
غزہ فلسطینیوں کا قبرستان ۔۔۔
شیئر کریں
جاوید محمود
۔۔۔۔۔
امریکہ سے
غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینی بچوں کو غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے ۔ہر روز درجنوں کی تعداد میں بچے سسک سسک کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کیونکہ اسرائیل کی جانب سے محصور اور بمباری کے شکار ساحلی علاقے میں خوراک پانی اور دیگر اہم سامان کی مسلسل ناکہ بندی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے ادارے یونیسف کے مطابق سال کے آغاز سے اب تک 9ہزارسے زیادہ بچوں کو شدید غذائی قلت کے علاج کے لیے داخل کیا گیا ہے۔ ریڈ کراس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی ناکہ بندی کے درمیان غزہ کی امدادی کوششیں تباہی کے دہانے پر ہیں لیکن مارچ کے اوائل میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی انکلیو کی مکمل علاقہ بندی کے بعد سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے ۔یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین کے مطابق دو ماہ سے غزہ کی پٹی میں بچوں کو ضروری سامان خدمات اور زندگی بچانے والی دیکھ بھال سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ مسلسل بمباری کا سامنا ہے۔ امدادی ناکہ بندی کے ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ بھوک بیماری اور موت کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں ۔کوئی بھی اس کا جواب پیش نہیں کر سکتا۔
اسرائیل نے دو مارچ سے تمام انسانی امداد کو غزہ میں فلسطینیوں تک پہنچنے سے روک دیا ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق محاصرے کے دوران اس کی خوراک کی سپلائی ختم ہو گئی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ کمیونٹی کچن جن پر ہزاروں فلسطینی انحصار کرتے ہیں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ہم یہ نہیں پوچھتے کہ کھانا غذائیت سے بھرپورہے یا نہیں۔ اگر یہ تازہ ہے یا اچھا یہ ایک عیش و آرام کی چیز ہے۔ ہم صرف اپنے بچوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں۔ ایک بے گھرفلسطینی والدین نے حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بحران کے بارے میں آگاہ کیا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا بچہ بھوکا مرے ۔اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی ناکہ بندی کا مقصد فلسطینی گروپ حماس پرغزہ میں قید قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔ لیکن اس سے اس سال کے شروع میں ہونے والی عارضی جنگ بندی کے بعد سے مزید کوئی رہائی نہیں ہوئی ہے۔ جس میں فلسطینی قیدیوں کا اسرائیلی اسیروں سے تبادلہ ہوا ہے۔ حماس نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جان بوجھ کر جنگ کے ہتھیار کے طور پر بھوک کو استعمال کر رہا ہے ۔بچے دودھ کی کمی سے مر رہے ہیں ۔نہ صرف بموں سے قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے گروپوں نے نوٹ کیا ہے کہ ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کے بین الاقوامی قانون کے تحت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو خوراک اور دیگر امداد فراہم کرے۔ انہوں نے ناکہ بندی کو چوتھے جنیوا کنونشن کے خلاف ورزی قرار دیا۔ بھوک پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے اینٹی گریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیس کلاسی فکیشن سسٹم کے مطابق ہر عمر کے لاکھوں فلسطینی غزہ میں خوراک کے عدم تحفظ کی اعلیٰ سطح کا سامنا کر رہے ہیں۔ صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے کیونکہ صحت کی سہولیات میں غذائی قلت کے شکار بچوں کے علاج کے لیے درکار سامان کی کمی ہے۔ ہمارے پاس ان بچوں کے لیے کھانے کا کوئی سامان یا اضافی مواد یا ادوایات نہیں ہیں۔ اس بات کا بہت زیادہ خدشہ ہے کہ ہم آنے والے چند دنوں میں مزید ہلاکتوں کا مشاہدہ کریں گے۔ ماہرین کے مطابق بچے اپنی نشوونما کے مرحلے میں ہیں اور انہیں پروٹین اور چکنائی سمیت بعض غذائی اجزاء کی سخت ضرورت ہے۔ یہ غزہ کی پٹی میں خاص طور پر شمال میں دستیاب نہیں ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2023میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ بندی ہونے کے بعد سے اب تک 52,400سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں ۔برطانیہ کے ایک صحافی نے ایک انٹرویو کے درمیان بتایا کہ جنگ کی بربریت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہلاک ہونے والوں کے ٹکڑے، مرنے والے ،فاقہ کرنے والے ، یہ وہ مناظر ہیں جو غزہ کی پٹی میں میرے ساتھیوں کو دن بدن بڑھتی تعداد میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے میں اپنی نظر ہٹانے کا خیال قوی ہوتا ہے لیکن کام کرنے والے کیمرہ میں مین اپنا منہ نہیں موڑ سکتے اور خود اس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں کام کرنے والے ہمارے ساتھیوں کی حفاظت کی وجہ سے ہم ان کے نام ظاہر نہیں کر سکتے ۔ہمارے کیمرہ مین زیادہ زخمی نہیں ہوئے لیکن ایسا صرف قسمت کی وجہ سے ہوا ۔خان یونس میں یورپی ہسپتال کی پارکنگ پر اسرائیلی بمباری میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق مسلسل تشدد کا سامنا کرنے کی وجہ سے یہاں بچوں کی ایک پوری نسل آباد ہے، جسے طویل المدتی نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے لیکن انہیں کسی قسم کی مدد حاصل نہیں ۔یہاں کی آبادی خصوصا ًنوجوانوں میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ذہنی صحت سے جڑے مسائل بشمول ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے غزہ کی پٹی میں بمباری کا آغاز کیا تو اس کے ساتھ ہی وہ نازک امن معاہدہ بھی تباہ ہو گیا جو جنوری میں شروع ہوا تھا ۔اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اس بمباری کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے مسلسل انکار سمیت امریکی تجویز کو مسترد کرنے کے بعد فوج کو سخت ایکشن کی تاکید کر دی گئی ہے جبکہ حماس کی جانب سے دوبارہ منظم ہونے کی کوششوں میں اضافے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک 400سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت ہو چکی ہے ۔جنگ بندی معاہدے کے باوجود حملوں سے قبل بھی اسرائیل 140افراد کو ہلاک کر چکا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ۔آخرنتن یاہو کی جانب سے حملوں کی ابتدا کیوں کی گئی؟ اسرائیل میں لاپتا افراد اوریرغمالیوں کے فورم نے حکومت پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایسے معاہدے کو توڑا گیا جس کے تحت سب واپس آ سکتے تھے۔ وزیراعظم نتن یاہوکے ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ حملے قانون اور سیاسی مشکلات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے ۔المیہ یہ ہے کہ غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں کو بے دردی سے مار دیا گیا جس میں معصوم عورتیں بچے بوڑھے سب شامل ہیں اور یہ سب کچھ عرب ممالک کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور ان کی جانب سے اُف تک نہیں ہوئی اور غزہ فلسطینیوں کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔