مثالی عید!
شیئر کریں
عیدکا دن مسلمانوں کے مذہبی تہوار کا دن کہلاتا ہے ۔اسلام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے دو دن عید کے مقرر کیے ہیں :ایک دن عید الفطر کا اور دوسرا عید الاضحی کا ، یہ الگ بات ہے کہ ہم لوگ دونوں عیدیں تین تین دن تک مناتے رہتے ہیں ۔ عید الاضحی کا تو تین دن تک منانا سمجھ میں آتا ہے کہ اُس میں اللہ تعالیٰ نے تین دن تک قربانی کرنے کا موقع دے رکھا ہوتاہے ،لیکن عید الفطرکا تین دن تک منانا سمجھ میں نہیں آتا ، شاید عید الفطر کو عید الاضحی پر قیاس کرتے ہوئے تین دن منایا جاتا ہو، بہرحال کچھ بھی عید کا دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے ایک انتہائی خوشی اور مسرت کا مبارک دن ہوتا ہے ،اس دن مسلمان مہمان مہینہ ٗ ماہِ رمضان کو الوداع کہتے ہیں ، ایک جگہ جمع ہوکر عید الفطر کی نماز اداکرتے ہیں ، برسوں اور مہینوں سے بچھڑے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں،اورگزشتہ لغزشوں اور بھول چوک پر ایک دوسرے سے معافیاں مانگتے ہیں غلطیوں اور کوتاہیوں پر نادم و پشیمان ہوتے ہیں،، بوڑھوں اور بزرگوں کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں اور اپنا دامن اُن کی نیک اور مبارک دُعاؤں سے بھرتے ہیں ، پرانے گلے شکوے دور کرتے ہیں اور نئے ولولہ اور شوق کے ساتھ آئندہ کا لائحۂ عمل طے کرتے ہیں ، اس دن رنگا رنگ ، مختلف الذائقہ اچھے اچھے کھانے پکائے جاتے ہیں اور نئے کپڑوںاور نئے جوتوں میں ملبوس چہار سو مسلمان خوش و خرم نظر آتے ہیں ، بلا شبہ مسلمانوں کا یہ مذہبی تہوار یہ عید کا دن ان کے لئے کسی بھی خوشی اور مسرت سے کم نہیں ہوتا ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان دونوں مذہبی تہواروں اور ان دونوں عیدوں میں دو مخصوص عبادات کا بھی پابند بنایا ہے ، چنانچہ عید الاضحی پر حکم دیا کہ عید کی نماز ادا کرلینے کے بعد صاحب نصاب حضرات جانوروں کو اللہ کی رضاء کی خاطر اُس کی راہ میں قربان کریں اور اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مبارک سنت کو زندہ کریں ، اور عید الفطر پر یہ حکم دیا کہ پہلے رمضان المبارک کے پورے مہینے کے تیس روزے رکھیں اور اس کے بعد ’’صدقۃ الفطر‘‘ اداء کریں اور اس کے بعد اپنی عید منائیں۔
اس میں شک نہیں کہ دونوں عیدوں میں جو دو مخصوص عبادات(عید الفطر میں ’’ صدقۂ فطر‘‘ اور ’’ عید الاضحی ‘‘میں قربانی) اللہ تعالیٰ نے صاحب نصاب مسلمانوں کے اوپر لازم کی ہیں ان کا اصلی اور مقصد اصلی اور غرضِ اوّلی یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور رزق کی فراوانی سے مالا مال کیا ہے وہ لوگ معاشرے کے غریب ، نادار اور کسمپرس ہمارے مسلمان بھائیوں کو بھی کم از کم عید کی خوشیوں میں اپنے ساتھ شریک کریں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں اور اُن کو بھی اپنے شانہ بشانہ کھڑا کریں تاکہ مذہبی تہوار کے اس خاص اور حساس موقع پر وہ کسی بھی قسم کی احساسِ کم تری کا شکار نہ ہوسکیں ۔
ایثار و ہم دردی یعنی دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا اور دوسروں کے غم اور دُکھ درد میں برابر کا شریک ہونا اسلام کی معاشرتی تعلیمات میں سے ہے ،اورمعاشرہ کے اجتماعی نظام کے استحکام اور بقاء میں اس کا بڑا عمل دخل ہے ۔
اسلام کی شا ن دار لہلہاتی تاریخ میں اسلامی معاشرے اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ایثاروہم دردی کے بڑے عجیب وغریب واقعات ملتے ہیں،ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہنے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف’’تاریخ بغداد‘‘ میں امام واقدی رحمۃ اللہ علیہکے حالات میں لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں:
امام واقدی رحمۃ اللہ علیہ کابیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے بڑی مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، فاقوں تک نوبت پہنچی، گھر سے اطلاع آئی کہ: ’’ عید کی آمدآمدہے اور گھر میں کچھ بھی نہیں،بڑے تو صبر کرلیں گے ، لیکن بچے مفلسی کی عید کیسے گزاریں گے؟۔‘‘یہ سن کر میں اپنے ایک تاجر دوست کے پاس قرض لینے گیا، وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گیااوربارہ سو (۱۲۰۰) درہم کی سربمہرتھیلی میرے ہاتھ تھمادی، میں گھر آیا،ابھی بیٹھاہی تھاکہ میراایک ہاشمی دوست آیا،اس کے گھر بھی افلاس وغربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، قرض رقم چاہتاتھا،میں نے گھر جاکراہلیہ کوقصہ سنایا،وہ کہنے لگیں: ’’کتنی رقم دینے کاارادہ ہے؟‘‘میں نے کہا: ’’تھیلی کی رقم نصف نصف تقسیم کرلیں گے، اس طرح دونوں کا کام چل جائے گا۔‘‘ کہنے لگیں : ’’بڑی عجیب بات ہے کہ آپ ایک عام آدمی کے پاس گئے، اس نے آپ کو بارہ سو (۱۲۰۰) د رہم دیے اور آپ کے پاس رسول اللہ ا کے خاندان کاایک شخص اپنی حاجت لے کرآیاہے اور آپ اسے ایک عام آدمی کے عطیے کانصف دے رہے ہیں؟آپ اسے پوری تھیلی ہی دے دیں۔‘‘
چنانچہ میں نے وہ تھیلی کھولے بغیر سر بمہر اس کے حوالے کردی، وہ تھیلی لے کر گھر پہنچا تو میرا تاجر دوست اُس کے پاس گیااورکہا کہ: ’’عید کی آمدآمد ہے
گھرمیں کچھ نہیں،کچھ رقم قرض چاہیے۔‘‘ ہاشمی دوست نے وہی تھیلی سر بمہر اُس کے حوالے کردی ،اپنی ہی تھیلی اس طرح سربمہر دیکھ کراُسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘وہ تھیلی ہاشمی دوست کے ہاں چھوڑکر میرے پاس آیا تو میں نے اُسے پورا قصہ سنایا۔
درحقیقت تاجر دوست کے پاس بھی اس تھیلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا،و ہ سارامجھے دے گیاتھااور خودقرض لینے ہاشمی دوست کے پاس چلاگیا تھا،ہاشمی دوست نے جب وہ حوالے کرنا چاہا تو رازکھل گیا ۔ اکبر الٰہ آبادی نے کسی ایسے ہی موقع پر کہا ہے ؎
نگاہیں ’’ کاملوں‘‘ پر پڑہی جاتی ہیں زمانے کی
کہیں چھپتا ہے اکبرؔ پھول پتوں میں نہاں ہوکر
ایثاروہمدردی کے اس انوکھے واقعہ کی اطلاع جب وزیر یحییٰ بن خالد کے پاس پہنچی تو وہ دس ہزار (۱۰۰۰۰) دینار لے کر آیا اور کہنے لگا:’’ان میں سے دوہزار (۲۰۰۰) آپ کے، دوہزار(۲۰۰۰) آپ کے ہاشمی دوست کے، دوہزار (۲۰۰۰) تاجر دوست کے، اور چار ہزار (۴۰۰۰) آپ کی اہلیہ کے ہیں،کیوں کہ وہ تم میں سب سے زیادہ قابل قدراورلائق اعزاز ہے۔‘‘
یقیناً انسانی ہم دردی اور ایثار ایک ایسی بڑی نعمت ہے جو اگر کسی کو حاصل ہوجائے تو اس کے آنگن میں بھائی چارگی اور رحم دلی کے اَن گنت پھول کھلنے لگتے ہیں اور مظلوم و ستم رسیدہ عالم انسانیت کی فضا ان کی مشک بار ہواؤں سے معطر ہونے لگتی ہے۔
٭٭……٭٭