۔۔۔اوراب ’’یوم ابوجہل‘‘
شیئر کریں
سندھ کے باسی اپنے محسن محمد بن قاسم کی یاد میں 10 رمضان المبارک کو یوم باب الاسلام مناتے ہیں ۔محمد بن قاسم کی آمد اور فتح سندھ 93 ہجری کا واقعہ ہے یوں تقریباً1345 سال سے سندھ کے باسی یہ دن مناتے آئے ہیں کہ اس دن انہیں ایک جابر اور ظالم حکمران سے ایک غیرملکی نوجوان نے نجات دلائی تھی ۔راجہ داہر سندھ کی تاریخ کا وہ گھناونا کردار ہے کہ جس کے ذکر سے بھی ایک ذہنی اذیت ہوتی ہے ۔
راجہ داہر کا تعلق دیومالائی مذہب سے تھا جس میں ہر شے کو دیوی اوردیوتاؤں کا درجہ حاصل تھا اور معاملات میں ستاروں کا” علم "رکھنے والے جوتشیوں کا کردار نمایاں تھا ،ہر کام ان کے اشارے پر ہوتا تھا ۔راجہ داہر توہمات کا شکار تھا اور اقتدار کا رسیا۔کسی جوتشی نے اسے بتایا کہ اس کی بہن کا شوہر اس کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتا ہے ،اب دو مسائل سامنے تھے کہ یا تو بہن کی شادی نہ کی جائے یا پھر اقتدار کے چھن جانے کاخطرہ مول لے ۔دونوں صورتیں راجہ داہر کے لیے ناقابل عمل تھیں۔اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ خود ہی بہن سے شادی کر لے اور یوں اس نے اپنی بہن سے ” سات جنم کے پھیرے” لے لیے ۔یہ راجہ داہر کی ذہنی پست ماندگی کی انتہا تھی ۔بہن وبھائی کا مقدس رشتہ میاں اور بیوی کے رشتے میں تبدیل ہو گیا ۔اب راجہ داہر اپنی بہن کے بطن سے پیدا ہونے والے بچوں کا ماموں بھی تھا اور باپ بھی ۔
یہ صورتحال مقامی ہندووں کے لیے بھی سخت تکلیف دہ تھی لیکن راجہ داہر کے جبر کے سامنے آواز اُٹھانا اپنی موت کو دعوت دینا تھا اور غیر مسلموں کے لیے تویہ دنیا ہی سب کچھ ہے ،موت کے بعد ان کے لیے کچھ نہیں بچتا ۔یوں اس وقت کے سندھ کے باشندے خاموش تو تھے لیکن کسی ایسے وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ جب راجہ داہر کے ظلم کے خلاف کوئی ان کا مدد گار ہو،وہ راجہ داہر کے سامنے کھڑے ہو سکیں ۔
تاریخ کے مطابق سندھ کے ساحلوں سے گزرنے والے تجارتی قافلوں پر حملہ کر کے راجہ داہر کی فوجوں نے ان قافلوںکو لوٹا بھی اور قافلے والوں کو قیدی بھی بنالیا ۔اسی قافلے میں سے کچھ لوگ نکل کر مروان بن مالک کے دربار میں پہنچے اور ساری صورتحال بیان کی ۔مروان بن مالک نے حجاج بن یوسف کو کارروائی کا حکم دیا ۔ابتدائی دو کارروائیاں ناکام رہیںاور مروان نے کارروائی ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن حجاج بن یوسف جو کہ خود ایک ظالم اور جابر حکمران تھا ،اس نے مسلمانوں کی داد رسی کا فیصلہ برقرار رکھا اور مروان بن مالک سے بمشکل تمام تیسرے لشکر کی اجازت حاصل کر لی اس لشکر کی قیادت کے لیے کوئی بھی نامورسپہ سالار تیار نہیں تھا ۔ان حالات میں حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو اس لشکر کا سالار بنا کر روانہ کیا ۔دیبل کا مقام جو موجودہ مکران کے مضافاتی علاقہ بتایا جاتاہے ، یہاں پہلا معرکہ ہوا اور محمد بن قاسم کی منجنیق کا مقابلہ کرنے کے لیے راجہ داہر کے لشکر کے پاس کچھ نہ تھا۔ منجنیق سے پھینکے گئے بھاری پتھر راجہ داہر کی فوجوں کے لیے آفت ناگہانی تھے جس سے بچاؤ ممکن نہ تھا ،یوں شکست راجہ داہر کی فوجوں کا مقدر بنی۔ راجہ داہر میدان جنگ سے فرار ہوا لیکن محمد بن قاسم نے اس کا تعاقب کیا اور بلآخر وہ واصل جہنم ہوا۔ سندھ کے باشندے راجہ داہر کے مظالم سے تنگ تھے لیکن ظالم حکمران کے سامنے اس کے اظہار سے معذور تھے کہ اظہار کی صورت میں مزید ظلم وستم کا خدشہ موجود رہتا تھا ۔ان حالات میں جب محمد بن قاسم نے سندھ میں قدم رکھے اور فتوحات کے بعد اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانوں کو برابری کا درجہ دیا تویہ سندھ کے باشندوں کے لیے ناقابل یقین تھا کہ کوئی فاتح مفتوح قوم کو اتنی عزت بھی دے سکتی ہے ۔ان کے تجربے میں تو یہ شامل تھا کہ فاتح کا مطلب ایک درندہ کا مسلط ہونا ہوتا ہے جو اپنی ہوس ملک گیری میں مفتوح قوم کے خون سے دریا سرخ کرتا ،خواتین کی عزتوں کو پامال اور بچوں کو یتیم بناتا ہے لیکن یہاں تومعاملہ ہی اُلٹا تھا ۔محمد بن قاسم نے یہ سب کچھ نہیں کیا تھا جس کے نتیجہ میں مقامی باشندے فاتح محمد بن قاسم کے مذہب سے شدید متاثر ہوئے اور مختصر عرصہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے اسلام قبول کیا ۔راجہ داہر کی ہلاکت کے بعد محمد بن قاسم ملتان تک پہنچ چکا تھا اور اس دوران اسے چھوٹی موٹی مزاحمتوں کے سوا کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا بلکہ اس نے جو جو علاقے فتح کئے وہاں کے عوام نے اس کا استقبال کیا لیکن جب محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف نے واپس کوفہ طلب کیا تو اس نوجوان نے مزید فتوحات کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے اطاعت کا مظاہرہ کیا اور کوفہ کی طرف واپس روانہ ہو گیا ۔محمد بن قاسم کی واپسی کا یہ سفر سندھ کے باشندوں کے لیے انتہائی افسوسناک تھا ۔محمد بن قاسم واپسی کے سفر میں جہاں جہاں سے گزرا ،وہاں سے باسیوں نے اس کوچشم پرنم سے رخصت کیا ،اس زمانے میں تو ایام کا منایا جانا عام نہیں تھا لیکن اس کے باوجود سندھ کے باسی 10 رمضان المبارک کو محمد بن قاسم کی فتح کا جشن منایا کرتے تھے ۔یہ سلسلہ انگریزوں کے ہند اور سندھ پر قابض ہونے تک جاری رہا ۔انگریزوں کے سندھ کے غلبے کے ساتھ ہی ہندوؤں کو ایک بار پھر سر اُٹھانے کا موقع ملا اور انہوں نے انگریزوں کے ساتھ ملکر سندھ کی زمینوں پر قبضے کیے اور ساہوکار بن بیٹھے، ان ہندوؤں میں وہ بھی شامل تھے جن کے آباؤاجدادنے راجہ داہر کے دور میں جاگیریں بنائی تھیں ،یوں ان کی نظر میں راجہ داہر ایک ہیرو تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں محمد بن قاسم کی یاد منانے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا لیکن انگریزوں کے دور اقتدار میں راجہ داہر کے پیروکارو نے اتنا استحکام حاصل کرلیا تھا کہ ابتداء میں انہوں نے خاموشی سے 10 رمضان کو راجہ داہر کی یاد منانا شروع کی اور پھر اسلام کے بجائے علاقائی قوم پرستی، نام نہاد سول سوسائٹی اور دیگر نے اتنے پرپرزے نکالے کہ علی ا لاعلان 10 رمضان کو راجہ داہر کا دن منانا شروع کردیا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے نام پر ان عناصر کو کھل کھیلنے کا موقعہ فراہم کیا گیا جس سے ان عناصر کا حوصلہ افزائی ہوئی۔
17 رمضان المبارک تاریخ اسلام کا وہ دن ہے کہ جس دن پہلا معرکہ حق وباطل برپا ہوا اور باطل کا بہت بڑا بت ابوالحکم المعروف ابوجہل غزوہ بدر میں واصل جہنم ہوا ۔سوشل میڈیا کو مادرپدر آزادی حاصل ہے وہ جو چاہے کرتے رہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہاں اگر حکمرانوں کے معاملات آ جائیں تو پھر سائبرکرائم کا قانون حرکت میں آتا ہے اور حکمرانوں کو للکارانے والے قومی مجرم قرار پاتے ہیں ورنہ دیکھا جائے تو گزشتہ ایک عرصہ میںتوہین اسلام ،توہین رسالت،توہین قرآن اور رب کائنات کے وجود سے انکار اور رب کائنات کے نازل کردہ نظام کو ظلم واستبداد کا بنیادی منبع قرار دیا جانا اس نام نہاد سول سوسائٹی کی شناخت رہی ہے لیکن کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس سال نام نہاد سول سوسائٹی المعروف موم بتی مافیا جس کی قیادت میں عاصمہ جہانگیر نامی ایک خاتون بہت نمایاں ،ہے ان کے عقائد کا تو مجھے علم نہیں لیکن ان کے خیالات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ایک بڑی پارٹی کے بڑے لیڈر "اور بہت بڑے قانون دان” جو قرآن کریم کی تعلیمات سے نابلد ،اور سورۃ اخلاص بھی جنہیں یاد نہیں اور جو گزشتہ دنوں سینٹ میں قرآن کریم کی لازمی تعلیم کے خلاف اظہار خیال کرچکے ہیں، یہ بھی اس موم بتی مافیا ” سول سوسائٹی” کے سرخیل ہیں ۔اس ” سول سوسائٹی” نے مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس سال 17 رمضان المبارک کو یوم بدر کے مقابلے میں یوم ابوالحکم منایا ہے، یہ حکمرانوں کے ہی نہیں امت مسلمہ کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ پاکستان جس کو بابائے قوم نے اسلام کا نمونہ ریاست کے طور پر بنانے کا خواب دیکھا تھا ۔اس میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن کا نہ صرف دن منایا جا رہا ہے بلکہ اسے شہید وطن بھی قرار دیا جارہا ہے ۔یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ اُٹھ کھڑی ہو اور ایسے ناہنجاروں کو ان کے مقام پر پہنچا دے ،میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب نہیں دے رہا لیکن اگر قانون حرکت میں نہیں آیا تو پھر اس ملت میں غازی علم دین شہید،غازی ممتاز قادری شہید جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں موجود ہیں۔
جس زمانے میں غازی علم دین شہید نے شاتم رسول کو واصل جہنم کیا تھا اس وقت حکیم الامت علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہم لکھے پڑھے توسوچتے رہ گئے اور ترکھانوں کا بیٹا بازی لے گیا۔ یہ خیالات کسی مولوی کے شاگرد اور مدرسے سے فارغ فرد کے نہیں تھے بلکہ علامہ اقبال فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کا درجہ رکھتے تھے اور اس ڈاکٹریٹ کا اعزاز انہیں اس وقت کی جرمن یونیورسٹی نے دیا تھا، علامہ اقبال جذباتی مولوی نہیں تھے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال تھے لیکن جہاں حبّ رسول کا معاملہ آیا، وہاں سارے معاملات ایک طرف رہ گئے اور اللہ کے نبی ﷺ کی محبت ان سب پر غالب آ گئی اب بھی وقت ہے کہ حکمران اس نام نہاد سول سوسائٹی کو لگام ڈالیں اور مسلمانوں کے جذبات سے نہ کھیلیں ورنہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر کوئی سول سوسائٹی کے نام نہاد نمائندوں کو ان کے محبوب ابوالحکم کے پاس پہنچا دے گا۔
٭٭…٭٭