میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مشرق وسطیٰ غیر یقینی صورتحال کی لپیٹ میں!

مشرق وسطیٰ غیر یقینی صورتحال کی لپیٹ میں!

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۸ مارچ ۲۰۲۵

شیئر کریں

جاوید محمود

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے اپنے منصوبے کو دُہرایا ہے۔ انہوں نے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر لکھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل غزہ کی پٹی کو امریکہ کے حوالے کر دے گا۔ فلسطینی اور چک شومر جیسے لوگ پہلے ہی کہیں زیادہ محفوظ اور خوبصورت کمیونٹیز میں آباد ہوچکے ہوں۔ ٹرمپ نے مزید لکھا کہ انہیں در حقیقت خوش محفوظ اور آزاد رہنے کا موقع ملے گا ۔امریکہ پوری دنیا کی عظیم ترقیاتی ٹیموں کے ساتھ کام کر رہا ہے اور آہستہ آہستہ احتیاط سے اس کی تعمیر شروع کر دے گا جو زمین پر اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اور شاندار پیشرفت میں سے ایک ہوگی۔ اس کے لیے امریکہ کو کسی فوجی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ خطے میں استحکام راج کرے گا۔ واضح رہے کہ ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے چک شومر امریکی سینٹ میں اقلیتوں کے رہنما ہیں۔ انہوں نے تقریر کے دوران ٹرمپ کو لا پروا اور قانون کا احترام نہ کرنے والا قرار دیا تھا ۔ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کا کنٹرول سنبھالنے اور اسے اپنی ملکیت میں لینے اور اس سارے عمل کے دوران وہاں کے لوگوں کی دوبارہ آبادی کے منصوبے پر عمل درآمد تو نہیں ہونے والا کیونکہ اس کام کے لیے انہیں عرب ممالک کی حمایت کی ضرورت ہوگی جو پہلے ہی ان کی مخالفت کا اعلان کر چکے ہیں۔ ان ممالک میں مصر، اردن اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ مصر اور اردن ان افراد کی دوبارہ آباد کاری کے لیے جگہ مہیا کریں جبکہ انہیں سعودی عرب سے امید ہوگی کہ وہ اس سارے عمل کا خرچ اٹھائے ۔شاید غزہ کے بہت سے سارے فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے کا موقع کافی پرکشش لگے اور وہ اس سے فائدہ بھی اٹھانا چاہیں لیکن اگر 10 لاکھ فلسطینی بھی غزہ چھوڑ کر چلے جائیں تب بھی 12 لاکھ کے قریب لوگ پیچھے رہ جائیں گے۔ امریکہ کو ان افراد کو وہاں سے جبری طور پر بے دخل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے گا۔ 2003 میں امریکہ کے عراق پر حملے کے خوفناک نتائج کے بعد یہ کام کافی غیر معقول ہوگا ۔یہ منصوبہ اس تنازع کے دو ریاستی حل کے کسی بھی امکان میں آخری کیل ثابت ہوگا ۔یہ ایک ایسی امید ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ایک صدی سے زیادہ لمبے عرصے سے جاری اس تنازع کو ختم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ کسی ایسی بات کی کیا فکر کرنا جو ہونے ہی نہیں والی یا کم از کم ویسے نہیں ہونے والی جیسے ڈونلڈ ٹرمپ بتا رہے ہیں اور جسے سن کر اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو خوش ہو رہے تھے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کسی ریالٹی شو کے میزبان نہیں جو سیاسی بیان دے کر شہ سرخیوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کریں ۔وہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر ہیں اور اس لحاظ سے وہ دنیا کے سب سے طاقتور شخص ہوئے ۔مختصر مدت میں ان کے بیانات پہلے سے ہی جنگ بندی کے نازک معاہدے پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق یہ جنگ بندی کے لیے آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔ اس معاہدے میں پہلے ہی ایک بڑی کمی یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مستقبل میں غزہ کا انتظام کیسے چلے گا؟
اب صدر ٹرمپ کی جانب سے اس کا منصوبہ پیش کیا گیا اس منصوبے پر اگر عمل درآمد نہیں ہوتا تب بھی یہ اسرائیلی اور فلسطینیوں کے ذہنوں میں سوالات کو ضرور جنم دے گا۔ اس سے ان قوم پرست یہودی انتہا پسندوں کے منصوبوں اور خوابوں کو تقویت ملے گی جن کا ماننا ہے کہ بحیرہ روم سے دریائے اردن تک کی زمین خدا کی طرف سے یہودیوں کو دی گئی، ان کے رہنما نتن یاہو کی حکومت میں شامل ہیں جو ان کی حکومت برقرار رکھنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔وہ اس اعلان سے بہت خوش ہیں ۔ان کی خواہش ہے کہ غزہ کی جنگ جاری رہے تاکہ فلسطینیوں کو وہاں سے نکال کر ان کی جگہ یہودیوں کو آباد کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ہماری سرزمین پر بدترین قتل عام کیا، وہ ہمیشہ کے لیے اپنی زمین کھو دیں گے ۔اب ہم بالاخر خدا کی مدد سے فلسطینی ریاست کے خطرناک خیال کو ہمیشہ کے لیے دفنانے جا رہے ہیں ۔ اسرائیل کے ا پوزیشن رہنماؤں نے شاید آگے پیش آنے والے مشکلات کے ڈر سے زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کیا تا ہم انہوں نے بھی دھیمے الفاظ میں اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ۔
حماس اور دیگر فلسطینی مسلح گروپوں کو شاید محسوس ہو کہ انہیں ٹرمپ کے بیان کے جواب میں اسرائیل کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کے ساتھ تنازع نکبہ کی یاد سے جڑا ہے ۔نکبہ کا مطلب تباہی کے ہیں۔ فلسطینی 1948 میں اسرائیل کی آزادی کے بعد جبری طور پر اپنی زمینوں سے بے دخل کیے جانے کے واقعے کو نکبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 7لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو یا تو اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا یا انہیں اسرائیلی مسلح فورسز نے زبردستی ان کے علاقے سے بے دخل کر دیا تھا۔ ان میں سے محض چند کو ہی واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی اور اسرائیل نے ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ آج بھی فلسطینیوں کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیتا ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف جنگ کو استعمال کرتے ہوئے غزہ کو تباہ کر کے فلسطینی آبادی کو وہاں سے نکالنا چاہتا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ کی تجویز پر عمل درآمد ہوتا ہے تو غزہ سے تقریبا 22لاکھ سے زیادہ لوگوں کو عرب ممالک میں بھیجا جائے گا ۔ان کے بیانات امریکہ کی خارجہ پالیسی سے زیادہ رئیل اسٹیٹ کے مذاکرات کے دوران کھیلے جانے والے داؤں کی طرح ہیں ۔شاید ڈونلڈ ٹرمپ اس بارے میں کنفیوژن اس لیے پھیلا رہے ہیں تاکہ وہ کسی اور منصوبے پر کام کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں نوبل امن انعام جیتنے کی شدید خواہش ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اس امن قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں کے نوبل نام جتنے کی نظیرملتی ہے ۔چاہے ان کے منصوبے کامیاب ہوں یا نہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا ان کے بیانات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر جاری پیغام میں ایران کے ساتھ ایک مستند جوہری امن معاہدے کی خواہش ظاہر کی ۔ایران اس بات پر اصرار کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانا نہیں چاہتا تاہم اب تہران میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اپنی حفاظت کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت پڑے کئی برس سے نتن یاہو کی خواہش ہے کہ امریکہ اسرائیل کی مدد سے ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کر دے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورصدارت کے دوران نتن یاہو امریکہ کو تہران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے سے پیچھے ہٹنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔اگر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقصد اسرائیلی انتہا پسندوں کو راغب کرنے کے لیے کچھ دینا تھا تاکہ ایران کے ساتھ جوہری معاملے پر بات چیت کی جا سکے تو وہ اس میں کامیاب ہو گئے ہیں تاہم ان کے اس اقدام کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں مزید غیر یقینی اور غیر استحکام کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں