بے وقعت زمین
شیئر کریں
دنیا کی دستیاب تاریخ میں فساد کی جڑ تین چیزیں رہی ہیں زن،زمین اور زر ۔نوع انسانی میں پہلا قتل زن کی خواہش پر ہوا، زمین اور زر کے جان کی بازی لینے اور ہارنے والوں کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں ۔
زمین انسان کی وہ ضرورت ہے جو کہ حیات میںبھی ضروری ہے اور موت کے بعد بھی۔ اب انسا ن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو،موت کے بعد بھی زمین کی ضرورت رہتی ہے وہ چاہے قبر کی صورت میں ہو یا شمشان گھاٹ اور سمادھی ۔مسلمان،عیسائی،یہودی سمیت دنیا کے اکثر مذاہب میں موت کے بعد انسان کی تدفین کی جاتی ہے اور ہندو مت میں موت کے بعد انسان کو جلا دیا جاتا ہے جس مقام پر تدفین ہوتی ہے اسے قبرستان کہتے ہیں اور جہاں انسانی جسم کو آگ لگائی جائے وہ شمشان گھاٹ کہلاتا ہے۔ قبرستان میں زمین ایک عرصہ کے لیے استعمال ہوتی ہے یوں اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے، شمشان گھاٹ میں اگرچہ وقتی استعمال ہوتا ہے لیکن اسے استعمال کا بھی کرایہ وصول کیا جاتا ہے ۔راقم کا تعلق بھی نسل انسانی ہے جس کے رشتہ دار بھی ہیں اور موت انسانی زندگی کی وہ حقیقت ہے کہ جس سے انسان فرار کی کوشش تو کرتا ہے لیکن فرار ممکن نہیں ہوتا، فرشتہ¿ اجل نے جب ،جہاں اور جیسے پکڑنا ہوتا ہے فطرت اس کا انتظام کردیتی ہے، معروف حکایت ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کے دور میں آپ کے دربار میں ایک شخص بیٹھا تھا ایک نووارد داخل ہوا اس نے اس شخص کی طرف غور سے دیکھا جس سے اس شخص پر ایک خوف طاری ہو گیا۔ حضرت سلیمان ؑ تو وقت کے نبی تھے نووارد کو جانتے تھے کہ وہ انسانی شکل میں کون ہے لیکن وہ شخص نہیں جانتا تھا، اس شخص نے حضرت سلیمان ؑ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی آپ کو تو دنیا کی ہر مخلوق پرغلبہ حاصل ہے اس شخص سے مجھ کو خوف آتا ہے، کچھ ایسا انتظام کیجیے کہ میں طویل فاصلہ پر موجود شہر میں فی الفور پہنچ جاو¿ ں، حضرت سلیمانؑ نے جنات میں سے ایک جن کو حکم دیا کہ اس شخص کو اس شہر میں پہنچا دیا جائے جن نے حکم کی تعمیل کی اور چشم زدن میں وہ شخص اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گیا۔ وہ پہنچا تو دیکھا کہ وہی شخص موجود ہے جن نے بھی اس شخص کو دیکھ لیا تھا اور کیونکہ وہ جن اس وقت بھی جب کہ وہ نووارد حضرت سلیمانؑ کے دربار میں حاضر ہوا تھا آپ کے دربار میں موجود تھا جب جن نے اس نووارد کو وہاں دیکھا تو صورتحال کو سمجھ گیا لیکن بیشتر اس کے،کہ جن اس نووارد کی حقیقت سے اس شکل کو آگاہ کرتا اس شخص کی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی جن حضرت سلیمان ؑ کے دربار میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ بیان کیا ۔حضرت سلیمانؑ نے جن سے کہا کہ میں بھی حیران ہوا تھا اور فرشتہ اجل بھی حیران تھا کہ اس شخص کی تو کچھ لمحہ بعد میں نے سینکڑوں میل دورروح قبض کرنی ہے لیکن یہ یہاں موجود ہے ، لیکن موت کا وقت اور مقام معین ہے یوں اس شخص نے اس مقام کی خواہش کا اظہار کیا اور وہاں پہنچ گیا ۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
قبرستان کی زمین کی فروخت کوئی انہونی بات نہیں ہے راقم کے ایک چچا لاہور میں رہا کرتے تھے ان کا انتقال تقریباً 15 سال قبل ہوا اور ایک متوسط طبقہ کی آبادی کے قبرستان میں دفن کیے گئے، راقم بھی تدفین میں شریک ہوا تھا اور اس کے سامنے اس متوسط طبقہ کی آبادی کے قبرستان نے قبر اور اس کے لوازمات کی مد میں ادائیگی پانچ ہندسوں میں تھی قبر کے لیے جو زمین درکار ہوتی ہے اس کے لیے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے بہت گہری بات کہی ہے ۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
مطلب یہی ہے کہ دو گز زمین یا کچھ اس سے زیادہ ایک قبر کے لیے درکار ہوتی ہے اور اس کی قیمت 2003 – 2004 ءمیں بھی دس ہزار روپے سے زائد تھی چلیں اس نے لوازمات بھی شامل تھے لیکن پھر بھی یہ قیمت 80 روپے مرلہ سے تو بہت زیادہ بنتی ہے کہ ایک مرلہ میں کم وبیش 30 قبریں بنتی ہیں اگر دس ہزار میں سے بھی لوازمات کی قیمت آٹھ ہزار بھی لگا لی جائے تو بھی زمین کی قیمت دو ہزار روپے سے کم نہ تھی اب ایک مرلہ میں جب 30 قبریں بن سکتی ہیں تو گویا قبرستان میں بھی زمین 60 ہزار روپے مرلہ قیمت پاتی ہے ۔
میاں صاحب کی جاتی امراءکی جاگیریں اور محلات ہزاروں مرلہ پر مشتمل ہیں جن کی زمین کی قیمت 80 روپے مرلہ ظاہر کی گئی ہے جب کہ جاتی امراءتو ایک پرفضاءمقام ہے جہاں کے گردونواح میں زمین کی قیمت 80 ہزار سے ایک لاکھ روپے مرلہ ہے اور وہ زمین بھی اتنی مرکزی اہمیت کی حامل نہیں ہے جس قدر کہ میاں صاحب کی جاگیریں اور محلات ۔میاں صاحب نے یہ زمینیں کون سی ڈیل کے نتیجہ میں خریدیں کہ 80 ہزار روپے مرلہ والی زمین 80 روپے میں مل گئی ۔
٭٭….٭٭