیں بٹوری جارہی ہیں،وہ کہیں اور کاروبار کرتے مگر مہینہ بعد آکر تنخواہ وصول کرتے اور افسرا ن سے ففٹی ففٹی کر لیتے ہیں۔ کیا گھوسٹ ا سکولوں کی طرح یہ گھوسٹ لائیو ا سٹاک فارم بھی ہمارے ملک کا ایک عجوبہ نہیں؟غالباً دودھ تو لازماً زیادہ ہوتا ہو گامگر یہیں موجود ملازمین ہی پی جاتے ہوں گے جن کا کسی کھاتہ میں ذکر نہ کیا جاتا ہو گا؟ مشہورمقولہ ہے کہ بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھایا تو لازم ہے کہ سارا دودھ پی جائے گی۔ ایک مالک دو کلودودھ گھر میں رکھ کرگیا تو دودھ کا قطرہ بھی نہ تھا نو کر سے پوچھا اس نے کہا بلی پی گئی۔ بلی کو پکڑ کر تولا گیا تو وہ کل ڈیڑھ کلو تھی سوال پیدا ہوا کہ یہ دودھ کا وزن سمجھیں تو بلی کہاں ہے جو ظاہراً نظر آتی ہے وہ ہے بھی کہ نہیں۔یاد رکھو کہ "سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا”دنیا کا فاتح سکندر اعظم دنیا سے خالی ہاتھ گیا تھا۔
٭٭…٭٭