جے آئی ٹی کی کارروائی پر سرکاری حلقوں میں ہلچل
شیئر کریں
وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے لاہور میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں سے جذباتی خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ جے آئی ٹی میں وزیراعظم نواز شریف کے کزن طارق شفیع اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو کچھ نہیں بتایا گیا کہ تصویر کس نے لیک کی، ایک جج نے ہمیں گاڈ فادر قرار دے دیا، ہم اس پر درخواست دے سکتے تھے لیکن ایسا نہ کیا، عدلیہ نے ہمیں سسلی مافیا کہا تو ہمارے ووٹر کو تکلیف ہوئی، ہم مافیا ہیں نہ گاڈ فادر، (ن) لیگ نے واٹس ایپ کال کا معاملہ اٹھایا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی پر ہمارے تحفظات جائز ہیں۔ گستاخی نہیں، جے آئی ٹی ارکان کو سوچنا چاہیے کہ وہ سچ کی تلاش میں ہیں یا مچھلیاں پکڑ رہے ہیں، یہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ہے انٹروگیشن ٹیم نہیں۔ سعد رفیق نے کہا دنیا کہتی ہے کہ بے نظیر بھٹو کا عدالتی قتل ہوا، لیکن بھٹو آج بھی قبر سے حکومت کررہا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا بھٹو کو پھانسی دے کر انصاف کیا گیا اور کیا بے نظیر کا خون خون ناحق نہیں تھا؟انہوں نے کہا کہ دھرنے کے سانپ زخمی ہوگئے لیکن مرے نہیں، خان صاحب اس حد تک نہ چلے جاؤ کہ پتھر چاٹ کر واپس آنا پڑے ۔عمران خان کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو بھی ہمارے ساتھ ٹرک پر چڑھنا پڑ جائے، ہمیں گندا کہتے کہتے وہ خود گندے ہوگئے، 4 بار مارشل لا لگاکر ملک کا کباڑہ کردیا گیا، پہلے بھی اکثریت کا فیصلہ نہیں مانا تو ملک ٹوٹ گیا، آج پھر اکثریت پر اقلیت کا فیصلہ مسلط کیا جارہا ہے۔
سعد رفیق نے کہا کہ (ن) لیگ نے کیا جرم کیا ہے جب بھی برسراقتدار آتی ہے غیر فطری طریقے سے اس کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے، اگرعدالتیں آزاد نہیں ہونگی توملک ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے گا، ہم نے آمریت کے خلاف جنگ لڑی اور عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی، لانگ مارچ کے دوران پیش قدمی روکنے کے لیے نوازشریف کو 2 ممالک کے وزرائے خارجہ کے فون آئے، کیا میاں صاحب کا جرم یہی ہے کہ وہ اداروں کو اپنی حدود میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ قوم بھکاری بن جائے تو ریمنڈ ڈیوس جیسے جاسوس چھوڑنے پڑتے ہیں۔
جے آئی ٹی کے بارے میںوزیراعظم نواز شریف کے چہیتے اورخود کو شاہ سے زیادہ شاہ کاوفادار ثابت کرنے کی دوڑ میں اول آنے کے طلبگار وزیر ریلوے سعد رفیق کے ان خیالات سے خود نواز شریف کس حد تک متفق ہیں، اس سے قطع نظر یہ بات اہم ہے کہ جوں جوں جے آئی ٹی کے کام کی تکمیل کی مدت قریب آرہی ہے ،حکومت کے قریبی حلقوں خاص طورپر وزیراعظم کے حاشیہ بردار اورنمک خوار حلقوں اور نواز شریف کی نوازشوں سے فائدہ اٹھاتے رہنے والے حلقوں میں ہلچل بڑھتی جارہی ہے، اس سے چند روز قبل محترم جاوید ہاشمی نے کھڑے ہوکر سرے سے جے آئی ٹی کے قیام پر ہی یہ کہہ کر اعتراض اٹھادیاتھا کہ اس سے پہلے کسی عدالت نے جے آئی ٹی نہیں بنائی تو اب اس کی کیا خاص ضرورت آن پڑی تھی۔ پھر ہاشمی صاحب نے ججوں کو للکارا کہ ججز سوچ سمجھ کر ریمارکس دیا کریں۔ جاوید ہاشمی نے یہ کہتے ہوئے غالباً یہ حقیقت نظر انداز کردی کہ ججز کے ریمارکس بالعموم ان کے فیصلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ سب کے لیے ہوتے ہیں۔ ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ چور کوئی اور ہے اور تنکا کہیں اور ہے۔تاہم جاوید ہاشمی کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کیاجائے گا کہ کرپٹ مافیا اور ٹیکس چوروں کو پھانسی دی جائے اور گولی ماری جائے،کرپٹ مافیا اور ٹیکس چوروں کو پھانسی دینے بلکہ سرعام پھانسی دینے سے شاید اس ملک کے کرپٹ عناصر کے علاوہ کوئی بھی عدم اتفاق نہیں کرے گا بلکہ بیشتر لوگ پھانسی سرعام دینے سے بھی عدم اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ اس بات پر سب ہی متفق نظر آتے ہیںکہ سب کے سامنے سخت سزائیں دی جائیں تو جرم ختم ہو جائے گا۔ یہ سزائیں زیادہ بار نہیں دینا پڑیں گی۔ اسلام نے سخت سزائیں سرعام دینے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا۔ کسی مجرم کو سنگسار کر دیں تو پھر یہ جرم کرنے کی جرات ہی کوئی نہیں کرے گا۔ ججز نے جو ریمارکس دیے تو اشارہ نواز شریف کی طرف جاتا ہے۔ اس لئے جے آئی ٹی پر جاوید ہاشمی کے اعتراض کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ ن لیگ کی تھوڑی سی محبت جاوید ہاشمی کے دل میں کہیں نہ کہیں موجود ہے جو انہوں نے چھپا کر رکھی ہوئی ہے،جبکہ سعد رفیق نہ صرف یہ کہ ن لیگ میں موجود ہیں بلکہ وزارت کے مزے لے رہے ہیں، سعد رفیق نے ملک میں 4مرتبہ مارشل لا ئوں کو ملک کی تباہی کاذمہ دار قرار دیا ہے اس حوالے سے کم از کم اس حد تک اتفاق ضرور کیاجاسکتاہے کہ اگر جنرل ضیا الحق سیاستدانوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے نواز شریف جیسے لوگوں کو سیاسی منظر پر لاکر اعلیٰ مناسب پر نہ بٹھاتے تو شاید سیاستداں ملک کو بہتر طورپر چلاتے اور ملک کی پالیسیاں دوپیسے کے فائدے کو مد نظر رکھ کر بنانے کے بجائے وسیع تر قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتیں اور اس طرح شاید اس ملک کاشمار اقوام عالم میں زیادہ باوقارممالک میں ہورہاہوتا ۔
جہاں تک سعد رفیق کے ان اعتراضات کاتعلق ہے کہ جے آئی ٹی میں وزیراعظم نواز شریف کے کزن طارق شفیع اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد ،نواز شریف کے دونوں بیٹوں کو طلب کرکے ان سے سخت پوچھ گچھ کے علاوہ اب ان کی بیٹی مریم نواز کو کیوں طلب کیاگیاہے تو انھیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جے آئی ٹی بنائی ہی اس غرض سے گئی ہے کہ وہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے تاکہ اس حوالے سے مختلف حلقوں میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کاتدارک ہوسکے اور اگر کوئی کسی بدعملی کامرتکب ہوا ہے تو اس کی نشاندہی ہوسکے تاکہ اسے سزا دی جاسکے۔ اس لیے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اگر اس معاملے سے متعلق لوگوں سے 10مرتبہ بھی پوچھ گچھ کرنا پڑے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوناچاہئے جہاں تک متعلقہ لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کی شکایت کا تعلق ہے تو اب تک وزیر اعظم کے کزن اور نیشنل بینک کے سربراہ نے اس حوالے سے کوئی شکایت ریکارڈ پر لانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس لیے جب متعلقہ افراد کو ہی اس پر اعتراض نہیں ہے تو پھر اس پر اعتراض اٹھانے والے کو شاہ سے زیادہ شاہ کاوفادار ہی کہاجاسکتاہے۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ سعد رفیق ٹرک پر چڑھنے اور اکثریت کافیصلہ نہ ماننے کے نتائج سے ڈرانے کی کوشش کرکے سعد رفیق کیا ثابت کرنا چاہتے یا کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ، کیا وہ حسب منشا فیصلہ نہ آنے کی صورت میں کسی طرح کی تحریک چلانے کی دھمکی دینا چاہتے ہیں ، یہ سوال اس لیے زیادہ اہمیت رکھتاہے کہ عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی اور من پسند فیصلہ حاصل کرنے کے لیے عدالتوں پر باقاعدہ حملہ کرنے کا داغ اگر کسی سیاسی جماعت کے دامن پر ہے تو وہ حکمران مسلم لیگ ن ہی ہے ،لیکن سعد رفیق کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے
کہ مسلم لیگ ن کو بحیثیت مجموعی اس ملک کے 30فیصد افراد نے بھی ووٹ نہیں دیے ہیں اس لیے وہ خود کو منتخب حکومت تو کہہ سکتے ہیں لیکن اکثریت کی حمایت کادعویٰ نہیں کرسکتے ، سعد رفیق یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت بنانے کے بعد بھی جہاں جہاں ضمنی انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ ن کے امیدوار وںنے کامیابیاںحاصل کیں وہاں بھی حکمراں پارٹی کے تمام وسائل جھونک دیے جانے کے باوجود سرکاری پارٹی کے حکمران کسی بھی جگہ کسی بڑے فرق سے کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں جس کے واضح معنی یہ ہیں کہ اس ملک کے لوگوں کی اکثریت نہ پہلے مسلم لیگ ن کے ساتھ تھی اور نہ اب ہے اس لیے وہ اپنے خلاف عدالتی فیصلہ آنے کی صورت میں کوئی بڑی تحریک چلانے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں شاید کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس صورت حال میں سعد رفیق اور ان کے دیگر ساتھیوں کو بہت سوچ سمجھ کر زبان کھولنی چاہئے اور عدلیہ اور عدالت کے تشکیل کردہ اداروں کے حوالے سے کوئی ایسی بات کرنے سے گریز کرنا چاہئے جو کل خود ان کے لیے مشکل کاسامان پیدا کرنے کا باعث بن جائے اور اس کی وضاحت کرنا ان کے لیے مشکل ہوجائے۔