میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تربیت کی تعلیم

تربیت کی تعلیم

منتظم
بدھ, ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
سڑک پر چلتے ہوئے یونہی کسی کو دیکھ کر مسکرا دیں وہ آپ کو ایسے دیکھے گا جیسے آپ کے سر پر سینگ نکلے ہوئے ہیں۔کچھ کی تیوری پر بل پڑجائے گا اور کچھ تو باقاعدہ گلے پڑ جائیں گے کہ ہم کو دیکھ کر کیوں دانت نکال رہے ہو، چاہتے کیا ہو،تمہاری ایسی کی تیسی۔ یہ تجربہ کراچی ،لاہور، کوئٹہ ،ملتان یا پاکستان کے کسی بھی شہر میں کرلیں نتیجہ ایک جیسا ہی آئے گا۔ تہذیب یافتہ ممالک میں راہ چلتے کسی اجنبی کو دیکھ کر مسکراہٹ کا تبادلہ عین تہذیب کی علامت سمجھا جاتاہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مغربی ممالک میں لوگ خوشحال اور شادمان ہیں اس لیے مسکرانے کی عیاشی کرسکتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تہذیب کا تعلق خوشحالی سے نہیں نہ ہی خوشی کا دولت مندی سے کچھ لینا دینا ہے۔ بہت سے غریب ممالک میں بھی عوام کا رویہ ایک دوسرے کے لیے ایسا ہی خوش کن اور پرجوش ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں بدقسمتی سے مسائل کی بھرمار نے عمومی انسانی رویوں کو بھی تبدیل کردیا ہے ،رہی سہی کسر تربیت کی کمی نے پوری کر دی ہے۔ یہاں میں نے تعلیم کی بات نہیں کی، تربیت کی بات کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کی تجارت کے لیے بے شمار دکانیں کھلی ہوئی ہیں کچھ سرکاری ادارے بھی بظاہر قوم کو تعلیم دینے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں سرکاری یا نجی کسی بھی سطح پر تربیت کی فراہمی کا کوئی انتظام موجود نہیں۔پاکستان کے کسی شہر کی کسی یونیورسٹی میں چھٹی کے وقت چلے جائیں ، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے جتھے بے ترتیبی کے ساتھ ادھر ادھر گھومتے، کھاتے پیتے، کچرا پھینکتے نظر آجائیں گے۔ یہ لوگ سڑک کے بیچ میں چلنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں ، فٹ پاتھ پر یا قطار میں چلنے کو توہین خیال کرتے ہیں۔ آپ ہارن بجائیں گے تو راستہ دینے کے بجائے آپ کو اس طرح دیکھیں گے جیسے آپ نے ان کی توہین کردی ہو۔ اعلی تعلیم کے لیے جامعات تک پہنچ جانے والے ان نوجوانوں کی تعلیم تو شاید جیسے تیسے پوری ہو جائے،لیکن تربیت کی کمی انہیں نہ اچھا انسان بننے دے گی نہ ہی اچھا پروفیشنل، نہ ملک کا اچھا اور کارآمد شہری۔ یونیورسٹی یا جامعہ تو دور کی بات ہے ،بچے کی تربیت کا کام تواسکول سے شروع ہوجانا چاہیے۔ اسکول ہی وہ جگہ ہے جہاں بچے کو درسی تعلیم کے ساتھ اخلاقیات اور معاشرت کا سبق پڑھایا جانا چاہیے۔ مہذب ملکوں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے، وہاں ابتدائی اسکول سے ہی بچوں کو اچھا اور قانون پسند شہری بننے کا درس دیا جاتا ہے اور ان کی عملی تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتاہے۔ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اسکو ل سے بھی پہلے بچے کی تربیت کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے، مسلمان ہونے کی حیثیت سے تو بچوں کی تربیت کا ہمارا فرض ویسے ہی عبادت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ باپ اپنی اولاد کوجو سب سے اچھا تحفہ دیتا ہے وہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
جدید دور والدین اور بچوں میں رابطے اور تربیت کے تعلق کا فقدان بھی ساتھ لایا ہے۔ والدین کے پاس وقت کی کمی، دفتری یا کاروباری مصروفیات اور کمپیوٹر انٹرنیٹ اورالیکٹرونک میڈیا کی بہتات نے اولاد کی تربیت کے سلسلے میں ایسے خلا پیدا کردیے ہیں جو شاید تمام عمر نہیں بھر سکتے۔ اولاد کی تربیت کا یہ معاملہ وہاں اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جہاں ماں اور باپ دونوں ہی نوکری کر رہے ہوں۔ نوکری کرنے والی ماں کام کی مصروفیت کے باعث بچوں کو خاطر خواہ وقت نہیں دے پاتی۔ صبح کو شام کرتی جب وہ تھکی ہاری گھر لوٹتی ہے تو بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ اسے دیگر امور خانہ بھی نمٹانا ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچے کو بہلانے کے لیے ٹی وی پر کارٹون یا وڈیو گیمز کے علاوہ کوئی چارا نہیں رہتا۔ بچہ ان میں مصروف رہتا ہے اور ماں اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ ایسا بچہ اپنی ہی دنیا میں گم رہتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے ،اسکول اور پھر کالج یونیورسٹی تک پہنچ جاتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا، کمپیوٹر، انٹرنیٹ ،موبائل فون تنہائی میں اس کے ساتھ ہوتے ہیں ۔اس قسم کی مصنوعی زندگی کا عادی یہ بچہ جو تربیت سے بھی عاری ہے، جوان ہو جاتا ہے۔ اس جوان نے شادی کے بعد اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری نبھانی ہے لیکن جو خود تربیت کے مفہوم سے آشنا نہیں وہ کیسے اپنے آنے والی نسل کی تربیت کا فریضہ انجام دیگا۔ پھر ہمارے ارد گرد ایسے ہی لوگو ں کی اکثریت ہوگی جو مسکراکر دیکھنے پر لڑنے کیلیے تیار ہو جاتے ہیں۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں