کلبھوشن یادیو کیس.... بھارت کا احمقانہ اقدام
شیئر کریں
بھارت نے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کو ختم کروانے کے لےے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے میں جس جلد بازی ، سرعت اندازی اور احمقانہ پن کا مظاہرہ کیا ہے اسے دیکھ کر جانے کیوں بے اختیار ہنسی آتی ہے ۔ بھارت اپنا ایک در بند کروانے عالمی عدالت انصاف میں کیا گیا ، پیچھے پاکستان کے لےے ہزاروں در کھول گیا ۔ اب پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ بھی مسئلہ کشمیر سمیت دیگر جملہ پاک بھارت تنازعات کو عالمی عدالت اور دیگر فورمز پر ضرور اُٹھائے ۔
گزشتہ دنوں گھر کے بھیدی بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مار کنڈے کانجو نے بھی لنکا ڈھاتے ہوئے اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ : ”مودی حکومت نے کلبھوشن یادیو کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میںلے جاکر تاریخ کی سنگین ترین غلطی کی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی طرف سے عالمی سطح کے فورم پر لے جانے کا دروازہ کھول دیا ہے ۔“ اسی طرح بھارتی جج کا یہ کہنا بھی بالکل برمحل ہے کہ : ”بھارت نے ایک جاسوس کی جان بچانے کے لےے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کیا کھٹکھٹایا گویاپاکستان کے لےے کئی دروازے کھول دیے ۔“
ہمارا خیال ہے کہ حکومت پاکستان اور ملک کا مقتدر طبقہ اب اس سنہری موقع کو کسی بھی صورت ہاتھ سے نہ جانے دے ، بلکہ اسے غنیمت سمجھے اور بھارتی احمقانہ اقدام کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور بھارت کو اُس کی تاریخی بے وقوفی غلطی کی اوقات یاد دلائے ، کیوں کہ ایسے مواقع روز روز ہاتھ نہیں آتے بلکہ کبھی کبھی ہاتھ لگتے ہیں اور ایسے چانس خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ، لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے ، باشندگانِ کشمیر کی زندگیوں سے کھیلنے ، اُن پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے ، اُن کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے ، افضل گورو اور اجمل قصاب جیسے بے گناہ لوگوں کی پھانسیوں کا حساب بے باک کرنے ،پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے ، اُس کی سرحدوں پر گھناو¿نا کھیل کھیلنے اور آبی جارحیت سمیت دیگر پاک بھارت متنازع فیہ تمام مسائل کی ایک ایسی مبنی برحقائق اور مضبوط کیس فائل تیار کریں کہ جس کے روئے روئے سے بھارت کی دُشمنی ، اُس کی منافقت اور اُس کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہو، تاکہ مکار بھارت کا مکروہ اور مذموم چہرہ تمام دُنیا کے سامنے بے نقاب ہوجائے ۔
علاوہ ازیں پاکستان کو چاہیے کہ وہ پاک بھارت جملہ متنازع فیہ مسائل کو پوری شد و مد اور پوری طاقت و قوت کے ساتھ عالمی عدالت انصاف سمیت دیگر تمام فورمز پر اُٹھائے اور بھارت کی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں، خطے میں فساد اور بد امنی پھیلانے کے مذموم عزائم اور مقبوضہ جموں و کشمیر پر تقریباً پون صدی تک غاصبانہ قبضہ جمانے کے ثبوت پیش کرکے عالمی سطح پر بھارت کو ایک دہشت گرد ، ایک فسادی ، ایک بد امن اور ایک ظالم اور غاصب ملک قرار دلوانے کے لیے اپنا مقدمہ پیش کرے۔
لیکن دوسری طرف آپ کو یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اگر پاکستان عالمی عدالت میں جانے سے پس و پیش کرتا ہے یا صاف انکار کرتا ہے تو اس صورت میں نہ صرف یہ کہ پاکستان کے ہاتھ سے یہ سنہری اور غنیمت کا موقع نکل جائے گا بلکہ کلبھوشن یادیو کے کیس کا فیصلہ بھی خاصا کمزور پڑجائے گا ، ویسے بھی اس سے پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان تین متنازع فیہ معاملات ( مسئلہ کشمیر ، کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پانی کے مسئلہ ) پر عالمی عدالت انصاف نے بھارت ہی کے حق میں فیصلہ دیا ہے ، لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ بہر صورت پاک بھارت متنازع فیہ جملہ اُمور کو عالمی عدالت انصاف سمیت دیگر مختلف فورمز پر بھی لازمی اُٹھائے ، کیوں کہ پاکستان کا کیس اس وقت الحمد للہ! اچھا خاصا مضبوط اور دلائل و براہین سے خوب اچھی طرح معمور ہے ۔ اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو کامیابی عطا فرمائے گا۔
بہر حال کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے لے کر اُسے سزائے موت ملنے تک اور اُس کی سزائے موت کے خلاف بھارت کے عالمی عدالت انصاف میںاپیل دائر کروانے اور عالمی عدالت انصاف کی طرف سے اس بارے میں عبوری حکم کے اجراءسے اب تک یہ معاملہ پاکستانی سیاسی اور عوامی حلقوںمیں بحث و تمحیص کا مرکز بنا ہوا ہے اور حکومت کے موجودہ طرزِ عمل میں عوام و خواص میں چہ می گوئیاں جنم لے رہی ہیں اور عوام اس حوالے سے خاصی تشویش وتذبذب کا شکار ہیں ، لیکن اس بارے میں آئینی ماہرین نے یہ کہا ہے کہ ایک تو عالمی عدالت انصاف کا یہ عبوری فیصلہ قطعی طور پر بھارت کے حق میں نہیں جاسکتا اور دوسرے یہ کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ حکم کی حیثیت نہیں رکھتا ، بلکہ ایڈوائزری کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ماننا کوئی ضروری نہیں ہوتا ۔ چنانچہ ”لاگر ان میڈیسن “ کیس اس کی واضح مثال موجود ہے کہ مجرم کو سزائے موت سنائی گئی اورعالمی عدالت انصاف نے اسے روکنے کا حکم بھی دیا لیکن پھر بھی مجرم کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا ۔
تاہم اس تلخ حقیقت سے بھی کسی طرح انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں مختلف جرائم میں ملوث بھارتی و امریکی جاسوسوں کو پکڑ لینے کے بعد اُن کو اُن کے جرائم کی سزائیں سنائے جانے کے باوجود جس طرح رات کے اندھیروں میں ان کو اپنے اپنے ملک روانہ کیا گیا اُس سے ہماری پاکستانی قوم یقیناً خوب اچھی طرح سے باخبر ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے وہ اس بار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہوئے عوام کے جملہ خدشات و غلط خیالات کو دور کرکے انہیں عدل و انصاف کا منظر دکھانے اور بھارت و امریکا سمیت تمام پاکستان دُشمن ممالک کی آرزوو¿ں کو خاک میں ملانے کا بھارت کے احمقانہ اقدام کے مقابلہ میں تاریخی اور عقل مندانہ اقدام سرانجام دے۔
الغرض کلبھوشن یادیو کیس میں پاکستان اپنے مو¿قف اور دلائل کے اعتبار سے خاصا مضبوط اور مستحکم ہے اور پاکستان کے پاس ایسے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے عالمی عدالت انصاف ایڈوائزری فیصلہ بھی کلبھوشن یادیو کے خلاف نہیں دے سکتی ، چہ جائے کہ وہ بھارت اور امریکا کی دلی خواہش کے عین مطابق کلبھوشن یادیو کو اس کیس سے بالکل ہی بری¿ الذمہ کردے ۔
باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کلبھوشن یادیو کو کیس کے حتمی فیصلے تک سزائے موت نہیں دے سکتا تو یاد رہے کہ یہ حکم نہیں محض ایڈوائس ہے جس پر عمل کرنے کا پاکستان کسی بھی صورت پابند نہیں ، تاہم پاکستان اس ایڈوائس کا احترام ضرور کرے گا ، لیکن بایں ہمہ ایڈوائس کے اس احترام کرنے کو پاکستان کی کمزوری یا بزدلی کا سبب قرار دینا ایک بہت بڑی حماقت ہوگی۔
٭٭….٭٭