
منی پور فسادات بے قابو
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
مودی سرکار وفاقی اور صوبائی سطح پر منی پور فسادات پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔543 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا اسمبلی میں منی پور کی نمائندگی کرنے کیلئے محض دو نشستیں مختص کی گئیں ہیں اور ان پر بھی بی جے پی قابض ہے،اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں منی پور میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید مذمت کا اظہار کرچکی ہیں،اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے بارہا متنبہ کرنے کے باوجود مودی سرکار بیحسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے مابین تنازعے اور اسکے نتیجے میں جاری فسادات کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے، منی پور میں انتخابی عمل کے دوران بے شمار تشدد اور جھڑپوں کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، منی پور میں جاری قتل و غارت اور انسانی حقوق کی تشویشناک خلاف ورزیاں تاریخ میں سیاہ ترین باب کے طور پر لکھی جائیں گی۔
منی پور میں فسادات کا آغاز منی پور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے ہوا جس میں حکومت کو میتی کمیونٹی کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ 2012ء میں میتی کمیونٹی نے شیڈول ٹرائب کا درجہ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی تھی’ اس درخواست پر میتی کمیونٹی کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد کوکی اور میتی گروپس کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے جن میں اب تک 125 افراد ہلاک ہو چکے جبکہ چالیس ہزار سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ مودی سرکار نے اپنے تیسرے دور حکومت میں بھارت کو نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کا محور بنادیا۔مودی حکومت کی فسطائی اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ریاست منی پور نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کا شکار ہو چکی ہے ، آئے روز ہونے والے قبائلی تصادم کی بدولت ریاست میں معمولات زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں، تشدد اور خونریزی کی نئی لہر سنگین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔مودی حکومت منی پور میں حالات پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
منی پور کی وادی امپھال میں مودی سرکار کی متعصبانہ پالیسیوں کے باعث عسکریت پسندوں کا راج قائم ہو چکا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں مکمل ناکامی کے بعد صورتحال بد سے بدتر ہو چکی ہے۔ سرکاری سرپرستی میں کوکی قبائل کی جائیدادیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں جبکہ صدارتی راج کے نفاذ اور سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ان کی خلاف ورزی جاری ہے۔علاقے میں گھروں پر حملے، لوٹ مار اور زبردستی قبضے معمول بن چکے ہیں۔ شہریوں کے لیے اپنے گھروں کو واپس جانا ناممکن ہو چکا ہے۔ بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ عسکریت پسند گروہوں نے کوکی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں کے دروازوں پر نشانات لگا دئیے ہیں، جبکہ نام نہاد سیکیورٹی کے لیے تعینات بھارتی فورسز خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
جدید اسلحے سے لیس عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے علاقے میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ میتی قبائل سے وابستہ عسکریت پسند گروہ "آرامبائی تنگگول” کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی کیونکہ بھارتی حکومت ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ کاروبار عسکریت پسندوں کی کمائی کا ذریعہ بن چکا ہے، جو کچھ بھی کماتے ہیں، اس کا حصہ عسکریت پسندوں کو دینا پڑتا ہے۔مقامی افراد کے مطابق بھارتی فورسز نے کئی مواقع پر گاؤں کے لوگوں کو لوٹنے میں عسکریت پسندوں کی مدد بھی کی ہے۔ لوگوں کے موبائل فون چیک کیے جاتے ہیں، اور اگر کسی کا کوکی برادری سے رابطہ نکل آئے تو نہ صرف اسے دھمکایا جاتا ہے بلکہ جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔منی پور فسادات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی مسلسل خاموشی پر انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ منی پور کے بگڑتے حالات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مودی سرکار کے ایجنڈے میں اقلیتیں کبھی بھی ترجیح نہیں رہیں۔
بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی نے ہمیشہ ہندو انتہا پسندی کی سیاست کے ساتھ ملک میں فسطائیت کو فروغ دیا ہے۔ مودی سرکار نے اپنے تیسرے دور میں بھی بھارت کو نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کی آماج گاہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور سیاسی حریف ہوں یا بھارت میں بسنے والی اقلیتیں، سب ہی مودی سرکار کی انتہاپسندانہ سوچ کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔بھارت میں اس وقت ریاستی سطح پر بہت سے طبقات بنیادی حقو ق سے محروم ہیں جن کی وجہ سے ملک میں متعدد علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ مودی سرکار نے جان بوجھ کر منی پور کے حالات کو خراب کیا ہے تاکہ اپنے مذموم سیاسی مقاصد کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ منی پور کے لوگ اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔حالیہ فسادات کے بعدامفال وادی اور گردونواح میں دوبارہ کرفیونافذ کردیا گیا ہے۔ گزشتہ سال سے اب تک منی پور میں سیکڑوں بے گناہوں کی جانیں گئی ہیں۔ ریاستی پولیس نے بھارتی افواج کے ساتھ مل کر منی پور میں کومبنگ آپریشن شروع کردیے ہیں اور بھاری پیمانے پر سرچ آپریشن ہونے کی وجہ سے علاقہ مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
نسلی فسادات کو ہوادے کر میٹی کمیونٹی کو کْکی اور دوسروں قبیلوں سے لڑوایاجارہاہے تا کہ اْن کے آئینی حقوق کو پامال کیا جائے۔ منی پور کا مسئلہ مزید زور پکڑ رہاہے اور مودی سرکار سیاسی مسئلے کو بندوق کے زور پر حل کرنا چاہتی ہے۔
منی پور کا مسئلہ مودی کے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہوا ہے اور مقامی لوگ اب بھارت سے آزادی کا تقاضا کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی منی پور فسادات کو لے کر ایک گہری تشویش پائی جا رہی ہے۔ آخر کب تک مودی سرکار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ظلم و جارحیت کا سہارا لیتی رہے گی؟حالیہ فسادات کے بعدامفال وادی اور گردونواح میں دوبارہ کرفیونافذ کردیا گیا ہے،گزشتہ سال سے اب تک کے دوران منی پورمیں سینکڑوں بے گناہوں کی جانیں گئی ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منی پورمیں جاری پرتشدد فسادات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ پر تشدد فسادات مودی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مودی حکومت گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر مسلسل قابض ہونے کے باوجود ملک کے مسائل حل کرنے میں مسلسل ناکام ہے۔ منی پور فسادات پر مودی سرکار نے مکمل چپ سادھ رکھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔