عادی مجرم
شیئر کریں
نہال ہاشمی نے وہ کہہ دیا جو کہنا تو کوئی اور چاہتا تھا لیکن اس کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے تو معافی تلافی اور پارٹی ڈسپلن کی کارروائیوں کا ڈرامہ کس طرح سے چلتا ،یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلم لیگ کے مرکزی رہنماؤں نے قومی اداروں کو اس طرح سے للکارا ہو، ماضی قریب میں دیکھیں تو ڈان لیکس سے لیکر بی بی سی انٹرویو تک ہر چیز ایک اسکرپٹ کا حصہ نظر آتی ہے کہ اداروں کو اتنا زچ کردیا جائے کہ وہ کارروائی کرگزریں اور یوں حکمران اپنی نااہلی کو سیاسی شہادت میں بدل سکیں، لیکن اس وقت معاملات جن ہاتھوں میں ہیں وہ جذباتی نہیں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے والے ہیں ۔
نہال ہاشمی نہ جانے کس بھرے میں تھے کہ انہوں نے شہنشاہ معظم کے فرزند ارجمند ولی عہد مملکت میاں برادران حسین نواز کو سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کر دہ جے آئی ٹی میں طلب کیے جانے اور انتظار کرائے جانے پر لفظی انگارے برسا دیے۔ مسلم لیگ کے یہ متوالے میاں برادران کو خلیفہ وقت اور شہنشاہ معظم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو احتساب سے بالاتر ہو لیکن اس کے ساتھ دعویٰ یہ ہے کہ یہ اسلامی نظام کے سب سے بڑے پیروکار ہیں اسلام انصاف کا درس دیتا ہے اور اسلامی تاریخ انصاف اور عدلیہ (قاضی وقت )کی حکمرانوں کے خلاف کارروائیوں کے لاتعداد سنہری واقعات سے سجی ہوئی ہے۔ میں کون کون سے حوالے دو ںکہ احتساب بالا ذمہ داران سے ہی شروع ہوتا ہے عربی کی ایک کہاوت ہے کہ” مچھلی سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے“ یہ کہاوت بہت واضح پیغام لیے ہوئے ہے کہ برائی اور بدکاری حکمران طبقہ میں پروان چڑھ جائے تو عوام کو اس سے روکنا ممکن نہیں ہوتا کرپشن وہ برائی اور بدکاری ہے کہ جو تمام برائیوں سے اور بدکاریوں سے بڑھ کر ہے کہ ناجائز پیسہ اور اختیارات کا ناجائز استعمال انسان کو فرعون بھی بناتا ہے شداد اور نمرود بھی اور بالآخر شیطان بنا کر ہی دم لیتا ہے ۔
تاریخ اسلام کا ذکر ہو اور حضرت عمرفاروقؓ کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں، بہت سارے ادارے جو آج عوامی خدمت کے مرکز بنے ہوئے ہیں وہ حضرت عمرفاروقؓ کے دور ہی میں وجود میں آئے، حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں انصاف کا یہ عالم تھا کہ جس کے نتیجہ میں انسانوں میں ہی نہیں حیوانوں پر بھی خوف طاری تھا کہ ظلم کیا تو کڑی سزا مقدر ہو گی یوں شیراور بکری ایک ہی وقت میں ایک ہی گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے اور شیر میں ہمت نہ تھی کہ وہ بکری کی طرف نظر اُٹھا کر بھی دیکھ لے۔نبی کریم ﷺ کے دور میں جب کہ ابھی ریاست مدینہ کو قائم ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا اور غزوہ بدر کے زخم بھی ہرے تھے بڑا نازک وقت تھا کہ ایک بڑے قبیلہ ،جو چند دن قبل ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا، کے سردار کی بیٹی چوری کے الزام میں گرفتار ہو کر آپ ﷺ کے حضور پیش کی گئی، آپ ﷺ نے حکم ربانی کے مطابق ہاتھ کاٹنے کی سزا کا حکم جاری کیا۔ صحابہ میں سے چند نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اگر یہ حد نافذ کر دی گئی تو ممکن ہے کہ یہ قبیلہ اُلٹے پیروں پھر کر کفار مکہ کا ساتھی نہ بن جائے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پچھلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ انہوں نے انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تھا اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی اس الزام میں گرفتار کر کے لائی جاتی تو اس کے لیے بھی حکم ربانی کے مطابق یہ سزا تجویز کی جاتی ۔یہ تو اسلام کے قرون اولیٰ کے واقعات ہیں جنہیں ہم صحبت نبوی کا اثر قرار دے کر اور اپنے دور کا موازنہ کر کے درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن چند سوسال پہلے کے ہندوستان پر نظر ڈالی جائے تو شہزادہ سلیم نورالدین جہانگیر مغل شہنشاہ کے طور پر تخت دہلی کے والی وارث تھے اور نورجہاں شہنشاہ وقت کی محبوب ترین ملکہ ،نور جہاں کو تیر زنی کا شوق تھا اور نشانہ بھی غضب کا تھا ملکہ عالیہ محل کی فصیل سے تیر زنی کر رہی تھیں کہ ایک راہ گیر تیر کا نشانہ بنا اور جان کی بازی ہار گیا۔ معاملہ قاضی وقت کی عدالت میں پیش ہوا اور مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات ہوئے، مدعی کی جانب سے کیا گیا دعویٰ سچ ثابت ہوا اور قاضی وقت نے فیصلہ سنا دیا کہ شریعت میں خون کا بدلہ خون ہے، یوں نورجہاں کو بھی جان کی بازی ہارنا ہو گی ،یہ درست ہے کہ شریعت میں خون کا بدلہ خون ہے لیکن دیت بھی اسلامی شریعت میں ہے جس کے تحت مقتول کے ورثاءرقم لیکر معاف کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جبر کی اجازت نہیں ہے۔ سلیم نور الدین جہانگیر شہنشاہ وقت تھا اور اس کی ہر دلعزیز ملکہ کا قصاص واجب ہو چکا تھا، شہنشاہ سلیم مقتول کے ورثاءکے پاس سوالی بن کر گیا ،کوئی شہنشاہی کروفر نہیں ،تہی دامن اپنی ملکہ کی جان بخشی کا طلبگار۔ مقتول کے ورثاءکو عجز وانکساری کے ساتھ دیت لینے پر آمادہ کیا یہ دھمکی نہیں تھی کہ جانتے نہیں ہو وہ میری ملکہ ہے بلکہ شرعی احکامات کی بالادستی تھی اب اگرورثاءمان جاتے ہیں تو ملکہ کی جان بخشی ہوتی ہے ورنہ قصاص میں گردن تو اڑائی ہی جانی ہے ۔ شہنشاہ کی آہ وزاری دیکھ کر مقتول کے ورثاءنے قتل معاف کیا یوں ملکہ وقت کی جان بخشی ہوئی ورنہ !
نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا یہ تو کہا بھی جانا تھا کہ آخر حسین نواز کے بعد حسن نواز کو بھی طلب کر لیا گیا ہے اور خدشہ موجود ہے کہ نواز شریف بھی طلب نہ کر لیے جائیں تو ایسے میں پیش بندی ضروری تھی یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلم لیگ کے کسی سینیٹر نے یہ انداز اختیار کیا ہو اس سے قبل بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے مشاہد اللہ خان بھی اداروں کے خلاف وہ زبان استعمال کر چکے ہیں کہ جو ان اداروں کے بدترین دشمن بھی استعمال نہ کرسکیں لیکن کیا ہوا مشاہد اللہ خان کو وزارت سے فارغ کیا گیا کہ یہ وقت کی ضرورت تھی لیکن مشاہد اللہ آج بھی وزیراعظم کی آنکھ کا تارا ہے ۔ڈان لیکس کا معاملہ ہوا تو سینیٹر پرویز رشید قربانی کا بکرا بنے اب یہ قربانی جن کے حضور پیش کی گئی ہے انہیں قبول ہے یا نہیں اس کا اظہار تو ایک ٹوئیٹ میں ہوچکا اگرچہ یہ ٹوئیٹ واپس لے لی گئی لیکن کہتے ہیں کہ چلا ہوا تیر اور بولا ہوا جملہ واپس نہیں ہوا کرتے ۔
تین سال پہلے بھی اسی قسم کا واقعہ ہوا تھا جب کراچی میں ایک ” سینئر صحافی“ نامعلوم ملزمان کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے اور زخمی اسپتال بعد میں پہنچا تھا یہ موصوف جس چینل سے وابستہ تھے اس نے ملک کی سلامتی کے سب سے اہم ادارے کے سربراہ کو اپنے نشانے پر لے لیا تھا بغیر کسی ثبوت اور دلائل کے پانچ گھنٹہ سے زیادہ تک باریش جنرل ظہیراسلام کو ملزم نہیں مجرم بنا کر پیش کیا جاتا رہا لیکن جب ایف آئی آر درج کرائی گئی تو اس بہت بڑے چینل کے فرعون صفت مالکان ملزمان کا نام لینے سے گریزاں تھے کہ وہ اپنا چینل تھا جو منہ میں آیا بول دیا ایف آئی آر عدالتی کارروائی کا حصہ بنتی ہے اور عدالت میں لگائے گئے الزام کو ثابت کرنا بھی الزام عائد کرنے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے، ثبوت تو کچھ تھا نہیں کہ ایف آئی آر میں نام لکھواتے لیکن چینل پر کارروائی چلا کر سرحد پار امن کی آشا کے دوستوں کو پیغام دیدیا گیا کہ ہم اس ملک کی سلامتی کے اہم ترین ادارے کی عزت اور وقار کو مٹی میں ملانے کے لیے تیار ہیں جب اس معاملے میں وزیردفاع خواجہ آصف سے پوچھا گیا تو انہیں اداروں کا وقار یاد نہ تھا نہ ہی سائبر کرائم کا کوئی قانون بنا تھا، خواجہ آصف نے فرمایا تھا کہ ہم غلیل نہیں دلیل والوں کے ساتھ ہیں سب جانتے ہیں کہ غلیل اور دلیل کیا ہے ۔
20 سال سے پہلے کی بات ہے سپریم کورٹ میں سروسز میں سینیارٹی کا کیس زیرسماعت تھا کوئٹہ کے ایک غیر متعلقہ شخص نے بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست داخل کی تھی کہ جسٹس سید سجاد علی شاہ کا بطور چیف جسٹس تقرر سینیارٹی کے اُصولوں کے خلاف ہے، سول سروسز کا معاملہ ہو تو اس قسم کے سینیارٹی کے کیسز میں صرف وہ فرد فریق بن سکتا ہے جس کی سینیارٹی یا حق متاثر ہوا ہو، موصوف نہ تو عدلیہ کے رکن تھے نہ ہی وکیل کہ آئین کے تحت براہ راست سپریم کورٹ کے جج بن سکیں ۔بلوچستان ہائی کورٹ نے یہ اپیل مسترد کی تو موصوف سپریم کورٹ جاپہنچے اب کس کی آشیرباد ان صاحب کو حاصل تھی یہ کوئی معمہ نہیں ہے سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت جاری تھی اور چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے فیصلہ بھی دیدیا تھا کہ سینیارٹی کا اُصول مقدم رکھا جائے یوں انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا تھا، لیکن انہوں نے عہدے پر اُصول کو ترجیح دی اور فیصلہ لکھ دیا، اب مرحلہ صرف اتنا سا باقی تھا کہ وزیراعظم کے دست بستہ حاضر رہنے والے رفیق احمد تارڑ بطور صدر مملکت نئے چیف جسٹس کے تقرر کا فیصلہ کریں اور اس سے حلف لیں لیکن مسلم لیگی متوالوں کو یہ مختصر وقفہ بھی قابل برداشت نہیں تھا اور اختر رسول چوہدری اور طارق عزیز کی سربراہی میں متوالے سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے، دیواریں پھاندیں، دروازے توڑے ا ور محترم چیف جسٹس کے نام کی تختی کو اکھاڑ کر جوتے کی نوک پر لیا۔ یوں ایک باوقار ادارے کے سربراہ نہیں پورے ادارے کی تذلیل کی گئی اس کیس کے ملزمان کہا ں ہیں انہیں کیا سزائیں ملیں اور پارٹی نے انہیں کس طرح سے نوازا یہ کھلی کتاب کی طرح عیاں ہیں ۔
مسلم لیگ کی تاریخ ہے کہ یہ جب بھی اقتدار میں رہی ہے اداروں سے بگاڑ کر ہی رکھی ہے اور یہ صرف مسلم لیگ (ن) کا طرہ امتیاز نہیں مسلم لیگ کی ہی جنس اور نسل کی یہی پہچان ہے۔لیاقت علی خان کی شہادت تک تو معاملات جیسے چلے وہ سب کو معلوم ہے لیکن لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے ایوب خان کے مارشل لاءتک کیا ہوا یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں، پھر ایوب خان ،یحیٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاءالحق کے ادوار کے بعد جب 1985 میں” مسلم لیگ “ کو اقتدار ملا تو اداروں سے نبردآزمائی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ،اداروں کی واضح ہدایت کے باوجود محمد خان جونیجو کے وزیرخارجہ زین نورانی نے افغانستان کے معاملے پر جنیوا معاہدہ کر کے اداروں سے ٹکراو¿ کا ایک عمل شروع کیا جس کا نتیجہ محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کی صورت میں سامنے آیا ۔ضیاءالحق نواز شریف پر خاص مہربان تھے یوں انہیں حکومتوں کی برطرفی کے باوجود پنجاب کا نگراں وزیراعلیٰ بنوایا۔ 1990ءمیں جب میاں محمد نواز شریف پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تو اداروں سے تصادم کی پالیسی کا تسلسل جاری رہا۔ غلام اسحق خان سینئر بیوروکریٹ تھے جو پٹواری سے صدر مملکت تک کے منصب پر پہنچے تھے، یوںٹھنڈا کر کے کھاناجانتے تھے لیکن 1993ءمیںان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوا اور وہی کاکڑ فارمولا معرض وجود میں آیا۔ اسی طرح 1998ءاور 1999ءمیں نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف سے تصادم کی راہ اختیار کی تھی جس کا نتیجہ 12 اکتوبر 1999ءکے مشرف ” انقلاب“ کی صورت میں سامنے آیا تھا اور میاں صاحب کو سیاسی شہادت نصیب ہو گئی تھی لیکن اب کمان ایک خاندانی جنرل کے ہاتھ میں ہے یوں سیاسی شہادت کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ میاں صاحب جوں توں کر کے اپنا وقت پورا کرلیں، یہ ان کے لیے بہتر ہے ورنہ اس دفعہ سعودیہ میں بھی جو عزت انہیں مل چکی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ اب شاہ خالد نہیں شاہ سلمان کا دور ہے اور شاہ سلمان انہیں شاہی مہمان بنانے پر آمادہ نہ ہونگے ،اگرشاہ سلمان مہربان ہوتے تو اسلامی سربراہی کانفرنس میں چند جملوں کی تقریر تو کراد یتے ۔بہتر ہے کہ میاں صاحب اب بھی عقل کے ناخن لیں اور اداروں سے ٹکراو¿ کے بجائے اپنی باقی مدت پوری کریں۔
٭٭….٭٭