میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تہور رانا کی حوالگی:سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب

تہور رانا کی حوالگی:سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۰ اپریل ۲۰۲۵

شیئر کریں

افتخار گیلانی

 

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائے گا۔کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائے گا۔حال ہی میں نومبر 2008کے ممبئی حملوں میں ملوث پاکستانی نژاد کینیڈا کے شہری تہور حسین رانا کی امریکہ سے ہندوستان حوالگی ایک بڑی سفارتی کامیابی گر دانی جار ہی ہے ۔ مگر بڑا سوال ہے کہ کیا اس حوالگی سے ممبئی حملوں کی پلاننگ وغیر کے حوالے سے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے میں مدد ملے گی؟عوامی یاداشت انتہائی کمزور ہوتی ہے ۔ اگر یہ کمزور نہ ہوتی، تو یقیناًسوال پوچھا جاتا کہ 25جون 2012 کی اسی طرح ہندوستانی ایجنسیوں نے ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو سعودی عرب سے لانے میں جب کامیابی حاصل کی تھی، تو ان تیرہ برسوں میں کیس میں کس قدر پیش رفت ہوئی ہے ؟اس وقت بھی بالکل اسی طرح کا ڈھونڈورا پیٹا گیا تھا کہ اب ممبئی حملوں کی پوری سازش بے نقاب ہو جائے گی۔ 2008 سے ہی بتایا جاتا تھا کہ مہاراشٹر کے بیہڑ ضلع کے رہائشی انصاری ہی حملوں کے وقت کراچی میں قائم کنٹرول روم سے حملہ آوروں کو گائیڈ کر رہا تھا۔مگر 2016میں عدالت نے اس کو 2006 میں اورنگ آباد کے اسلحہ برآمدگی کیس میں سزا سنائی۔ ممبئی حملوں کے سلسلے میں اس کی ٹرائل کی اب خبر بھی نہیں آرہی ہے ۔
ہندوستان کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ اس لحاظ سے منفردتھاکہ اس سے دو ماہ قبل ہی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں میرٹ ہوٹل پر خود کش ٹرک حملہ میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوچکے تھے ، جن میں تین امریکی شہری بھی شامل تھے ۔اس کے علاوہ امریکی سی آئی اے اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں جیسے انٹلی جنس بیورو، ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ(را)سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی ا ن حملوں کی پیشگی اطلاع تھی۔دو برطانوی صحافیوں اڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک کی تحقیق پر مبنی کتاب دی سیج کے مطابق، اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں چھبیس اطلاعات ان اداروں کوموصول ہوئیں جن میں ان حملوں کی پیشن گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے ۔
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی2006ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں اوربعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پرکیے گئے حملوں کے بعدپاکستان اورہندوستان باہمی تعلقات معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے ۔جس وقت ممبئی میں حملہ ہوا عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اپنے ہندوستانی ہم منصب پرنب مکھرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں محوگفتگو تھے اور ہندوستانی سکریٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے ۔خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست2008 ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی معلومات درج تھیں۔ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات بھی موجود تھیں جن میں حملے کے لیے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔
اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے ۔اس دوران تاج ہوٹل کی انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دیں۔ بتایا گیا کہ حفاظت پر مامور حفاظتی اہلکار دوران ڈیوٹی ہوٹل کے کچن سے کھانا مانگ رہے ہیں۔اس کتاب میں حملے کے محرک پاکستانی نژاد امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے کردار اور پس منظر پر خاصی روشنی ڈالی گئی ہے ۔اس کے مطابق ہیڈلی دراصل امریکی انسداد منشیات ایجنسی اور سی آئی اے کے مخبر کے طور پر کام کرتاتھا۔ ڈرگ انفورسمنٹ کے لیے اطلاعات فراہم کرنے اور ہیروئن حاصل کرنے کے لیے ہیڈلی نے جب 2006 ء میں افغانستان سے متصل سرحدی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا تھا۔امریکہ کو اندیشہ تھا کہ القاعدہ کے جنگجو لشکر کی صفوں میں داخل ہوگئے ہیں جن کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچا جاسکتا ہے ۔
ممبئی میں یہودیوں کے مرکز ‘شباڈ ہاؤس’ پرحملے کے لیے لشکر کی اعلیٰ قیادت تیار نہیں تھی کیونکہ ان کو علم تھا کہ اس سے وہ عالمی جہاد کا حصہ بن کر القاعدہ اور طالبان کی طرح برا ہ راست امریکی اوردیگر مغربی طاقتوں کا نشانہ بن جائیں گے ،لیکن ان تفتیشی صحافیوں کے مطابق کیمپ میں مقیم زیرتربیت اٹھارہ ہندوستانی جنگجوؤ ں کے اصرار پر شباڈ ہاؤس کو ٹارگٹ لسٹ میں شامل کرلیا گیا۔ان میں ذبیح الدیں انصاری عرف ابوجندل بھی شامل تھا۔ صوبہ مہاراشٹر میں انصاری کوجاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ضلع بیہڑ کے پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی جب ایک بار ضلع کے دورہ پر تھے ، تو اس کو اپنے ساتھ لے گیا۔بتایا جاتا ہے کہ 2006ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیا،جس کے بعد وہ روپوش ہوکرلشکر میں شامل ہوگیا۔اسی کیس میں اس کو سزا بھی ہوگئی ہے ۔ادھر امریکہ اورپاکستان میں ہیڈلی کی گرل فرینڈز، بیوی اوردوسرے اہل خانہ اس کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں خدشات ظاہرکررہے تھے ۔
پاکستان میں مقیم اس کی بیوی فائزہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ جاکربھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا اوراصرار کیا کہ اس کے شوہر کی وقتاً فوقتاً ممبئی جانے اوروہاں اس کی مصروفیات کی تفتیش کی جائے مگر سفارت خانہ کے افسروں نے اس کی شکایت کو خانگی جھگڑاقرار دے کر فائل داخل دفترکردی۔ دوسری جانب خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستان کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سکریٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سکریٹری نے فون کرکے انہیں متنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انہیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اس لیے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ ہندوستانی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے ۔کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را ء سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے ۔آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اس لیے ان کا انتظار کیا جائے ۔بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لیے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ اس عرصے کے دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں کے علاوہ یہودی مرکز پر جنگجوؤں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے ۔ان حملوں سے دو سال قبل18فروری 2007ء کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے ۔ 68 اموات میں اکثر پاکستانی شہری تھے ۔
ابتدائی تفتیش میں ہندوستانی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم’ ابھینوبھارت’ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی (این آئی اے ) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیاکہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی ہندوستان کے ایک شہر اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے ۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کیے تھے ۔گو کہ ہندوستان میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کیے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔ کرکرے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے ، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے ۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنماؤں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں ‘ملک کا غدار’ قرار دیا تھا۔بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔
ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے کانگریسی حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں’ نرم رویہ’ کو افشاء کیا تھا۔لینا کے بقول؛تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز (وجہ بتاؤ) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے ؟مہاراشٹر کی اس وقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔خیر اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائے گا۔ کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائے گا۔ویسے عوامی یاداشت اتنی کمزور تو ہے ہی کہ انصاری کی حوالگی جس طرح اب یاداشت سے محو ہو چکی ہے ، چند سال بعد رانا کی حوالگی کو بھی عوام بھول جائیں گے ۔ میڈیا جو ایک زمانے میں سوال پوچھتا تھا وہ بھی اب حکومت کا احتساب کرنے سے کتراتا ہے ، خاص طور پر جب قومی سلامتی کا معاملہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں