میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کوئٹہ سانحہ، سکیورٹی لیپس کا شاخسانہ

کوئٹہ سانحہ، سکیورٹی لیپس کا شاخسانہ

منتظم
بدھ, ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ریاض احمد چودھری
کوئٹہ میں سریاب روڈ پر دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ کالج کے ہاسٹل پر حملہ کرکے زیرتربیت ریکروٹس کو یرغمال بنالیا۔ حملے میں دہشت گردوں نے تین دستی بم پھینکے جو زوردار دھماکے سے پھٹ گئے اور آگ بھڑک اٹھی جبکہ اسی دوران دہشت گردوں نے ریکروٹس پر فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع کردیا جس سے ایف سی کے ساٹھ سے زائد اہلکار جاں بحق اور ایک سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں پانچ فوجی جوان بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں سے 15 کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ 260 سے زائد یرغمالیوں کو بازیاب کرالیا گیا جبکہ فورسز کی کارروائی میں چار دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں۔
پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ سے 17 کلومیٹر دور ہے۔ دہشت گردوں کے حملے اور ہاسٹل پر قبضے کے بعد پاک فوج نے آپریشن کی کمان سنبھال لی جبکہ پولیس اور ایف سی کی نفری بھی بھاری تعداد میں وہاں موجود رہی۔ تین چار خودکش حملہ آوروں کے کوئٹہ میں داخل ہونے کی اطلاعات تھیں جس پر کوئٹہ شہر میں ہائی الرٹ تھا۔ دہشت گردوں کو شہر میں تو موقع نہیں ملا مگر وہ ٹریننگ کالج کے پیچھے پہاڑیوں کے راستے سے کالج کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
بے شک وزیراعلیٰ بلوچستان اس حوالے سے اطمینان کا اظہار کریں کہ دہشت گردوں کو شہر کے اندر داخل ہونے کا موقع نہیں مل سکا جسکے باعث زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا مگر کیا دہشت گردی کی اس واردات میں پچاس سے زائد اہلکاروں کا جاں بحق اور سو سے زائد کا زخمی ہونا حکومت اور حکومتی مشینری کے لیے اس حوالے سے اطمینان کا باعث ہونا چاہیے کہ یہ انکے بقول کم انسانی جانی نقصان ہے جبکہ دہشت گرد تو حقائق و شواہد کی روشنی میں پولیس ٹریننگ کالج میں ہی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے تحت آئے تھے اور وہ پوری سہولت کے ساتھ اسلحہ سمیت بلاکسی روک ٹوک کالج کے اندر داخل ہوئے اور پھر ہاسٹل میں اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سفاکانہ واردات کیلیے دہشت گردوں کا قانون اور امن نافذ کرنے کے ذمہ دار سکیورٹی ادارے کے ٹریننگ سنٹر میں داخل ہونا اور ہدف پورا کرنا اس لیے بھی زیادہ افسوسناک اور تشویشناک ہے کہ ابھی دو ماہ قبل ہی کوئٹہ میں دہشت گردوں نے کوئٹہ بار کے صدر کے قتل کے بعد ہسپتال پہنچنے والے 80 کے قریب وکلاءاور سکیورٹی اہلکاروں کو بھی ٹارگٹ کرکے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا تھا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بننے والے پولیس ٹریننگ کالج میں حفاظتی انتظامات مثالی نہیں تھے۔ موجودہ خطرات کے پیش نظر سکیورٹی غیر معمولی ہونی چاہیے تھی۔ سیکورٹی کے حالات تو یہ ہیں کہ6 ستمبر کو آئی جی بلوچستان نے پولیس ٹریننگ کالج کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب میں کالج کی بیرونی دیوار دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اسی تقریب کے دوران دیوار کی تعمیر سمیت آئی جی بلوچستان کے چاروں مطالبات کو فوری منظوری دی تھی جس پر عمل نہ ہو سکا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ لوگ روز جنازے اٹھا کر تنگ آ گئے ہیں۔ عوام میں مایوسی ہے۔ ناقص سکیورٹی کے ذمہ داروں کو برطرف کر دینا چاہیے، صوبائی حکومت سے اس حوالے سے پوچھوں گا۔ وزیر داخلہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ صرف انصاف کی رٹ لگانے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔گو دہشتگردی کے تانے بانے سرحد پار سے ملتے ہیں تاہم انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کو اپنی اہلیت ثابت کرنا ہے۔ کامیابی ٹیم ورک سے حاصل ہوسکتی ہے ، دشمن کمزور ہوا ختم نہیں ہوا ، یہ جنگ جار ی ہے اور رہے گی، کہیں خامی ہوتی ہے تو ہی دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ ہمیں ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ فورسز کی کوششوں سے دشمن بھاگ نکلا ہے۔
نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد میں پاسنگ آو¿ٹ پریڈ تقریب میں چودھری نثار نے کیڈٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ الرٹ رہیں کیونکہ آپ کا ایمان آپ کی طاقت ہے اسی کو لے کر آگے چلنا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے جوان کو تھپکی دیں اور ساتھ لے کر چلیں۔ ملک میں پہلے روزانہ 5 یا 7دھماکے ہوتے تھے لیکن اب 5، 7 ہفتوں بعد کوئی دھماکا ہوتا ہے اور ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ کسی بھی واقعہ کے بعد 20 دن تک ہم الرٹ رہتے ہیں اس کے بعد پھر معمول پر آجاتے ہیں۔ کہیں خامی ہوتی ہے تبھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں لہذا اگر کہیں روگردانی ہوئی ہے تو ذمے داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اگر سکیورٹی ناقص تھی تو ذمے داروں کو بھی برطرف کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کے حوالے سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
دہشت گرد توہماری حکومتی وعسکری قیادتوں کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کو عملی جامہ پہنانے اور سکیورٹی کے ہر ممکن انتظامات کرنے کے دعوﺅں کے باوجود پوری سہولت اور آزادی کے ساتھ جہاں چاہتے ہیں‘ ہدف متعین کرکے اسے نشانہ بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اس بارے میں کم از کم اے پی ایس پشاور کے سانحہ اور اسی طرح کراچی‘ پشاور‘ لاہور اور جی ایچ کیو تک کے حساس مقامات اور سکیورٹی اداروں پر دہشت گردی کی وارداتوں کے بعدتو صفیں درست کرکے سکیورٹی اداروں میں موجود لیپس پر قابو پالیا جانا چاہیے تھا مگر گزشتہ روز کی سفاکانہ واردات کے بعد یہی محسوس ہورہا ہے کہ اس ارض وطن سے دہشت گردی کے ناسور کے قلع قمع کیلیے سوائے زبانی جمع خرچ کے اور سوائے وقتی دعوﺅں اور اعلانات کے کوئی ٹھوس قدم اب تک نہیں اٹھایا گیا۔
کوئٹہ کی دہشت گردی کے بعد وزیراعظم میاں نوازشریف نے کوئٹہ پہنچ کر زخمیوں کی عیادت کے علاوہ جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے اور اعلیٰ سطح کا انتظامی اجلاس طلب کرکے سکیورٹی انتظامات مزید سخت کرنے کے احکام بھی جاری کیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کا عزم بھی دہرایا ہے مگر کیا ان اعلانات اور فیصلوں سے دہشت گردی سے عاجز آئے عوام کو طمانیت قلب حاصل ہو پائے گی اور کیا دنیا دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کردار پر انگلی اٹھانے سے رک جائیگی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں