صوبہ میں 96 ہزار مفرور ملزمان گھوم رہے ہیں، پولیس بے بس!!!
شیئر کریں
عدالت عالیہ سندھ نے 2783 خطرناک ترین ، اشتہاری ملزمان کو فوری پکڑنے کا حکم دے دیا ، پولیس پریشان
سندھ حکومت سیاسی تنازعات اور مخالفین کو پیپلزپارٹی میں شامل کرانے میں مصروف، امن وامان کی صورتِ حال سے مکمل بے پروا
الیاس احمد
پاکستان میں عدالتی نظام پر جتنی بھی تنقید ہوتی ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو تھوڑی بہت آزادی ہے وہ اعلیٰ عدالتوں کی وجہ سے ہی ہے، اگر عدالتیں نہ ہوں تو شاید سیاسی، مذہبی جماعتیں اور مسلح گروہ عوام کو غلام بنا ڈالیں۔ پاکستان میں جتنے بھی اہم ایشوز ہیں، ان کے حل کے لیے عدالتوں نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے حال ہی میں حکومت سندھ کو حکم دیا کہ صوبہ میں کتنے افراد ہیں جو مفرور ہیں کیونکہ جس بھی مقدمے کو دیکھا جائے اس میں کوئی نہ کوئی ملزم مفرور یا اشتہاری بتایا جاتا ہے۔ آخر بتایا جائے کہ مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تعداد کتنی ہے؟ اس حکم پر سندھ پولیس میں ہلچل مچ گئی۔ بالآخر عدالتی احکامات کے بعد سندھ پولیس نے اعداد و شمار جمع کیے تو اس میں حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ سندھ پولیس نے 2000 صفحات سے زائد پر مشتمل ایک رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں اس وقت 96 ہزار 698 ملزمان مفرور ہیں۔ اس میں 2783 خطرناک ترین ملزمان ہیں کیونکہ ان کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں نے مفرور اور اشتہاری قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی ڈویژن میں 26 ہزار 100 ملزمان مفرور ہیں جن میں اشتہاری ملزمان کی تعداد 7 ہزار 692 اور مفرور ملزمان کی تعداد18 ہزار 408 ہے، ان ملزمان کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حیدر آباد ڈویژن میں 15 ہزار 180 ملزمان مفرور اور اشتہاری ہیں، وہ بھی آزادانہ طریقے سے گھوم رہے ہیں۔ میرپور خاص ڈویژن میں 1171 ملزمان تاحال مفرور اور اشتہاری ہیں ان کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ نواب شاہ ڈویژن میں 7 ہزار 66 ملزمان مفرور اور اشتہاری ہیں۔ پولیس نے ان کی گرفتاری کے لیے اب تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ اس طرح سکھر ڈویژن میں 10 ہزار 495 ملزمان مفرور اور اشتہاری بنے ہوئے ہیں اور آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں لیکن پولیس کے لیے وہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں 36 ہزار 686 ملزمان مفرور اور اشتہاری ہیں، ان کو پکڑنا پولیس کے لیے ناممکن عمل بن چکا ہے۔
سب سے زیادہ مفرور ملزمان کراچی ڈویژن میں اور سب سے کم مفرور ملزمان میر پور خاص ڈویژن میں ہیں۔ عوام کے لیے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ان مفرور اور اشتہاری ملزمان میں وہ بھی شامل ہیں جن کو خطرناک ترین مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مفرور اور اشتہاری قرار دیا ہے جن کی تعداد2783 ہے۔ ان میں خطرناک اشتہاری ملزمان کی تعداد1681 اور مفرور ملزمان کی تعداد1102 ہے۔ جب یہ بھاری بھرکم رپورٹ بھاری ڈبوں میں لا کر سندھ ہائی کورٹ کے سامنے پیش کی گئی تو عدالت نے شدید افسوس کا اظہار کیا اور حیرت سے کہا کہ پولیس کیا کر رہی ہے؟ کیونکہ یہ ملزمان تو معاشرے کے لیے خطرہ ہیں اگر ان کوگرفتار نہ کیا گیا تو پھر صوبہ کا امن کیسے بحال ہوگا؟
سندھ ہائی کورٹ نے اس رپورٹ پر حکومت سندھ اور سندھ پولیس کو حکم دیا ہے کہ ان ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور انہیں متعلقہ عدالتوں میں پیش کیا جائے کیونکہ یہ ملزمان معاشرے کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کو گرفتار کرنے کے بعد قانون کی عملداری ہوگی اور دیگر ملزمان کے لیے ایک سبق ہوگا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران نے صوبہ بھر کے 29 اضلاع کے پولیس افسران کو حکم دیا ہے کہ وہ ان مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے منصوبہ بندی کرلیں۔ ایس ایس پیز نے اپنے اپنے اضلاع کے ایس ایچ اوز سے کہا ہے کہ وہ ان مفرور اور اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کے لیے باقاعدہ مہم شروع کریں تاکہ ان کو گرفتار کرکے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق متعلقہ عدالتوں میں پیش کیا جاسکے۔ جس صوبے میں 96 ہزار698 ملزمان مفرور اور اشتہاری ہوں اور وہاں پولیس ان کی گرفتاری کے لیے کوئی اقدام نہ اٹھائے تو ایسے صوبے میں امن کس طرح قائم ہوگا؟ حکومت سندھ کو سیاسی تنازعات کے لیے تو فرصت ہے سیاسی مخالفین کو پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کا وقت ہے لیکن اس حکومت سندھ کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ 96 ہزار چلتے پھرتے جرائم پیشہ افراد آزادانہ گھوم رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹس سے مس نہیں ہوتے تو پھر ایسی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ بھلا ہو سندھ ہائی کورٹ کا جس نے حکم دیا کہ مفرور اور اشتہاری ملزم پکڑے جائیں اگر سندھ ہائی کورٹ حکم نہ دیتی تو سندھ پولیس ان ملزمان کو بھول ہی چکی ہوتی!