پاک چین اقتصادی راہداری ‘چینی منصوبہ سازوں کی نظر پاکستانی زراعت سے استفادے پر ۔۔!!
شیئر کریں
سڑکوں اور اہم بازاروں میں ویڈیو سیکورٹی سسٹم نصب ہوگا، زراعت میں آنے والی چینی کمپنیوں کو ان کی حکومت کی جانب سے غیرمعمولی مراعات کی پیشکش کی جائے گی
چینی سیاحوں کو ویزا کے بغیرپاکستان میں داخل ہونے کی اجازت پرزور، فائبر آپٹک اولین ترجیحات میں شامل ‘ سی پیک کی تفصیلی دستاویزات سامنے آگئیں
خرم حسین
سی-پیک کے طویل المدتی منصوبے کی تفصیلات پہلی بار عوام کے سامنے آئی ہیں۔یہ طویل المدتی منصوبہ ہے جس کی نظریں زراعت پر ہیں ،اس منصوبے کے تحت راہداری میں شامل شہروں کی نگرانی کا وسیع منصوبہ تیار ہوگا،جبکہ چینی شہریوں کو ویزا کے بغیرپاکستان میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔
وزیراعظم نواز شریف ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں شرکت کے لیے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر بیجنگ پہنچے جہاں ان کے ایجنڈے کا سب سے اہم حصہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے طویل المدتی پلان کو حتمی شکل دینا تھا۔یہ منصوبہ کیا ہے اور اس پر عملدرآمد کس طرح ہوگا ،اس کی تفصیلات اس کی اصل دستاویز میں موجود ہیں جو اب منظر عام پر آئی ہیں، حتمی پلان میں تفصیلی معلومات شامل ہے کہ آنے والے 15سال میں چین کے پاکستان کے حوالے سے کیا ارادے اور ترجیحات ہوں گی۔
تفصیلات کے مطابق اس منصوبے کے تحت ، ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی چینی کمپنیوں کو لیز پر دی جائے گی جہاں بیجوں کی اقسام سے لے کر زرعی ٹیکنالوجی کے مظاہرے کے منصوبے تشکیل دیے جائیں گے۔پشاور تا کراچی مانیٹرنگ اور نگرانی کا مکمل نظام قائم کیا جائے گا جہاں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے سڑکوں اور اہم بازاروں میں 24 گھنٹے ویڈیو ریکارڈنگ کی سہولت موجود ہوگی۔قومی فائبرآپٹک کا ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جائے گا جو نہ صرف ملک کے انٹرنیٹ ٹریفک بلکہ براڈکاسٹ ٹیلی ویژن کی مقامی علاقوں میں ڈسٹری بیوشن یقینی بنائے گا، یہ ٹیلی ویژن چینی کلچر سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے چینی میڈیا سے بھی تعاون کرے گا۔
اس منصوبے کے 2 ورژن ہیں، جس میں سے ایک چین کے ڈویلپمنٹ بینک اور نیشنل ڈویلپمنٹ ریفارمز کمیشن نے تیار کیا ہے۔پنجاب حکومت کو منصوبے کا مکمل ورژن دیا گیاجبکہ دیگر صوبوں کو مختصر دورانیے کے منصوبوں کی مختصر تفصیل منظوری کے حصول کے لیے فراہم کی گئی ہے ۔
پلان کے تحت کچھ علاقوں میں مارکیٹوں میں چینی کمپنیوں کا قیام یقینی بنانا ہے، مختلف شعبوں میں چینی کمپنیاں اپنی پہچان بناچکی ہیں جبکہ دیگر شعبے جیسے کہ ٹیکسٹائل و ملبوسات، سیمنٹ و تعمیری مٹیریل، فرٹیلائزرو زرعی ٹیکنالوجی میں نئی آمد کے لیے انفرااسٹرکچر کی تعمیر اورسازگار پالیسی ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔
پلان کے مطابق اس حوالے سے ایک اہم اقدام صنعتی پارکس یا خصوصی معاشی زونز کا قیام ہے جو ’پانی کی فراہمی، بہترین انفرااسٹرکچر، توانائی کی مطلوبہ فراہمی اور سیلف سروس پاور کی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بناسکے‘۔
تاہم سی پیک کے بظاہر اہم ترین صنعتی، ٹرانسپورٹ، پاور پلانٹ اور شاہ راہوں کے عمومی تاثر کے اس پلان کا اہم ترین حصہ زراعت ہے، اور اس پلان کے تحت زراعت کے کئی منصوبوں پر کام شامل ہے۔کوریڈور چین کی خودمختار مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست سنکیانگ سے پاکستان کے جغرافیائی حدود سے منسلک ہوگا،اور یوں جنوبی سنکیانگ پاکستان سے زمینی رابطے میں آجائے گا، اسے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا، جیسے تابکاری کے علاقوں میں چین کے کاشغر، تومشوق، اتوشی اور سنکیانگ کا علاقہ ایکٹو آف کزلسو۔ پاکستان کے علاقوں اسلام آباد، پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں سمیت گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں، یہ علاقے ایک ہی خطے کی تین گزرگاہوں، 2 محوری مرکزوں اور 5 متحرک زونز پر مبنی ہیں، جو راہداری کی ٹریفک کے لیے نہایت اہم ہیں۔
زراعت کے شعبے کے لیے اس پلان میں سپلائی چین کے ایک سے دوسرے سرے تک کی رابطہ کاری کے بارے میں خلاصہ شامل ہے، بیجوں اور دیگر چیزوں جیسے کھاد، کیڑے مار دواو¿ں اور پیسے کی فراہمی تک، چینی کمپنیاں اپنے فارمز اور پھلوں، سبزیوں اور اناج کی پروسیسنگ کے لیے قائم ہونے والے مراکز کا کام خود سنبھالیں گے۔ لاجسٹک کمپنیاں زرعی پیداوار کے لیے بڑے ذخیروں اور ترسیلات کے انتظامات سنبھالیں گی۔
اس میں ان مواقع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کئی مسائل سے گھرے پاکستان کے زرعی شعبے میں چینی کمپنیوں کی آمد سے حاصل کیے جا سکیں گے۔ مثلاًکولڈ چین لاجسٹک اور پراسیسنگ مراکز کی کمی کے باعث، کٹائی اور ترسیلات کے دوران 50 فیصد زرعی پیداوار خراب ہو جاتی ہے۔منصوبے کی نگرانی کے لیے کراچی سے پشاور تک 24 گھنٹے ویڈیو ریکارڈنگ کا سیکیورٹی سسٹم بنایا جائے گا، جو سڑکوں سمیت مصروف کاروباری مقامات اور امن و امان کی صورتحال کی ریکارڈنگ کرے گا۔
زراعت میں آنے والی چینی کمپنیوں کو ان کی حکومت کی جانب سے غیرمعمولی سطح پرمراعات کی پیشکش کی جائے گی۔ انہیں چینی حکومت کی مختلف وزارتوں اور چائنا ڈولپمنٹ بینک سے زیادہ تر آزاد سرمایہ اور قرضے حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ی کمپنیوں کے پاکستان اور چین کی حکومتوں کے سینئر نمائندگان کے ساتھ رابطے میں مددفراہم کرنے کے میکنیزم کے بارے میں بھی تفصیل شامل ہے۔
چین کی حکومت، زرعی بیرونی سرمایہ کاری کے قرضوں پر سود میں رعایت کے لیے قومی خصوصی فنڈز کو استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ طویل مدتی تناظر میں دیکھیں تو نئے اقسام کی سرمایہ کاریوں، جیسے کنسورشیم قرضوں، مشترکہ نجی ایکوئٹی اور مشترکہ قرضے کے اجرا، مختلف ذرائع اور غیر مرکزیت کے حامل مالی رسک کے ذریعے فنڈز میں اضافے سے سرمایہ کاری رسک میں مزید بہتری آئے گی ۔ پلان میں لائیو اسٹاک کی افزائش نسل اور دیگر جدید تقاضوں کو متعارف کرنے اور آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مشینوں اور سائنسی طریقوں کو پاکستان میں لانے کے لیے ژن جیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کورس سے خدمات لینے کی تجویز دی گئی ہے۔ وہ اس اہم موقع کو کاشغر پریفیکچر کی مدد کی صورت میں دیکھتے ہیں، جو کہ ژنجیانگ کے بااختیار زون کے اندر کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہے، جہاں 50 فیصد غربت ہے اور طویل فاصلے ہونے کی وجہ سے بڑی منڈیوں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے اور ترقی کی راہوں میں رکاوٹ آ جاتی ہے۔ 2012 میں پریفیکچر کی زراعت، جنگلات، جانوروں کی افزائش اور فشریز میں کل پیداوار کا حجم 5 ارب ڈالر سے تھوڑا ہی زیادہ رہا جبکہ 2010 میں یہاں کی آبادی 40 لاکھ سے بھی کم تھی، شاید ہی اس مارکیٹ سے پاکستان کو زبردست حد تک فائدہ حاصل ہو۔مگر چینیوں کے لیے، پاکستان کے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کے پیچھے فائدے چھپے ہیں۔ مزید برآں مقامی مارکیٹ سے وابستہ ہونے سے چینی کمپنیاں کئی منافع بخش فوائد حاصل کر سکتی ہیں۔ پلان میں بندرگاہوں سے زرعی اشیا کی برآمدات کے حوالے سے چند خلاصے تو ملتے ہیں، مگر زیادہ تر توجہ کاشغر پریفیکچر اور ژنجیانگ پروڈکشن کورز، اور ساتھ ہی مقامی مارکیٹ میں کام کرنے پر دیے جانے والے منافع بخش مواقع پر مرکوز کی گئی ہے۔
پلان کے اندر مارکیٹ کے بارے میں مناسب تفصیلات بھی شامل ہیں۔ مارکیٹ کے 17 خصوصی منصوبوں سمیت 10 اہم منصوبوں کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ جن میں ابتدائی طور پر 8 لاکھ ٹن کے سالانہ پیداوار والے ایک این پی کے فرٹیلائزر پلانٹ کی تعمیر شامل ہے۔ کمپنیوں کو، کھیتوں میں کام کرنے کے لیے ضروری ساز و سامان، جیسے ٹریکٹر، ’پودوں کے مو¿ثر تحفظ کی مشینری، کم توانائی استعمال کرنے والے پمپ کے سازوسامان، ڈرپ آبپاشی کے ذریعے فصل اگانے کے نظام کا سازوسامان’ اور فصل کی بوائی اور کٹائی کی مشینری کرائے پر دینے کے لیے نظام قائم کیا جائے گا۔
سکھر میں 2 لاکھ ٹن کی سالانہ پیداوار دینے والے گوشت پروسسنگ پلانٹس اور ہر سال 2 لاکھ ٹن دودھ پروسس کرنے والے دو نمائشی پلانٹس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کاشتکاری کی بات کریں تو، زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں اور آبپاشی کے نمائشی منصوبوں کے لیے 6 ہزار 5 سو ایکڑ سے زیادہ زمین( زیادہ تر پنجاب میں) مختص ہوگی۔ ٹرانسپورٹ اور گودام کے شعبے کی بات کریں تو، پلان میں ایک ’ملکی سطح پر لاجسٹکس نیٹ ورک بنانے اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان گوداموں اور اناج، سبزیوں اور پھلوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے تقسیم کاری کے نیٹ ورک میں توسیع کرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور گوادر میں گودام تعمیر کیے جائیں گے، دوسرے مرحلے میں کراچی، لاہور اورگوادر میں تعمیر کیے جائیں گے، اور 2026 اور 2030 کے درمیان کراچی، لاہور اور پشاور میں بھی ایک ایک گودام تعمیر کیے جائیں گے۔
ہر شعبے میں، چینی کمپنیاں مرکزی کردار ادا کریں گی۔ چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپنیاں کھاد، کیڑے مار دواو¿ں اور مویشیوں کے چارے کی پیداوار کے لیے کارخانے قائم کریں گی۔
دستاویزات میں منصوبے میں شامل ایک خصوصی اور دلچسپ باب کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جس میں ساحلی پٹی کے علاقوں میں سمندری سیاحت وآتش بازی کے سیاحی منصوبے، پارکس، کھیل کے میدانوں، تھیٹرز اور گولف کورسز کی تعمیر، موسم گرماو سرما کے حساب سے ہوٹلز اور واٹر اسپورٹس جیسے منصوبوں کی تعمیر شامل ہے۔
سیکیورٹی اقدامات کے طور پرپلان میں چینی کمپنیوں کو مقامی لوگوں کے مذاہب اور رسومات کا احترام، لوگوں سے برابری کا سلوک کرنے اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ انہیں مقامی ملازمتوں میں اضافے، ذیلی معاہدوں اور کنسورشیم کے ذریعے مقامی معاشرے کے لیے کام کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔
صنعت کے حوالے سے مندرجات میں تین صنعتی حصوں کا ذکر ہے ۔ مغربی اور شمال مغربی، وسطی اور جنوبی حصہ۔ان حصوں میں سے ہر ایک زون کے نامزد صنعتی پارکس میں مخصوص صنعتیںقائم کی جائیں گی جن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا گیا۔
مغربی اور شمال مغربی حصہ جو زیادہ تر بلوچستان اور خیبر پختوانخوا پر مشتمل ہے ان علاقوں کو معدنیات نکالنے کے حوالے سے ظاہر کیا گیا ہے خصوصاَ کروم کچ دھات ، سونا اور ہیرے کے حصول کے لیے۔ایک اور شعبہ معدنیات کاہے جس کے بارے میں اس منصوبے میں سنگ مرمر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ چین پاکستان سے سنگ مر مر خریدنےو الا سب سے بڑا ملک ہے جو ہر سال 80 ہزار ٹن سنگ مر مر خریدتا ہے۔منصوبے کے مطابق شمال میں گلگت اور کوہستان کے علاقے سے لے کر جنوب میں خضدارتک 12 سنگ مر مر اور گرینائٹ کی پروسیسنگ کے کارخانے لگائے جائیں گے۔
وسطی زون کو ٹیکسٹائل، گھریلو استعمال کی اشیا اور سیمنٹ کی صنعتوں کے لیے مختص کیا گیا ہے اور چار علاقوں داو¿د خیل، خوشاب، عیسیٰ خیل اور میاںوالی کو علیحدہ سے ظاہر کیا گیا ہے جہاں مستقبل میں سیمنٹ تیار کی جائے گی۔منصوبے کے تحت پشاور میں پائلٹ سیف سٹی بنائے جانے کا بھی ذکر ہے۔سیمنٹ کا معاملہ دلچسپ ہے کیونکہ اس منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سیمنٹ کی صلاحیت سے مالا مال ہے جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقبل میں سیمنٹ پراسیس کی ٹرانسفورمیشن کے لیے چین کے پاس سرمایہ کاری اور تعاون کے بڑے مواقع موجود ہوں گے۔
منصوبے میں جنوبی زون کیلئے تجویز کیاگیاہے کہ کراچی اور اس کی بندرگاہ قریب ہونے کی وجہ سے پاکستان اس خطے میں پیٹروکیمیکل، لوہے اور اسٹیل کی صنعت، بندرگاہ کی صنعت، انجینئرنگ مشینری کی صنعت، تجارتی پروسیسنگ اور آٹو پارٹس تیار کرنے کی صنعت تعمیر کرے۔حیران کن طور پر اس رپورٹ میں آٹو انڈسٹری کا واضح طور پر تذکرہ نہیں ہے حالانکہ یہ صنعت ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔اس خاموشی کی وجہ یا تو چین کی طرف سے اس صنعت میں عدم دلچسپی ہوسکتی ہے یا پھر سفارتی احتیاط کیونکہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری پر مکمل طور پر جاپانی کمپنیوں (ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی) کا غلبہ ہے۔گوادر بھی اس ہی جنوبی زون کا حصہ ہے جو افغانستان اور بلوچستان کو ملاتا ہے اور ایک براہ راست غیر پیمائش شدہ حصہ ہے۔
سی پیک کا داخلی راستہ اور اہم گیٹ وے ہونے کی حیثیت سے یہ منصوبہ تجویز کرتا ہے کہ گوادر میں کیمیائی اور ہیوی انڈسٹریز کی ایک بنیاد تعمیر کی جائے جن میں لوہے اور اسٹیل کی صنعت اور پیٹروکیمیکل کی صنعت شامل ہے۔
پلان کے مطابق چین کا صوبہ سنکیانگ پہلے ہی ٹیکسٹائل میںاعلیٰ پیداواری معیار حاصل کر چکا ہے لہٰذا چین پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کی ترقی کے لیے پاکستان کی زیادہ تر منڈیوں تک سستا خام مال پہنچا سکتا ہے جو کہ کاشغر میں اضافی افرادی قوت کو بروئے کار لانے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا۔پلان کے تحت بننے والے نئے انڈسٹریل پارکس میں سرمایہ کاری کے لیے کمپنیوں کو متوجہ کرنے کے لیے ترجیحی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔جن شعبوں میں ان ترجیحی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی ان میں زمین، ٹیکس، لا جسٹکس اینڈ سروسز اس کے علاوہ انٹرپرائز انکم ٹیکس، ٹیرف میں کمی اور مستثنیٰ اور سیلز ٹیکس کی شرح شامل ہیں۔ چینی حکومت کی اولین ترجیحات میں پاکستان اور چین کو فائبر آپٹک کے ذریعے جوڑنا شامل ہے۔چین کی پاکستان کے ساتھ فائبر آپٹک کے زمینی لنک کی خواہش کی مختلف وجوہات ہیں جن میں اس کی محدود تعداد میں سب میرین لینڈنگ اسٹیشنز کی موجودگی اور انٹرنیشنل گیٹ وے ایکسچینجز شامل ہیں جوکہ مستقبل میں انٹرنیٹ ٹریفک میں اضافے کی صورت میں رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے اور یہ چین کے مغربی صوبوں کے لیے درست ہے۔پاکستان کے پاس اپنے ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے چار سب میرین کیبلز ہیں جبکہ صرف ایک ہی سب میرین لینڈنگ اسٹیشن ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔لہٰذا اس منصوبے سے یہ بات عیاں ہے کہ ایک زمینی کیبل خنجراب پاس سے گزر کر اسلام آباد سے ملے گی جبکہ ایک سب میرین اسٹیشن گوادر میں بنایا جائے گا جو سکھر سے ملے گا۔یہاں سے یہ دونوں کیبل اسلام آباد کے ساتھ ساتھ پورے ملک سے منسلک ہوجائیں گی۔یہ وسیع ہونے والی بینڈ ودتھ سے ملک میں ڈیجیٹل ایچ ڈی ٹیلی ویژن کی علاقائی نشریات کا آغاز ہوسکے گا جسے ڈیجیٹل ٹیلی وژن ٹیرسٹریئل ملٹی میڈیا براڈکاسٹنگ (ڈی ٹی ایم بی) کہا جاتا ہے۔یہ ثقافت کی منتقلی کا ذریعہ ہے جس سے مستقبل میں پاکستان اور چینی ذرائع ابلاغ کا باہمی تعاون پاکستان میں چینی ثقافت اور دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان باہمی افہام و تفہم اور روایتی دوستی کو فروغ دینے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔راہداری کے حوالے سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی حکام اس بات پر بضد ہیں کہ چین گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کا کام شروع کرے، جب کہ چینی حکام چاہتے ہیں کہ پہلے ایسٹ بے ایکسپریس وے کا کام مکمل کیا جائے۔
پلان کے تحت خنجراب میں سرحد کی الیکٹرانک نگرانی اور کنٹرول سسٹم کے قیام کے ساتھ ساتھ سیف سٹی پروجیکٹس چلانے کا بھی منصوبہ ہے۔سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت پاکستان کے زیادہ تر شہری علاقوں میں اہم شاہراہوں، پر خطر علاقوں اور پر ہجوم مقامات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایکسپلوزیو ڈٹیکٹرز اور اسکینرز لگائے جائیں گے تاکہ ان علاقوں میں براہ راست نگرانی اور 24 گھنٹے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جا سکے۔ منصوبے کے مطابق پشاور میں ایک پائلٹ سیف سٹی کی تعمیر کا منصوبہ بھی ہے جسے شمال مشرقی پاکستان میں شدید سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے جبکہ بعد ازاں اس پروجیکٹ کا دائرہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی تک بھی پھیلایا جائے گا اور ڈیٹا ایک دوسرے سے شیئرز کیا جائے گا اور ریکارڈ بھی کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے سب سے دلچسپ چیپٹرز میں سے ایک ساحلی سیاحت کی صنعت کی ترقی ہے۔پلان میں ساحلی لطف اندوزی کی صنعت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں بوٹ ہارف، کروز ہوم پورٹس، نائٹ لائف، سٹی پارکس، عوامی تفریحی چوکوں، تھیٹرز، گالف کورسز، ہوٹلز اور واٹر اسپورٹس شامل ہے۔یہ ساحلی پٹی کیٹی بندر سے جیوانی تک ہے ۔
پلان میںبعض منصوبوں کی حیران کن تفصیلات شامل کی گئی ہیں مثال کے طور پر گوادر میں بین الاقوامی کروز کلب ہوگا جو میرین سیاحوں کو پرائیویٹ کمرے مہیا کرے گا، جہاں وہ ایسا محسوس کر سکیں گے کہ وہ سمندر کے اندر رہ رہے ہیں۔منصوبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوسٹل ووکیشن پروڈکٹس کی ترقی کے لیے اسلامی کلچر، تاریخی کلچر، فوک کلچر اور میرین کلچر کو یکجا کیا جائے گا۔اورماڑا کےلیے یہ منصوبہ منفرد تفریحی سرگرمیوں کے لیے تعمیرات کی تجویز دیتا ہے جو قدرتی، دلچسپ، شراکتی اور پر کشش خصوصیات کے حصول کی حوصلہ افزائی کرے گا۔کیٹی بندر کے لیے جنگلی حیات کی پناہ گاہوں، ایک ایکوریم اور ایک نباتاتی باغ کی تعمیر کی تجویز اس منصوبے میں شامل ہے۔
سونمیانی کے لیے اس منصوبے کے تحت کوسٹل بیچ، وسیع گرین وے، کوسٹل ولا، کار کیمپ، ایس پی اے، کھیل کا میدان اور سی فوڈ کھانے کی اسٹریٹ تعمیر کی جا سکتی ہے۔یہ ایک وسیع ویژن ہے تاہم اس منصوبے کے اختتام پر یہ کہا گیا ہے پاکستان کو چین کے ساتھ ویزا فری سیاحت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ پاکستان میں چینی سیاحوں کو زیادہ آسان اور معاون ماحول میسر آسکے۔تاہم پلان میں چین جانے والے پاکستانی شہریوں کے ساتھ اسی طرح کے انتظامات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
مالیات اور خطرات:کسی بھی منصوبے میں مالی وسائل کا سوال ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے مالیاتی شعبے، حکومتی ڈیبٹ مارکیٹ، کمرشل بینکنگ کی گہرائی اور مالیاتی نظام کی مجموعی صحت پر تبادلہ خیال کے دوران چائنا ڈویلپمنٹ بینک نے ایک طویل المیعاد منصوبہ تیار کیا۔ جب پاکستانی معیشت میں طویل المیعاد سرمایہ کاری کے دوران سامنے آنے والے خطرات کی بات ہو تو یہ بہت غیرجذباتی قسم کا منصوبہ ہے۔اس منصوبے میں سیاست اور سیکیورٹی کو بڑے خطرات سمجھا گیا ہے اور اسے تیار کرنے والوں نے لکھا ہے پاکستانی سیاست میں متعدد عناصر اثر انداز ہوتے ہیں، جس میں مخالف جماعتیں، مذہب، قبائل، دہشت گرد اور مغربی مداخلت، حالیہ برسوں کے دوران سیکورٹی کی صورتحال بدترین رہی ہے۔ اگلا بڑا خطرہ حیران کن طور پر افراط زر ہے جس کے بارے میں منصوبے میں لکھا ہے کہ یہ گزشتہ6 سال کے دوران اوسطاً 11.6 فیصد رہی ہے بلند افراط زر کی شرح کا مطلب منصوبے کی لاگت میں اضافہ اور منافع میں کمی ہے۔
منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں اور جب راہداری کے اخراجات کی واپسی شروع ہوجائے تو پاکستان کے لیے کم شرح سود یا بلاسود قرضے مہیا کیے جائیں، مگر یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ یہ کوئی مفت سہولت نہیں ،پاکستان کی وفاقی اور متعلقہ مقامی حکومتوں کو بھی مالیات کی ذمہ داری کا اپنا بوجھ اٹھانے اس کے لیے سورن گارنٹی بانڈز کا اجراءکیا جائے، دوسری جانب راہداری کی تعمیر کے لیے حکومتی فنڈز کے حصے اور پیمانے کو مالیاتی بجٹ میں بہتر کیا جائے۔
آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے تخمینہ جات پر انحصار کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ سالانہ دو ارب ڈالرز سے زائد کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت پر دباﺅ بڑھائے بغیر جذب نہیں ہوسکتی لہٰذایہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں چین کی سالانہ زیادہ سے زیادہ براہ راست سرمایہ کاری ایک ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہونی چاہئے۔اس منصوبے میں چینی کمپنیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے احتیاطی اقدامات کریں ‘ پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی کاروباری تعاون بنیادی طور پر حکومت کے ساتھ بطور تعاون کیا جانا چاہئے، بینکوں کا کردار ثالثی ایجنٹ جبکہ کاروباری افراد بنیادی سہارا ہوں گے’۔ اسی طرح مزید کہا گیا ‘ پاکستان کے مالیاتی اور معاشی شعبوں میں تعاون کا مقصد چین کی سفارتی حکمت عملی کی مدد کرنا ہوگا’۔
اس منصوبے کے لیے ایک اور بڑا خطرہ زرمبادلہ کو قرار دیا گیا، پاکستان کی زرمبادلہ کے حصول کی صلاحیت کے حوالے سے کمزوری کی جانب توجہ دلائی گئی اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے منصوبے میں آر ایم بی اور پاکستانی روپے کے درمیان تبادلے کے میکنزم میں تین گنا اضافے سے تیس ارب یوآن تک پہنچانے کی تجویز دی گئی، اسی طرح خریداری کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی بجائے آر ایم بی اور روپے کو ترجیح دی جائے گی، ہانگ کانگ مارکیٹ کو آر ایم بی بانڈز کے لیے استعمال اور کاروباری قرضوں کو وسائل کے وسیع صف بندی میں تقسیم کیا جائے۔
یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ پاکستان اس منصوبے کی تکمیل پرکتنی توجہ سے کام کو آگے بڑھائے گاتاہم منصوبے میں شامل دلچسپی کے مرکزی نکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرعی معیشت میں بہتری کے لیے چین کی جانب سے آلات کی فراہمی اولین ترجیح ہے، اس کے بعد چین کے لیے سنکیانگ کے ٹیکسٹائل خام مال کو استعمال میں لانا ہے، جب کہ گارمنٹ اور ویلیو ایڈڈ جیسے شعبوں کو بھی چینی ٹیکنالوجی میں ضم کرنے جیسے معاملات بھی چین کے لیے اہم ہیں۔ترجیحات میں اگلا ہدف مقامی صنعت کی بہتری ہے، خصوصی طور پر سیمنٹ اور گھریلو استعمال کی اشیاءجیسے منصوبے ہیں۔آخر میں منصوبے کے تحت مالی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے چینی کرنسی کوعالمگیریت کے طور پر آگے بڑھانا ہے، اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں داخل ہونے والے چینی کاروباری اداروں کو درپیش خطرات کو بھی نظر میں رکھنا ہے۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کی جائے کہ گوادرپہلے ہی اقتصادی وسعت کے لیے اہم مرکز کی حیثیت حاصل کرچکا ہے، جسے بنیادی طور پربلوچستان اور افغانستان سے قدرتی معدنیات کی منتقلی کے لیے پورٹ جب کہ جنوبی افریقا سے نیوزی لینڈ تک بحر ہند کے ذریعے وسیع تجارتی مقاصد کے طورپرایک منڈی کی حیثیت سے استعمال کیا جاسکے گا۔
گوادر کے ذریعے چین کی بیرونی تجارت بھی ہوگی یا نہیں، اس حوالے سے منصوبے کے مندرجات میں کوئی ذکر نہیں، جب کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے چین پر اس بات کا زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ پربھی کام کریں، جب کہ اس کے برعکس چینی حکام ایسٹ بے ایکسپریس کی جلد تکمیل پر زور دے رہے ہیں۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ چینی ادارے صرف سی پیک منصوبے تک محدود نہیں ہیں، اس کی تازہ مثال چینی اداروں کی جانب سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) اور کراچی الیکٹرک (کے الیکٹرک) کے شیئرز کا حصول ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پیک ترقی کے لیے کھلنے والا صرف پہلا دروازہ ہے، اب اس دروازے کے ذریعے کیا کچھ داخل ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔