سانحہ کوئٹہ: قوم کب تک ماتم کرتی رہے گی
شیئر کریں
محمد اشرف قریشی
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم اور ملک کی تاریخ سانحات سے بھری پڑی ہے اور ایسے ایسے روح فرسا واقعات اور سانحات وقوع پذیر ہوتے رہے ہیںجن سے ہماری روح کانپتی اور دل لرزتا رہا، وقت کی حکومتیں قوم کو یہ امیدیں دیتی رہیں کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا، امن کی بہاریں آجائیں گی، دکھوں کا ازالہ اور درد کا خاتمہ ہوجائے گا، سکون و راحت ہر دہلیز پر دستک دے گی اور خوشیاں ہر گھر میں رقص کریں گی۔ مگر یہ سب کچھ فقط وعدوں تک محدود رہا، رات گئی بات گئی اور اقرار و پیمان صرف طفل تسلی تک رہے۔ یہ دنیا کا عظیم ملک کہلانے کا اعزاز رکھنے والا ملک ثابت اور تسلیم شدہ ہے جبکہ ہم بحیثیت قوم دنیا کی بلند پایہ اور تاریخ ساز قوم ہونے کا بھی عالمی ریکارڈ حاصل کرچکے ہیں لیکن صداقت اور سچ کو کب تک چھپاتے رہیں گے اور کب تک جھوٹی انا سے کام لیتے رہیں گے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم طرفہ تماشہ بن چکے ہیں ۔سچ تسلیم کرنے اور حقیقت ماننے سے ہم بہت دور نکل چکے ہیں، ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے ہماری جنگ جاری رہتی ہے اور جو بھی ایوان اقتدار میں آیا وہ خود کو پاکستان کا حقیقی وارث اور لازم و ملزوم تسلیم کروانے پر قومی خزانہ نچھاور کرتا رہا اور آج تک کوئی بھی ایسا حاکم اس قوم کو نہ مل سکا جو قوم کو محکوم نہ بناتا ہو اور اُس نے خود کو ہمیشہ وہ حاکم بنایا جس نے قوم کو یرغمال بنائے رکھا، اور لوٹ کھسوٹ، کرپشن کا بازار گرم تو رکھا لیکن وہ نظام نہ دے سکا جس میں امن و امان، ترقی اور خوشحالی کی وہ ضمانت ہوتی جس سے قوم اپنے وقار اور روشن مستقبل کی ضمانت کی بلندیوں پر ہوتی۔
گزشتہ سے پیوستہ روز کوئٹہ میں المناک سانحہ رونما ہوا اور جانوں کے نقصان کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے، زخمیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، قوم افسردہ ہے اور شہداءکے درجات کی بلندی اور غمزدہ خاندان کے دکھ میں برابر کی شریک ہے´ قوم کے تمام مکاتب فکر اس المناک سانحہ پر خون کے آنسو بہارہے ہیں اور اگر ہم مکتب سیاست سے پردہ اٹھاتے ہیں تو ہمیں روایتی ہمدردی، گفتگو اور وعدے کے علاوہ کچھ بھی دکھائی یا سنائی نہیں دیتا۔ ہم یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا وطن عزیز بے پناہ سازشوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور مخالفتوں کا طوفان اُمڈ ہوا ہے لیکن ہم سیاست کے اس کلیے قاعدے سے بے خبر اور لاپروا ہیں جو قومی وقار کے پرچم کو سرنگوں نہ ہونے دے۔ ہم نے آج تک کسی سانحہ سے نہ سبق حاصل کیا اور نہ ہی اُس کے تدارک کے لیے قدم بڑھایا ۔ہم نے ہر روح فرسا سانحہ کو نظر انداز کیاورنہ اگر ہم حقیقی نظام کو وقت کی ضرورت سمجھتے تو پھر کسی کو جرا¿ت نہ ہوتی کہ وہ میلی آنکھ سے ہمارے خلاف کسی مذموم منصوبہ بندی کی طرف بڑھتا۔ ہم آج بہتر نظام کی تلاش میں ہیں، مگر ہمیں نہ وہ راستہ مل رہا ہے اور نہ ہی منزل۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کس کی راہنمائی سے جدوجہد کی جائے ،یہ اب الجبرا کا سوال بن چکا ہے۔ لیکن ہم نا امید نہیں اور نہ ہی مایوس کہ ہم منتظر فردا ہیں ایک اچھے کل کے لیے، ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ کوئی محمد بن قاسم یا طارق بن زیاد ہی عطا کردے۔