تلخ نوائی مری چمن میں گوارا کر
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
مشہور عباسی خلیفہ منصورایک رات کعبہ کاطواف کر رہا تھا کہ اچانک اس کے کان میں آواز پڑی ”اے اللہ ! میں تیری ہی بارگاہ میں ظلم و زیادتی کے عام ہونے، حق اور اہل حق کے درمیان حرص و طمع کے داخل ہونے کا شکوہ کرتا ہوں“ یہ سن کر خلیفہ منصور وہاں سے نکل کر مسجد کے ایک کونے میں آکر بیٹھ گیا اور خادم کو حکم دیا کہ اس شخص کو میرے پاس حاضر کرو۔ اس شخص کو جب خلیفہ کا پیغام ملا تو اس نے دو رکعت نماز پڑھ کر استیلام رکن کیا اور خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا۔ خلیفہ نے اس سے مخاطب ہوکر کہا : ” یہ ہم نے تمہیں کیا کہتے سناکہ : ’ ’ زمین میں ظلم و زیادتی عام ہوگئی ہے اور حق اور اہل حق کے درمیان حرص و طمع داخل ہوگئی ہے “ بخدا !تمہاری اس بات سے ہمیں بڑی تکلیف ہوئی ۔“ اس شخص نے کہا : ” اے امیر المو¿منین ! اگر جان کی امان پاو¿ں توحقیقت حال عرض کروں ؟“ خلیفہ نے کہا : ”ہم نے تمہیں امان دی “ وہ شخص کہنے لگا :” اے امیر المو¿منین ! خود آپ ہی کی ذات حرص و طمع اور دنیوی لالچ کا شکار ہوگئی ہے ۔حرص و طمع کے اس مکروہ جذبے نے آپ کو ظلم و زیادتی کا سد باب کرنے سے روکے رکھا ہے۔ خلیفہ نے کہا : ” تیرا برا ہو ، میرے اندر لالچ اور حرص کیوں کر داخل ہوسکتی ہے ، جب کہ میں سیاہ و سفید کا مالک ہوں اور سونا و چاندی میری مٹھی میں ہے؟“اس شخص نے کہا : ” آپ جس طرح دنیوی اغراض ومفادات کا شکار ہوئے ہیں اس طرح کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کندھے پر مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی ہے ،مگر آپ اس کی انجام دہی سے غفلت برت رہے ہیں اور مال و دولت جمع کرنےمیں مگن ہیں ۔ آپ نے چونے اور پکی اینٹوں کی دیواریں کھڑی کرکے مضبوط آہنی دروازے لگا کر مسلح پہرے دار اور دربان بٹھا کر مظلوموں پر اپنے دربار تک رسائی کی تمام راہیں مسدود کردی ہیں ۔ لوگوں سے ٹیکسوں کی شکل میں مال و دولت سمیٹنے کے لیے اپنے عمال کو کیل کانٹے سے لیس کر کے روانہ کر رکھا ہے ۔آپ کی رعایا میں سے صرف مخصوص طبقے کو ہی دربار شاہی میں شرف باریابی کا پروانہ حاصل ہے ۔کمزوروں ، غریبوں اور ستم رسیدہ لوگوں کے لیے آپ کے دروازے بند ہیں۔یہ طبقہ اشرافیہ جسے آپ کا تقرب حاصل ہے اور جسے دربار میں بلا روک ٹوک رسائی حاصل ہے ¾جب آپ کو مال ودولت تقسیم کرنے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے سمیٹتے دیکھتا ہے تو اسے وجہ¿ جواز بنا کر خوداس بندر بانٹ کے ارتکاب پر کمر بستہ ہوجاتا ہے اور اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر لوگوں کے احوال کی صحیح خبرآپ تک پہنچنے نہ پائے ۔ اگر اقتدار میں موجود کوئی نیک بندہ اس طبقہ کی غلط روش کی مخالفت کرے تو اس پر الزام تراشیاں اور دشنام طرازیاں کرکے ذلیل ورسوا کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاجاتا اور جب وہ راہ سے ہٹ جاتا ہے تو لوگ اس طبقہ کی ہیبت اور اثر ورسوخ سے مزید مرعوب ہوجاتے ہیں اور اس سے نباہ رکھنے کے لیے مال و دولت اور ہدیہ و تحائف کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس طرح اس طبقہ کے لوگ رعایا پر ظلم کرنے میں پہلے سے زیادہ مستعد ہوجاتے ہیں۔
یہی حال ان لوگوں کا ہے جو اثر و رسوخ اور جاہ و مرتبہ کے مالک ہیں ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ شہر ظلم و زیادتی اور فساد کی آماج گاہ بن گئے ہیں ۔ طبقہ اشرافیہ کے افراد عملاً آپ کی سلطنت میں شریک ہوگئے ہیں ۔ جب کہ آپ اس ساری صورت حال سے بے پروا ہیں ۔ جب کوئی مظلوم ظلم کی شکایت لے کر آپ کے دربار میں آنا چاہتا ہے تو اس کی راہ روکی جاتی ہے اور اگر آپ کے باہر آنے پر اپنا مقدمہ آپ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کرے تو آپ کا اتنا کہہ دینا اسے مایوسی کے غار میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے کہ: ” یہ وقت فریاد سننے کا نہیں “ اسی طرح اگر آپ ظالموں کے احتساب کے لیے کوئی محتسب مقرر کریں اور مقربین کو خبر ہوجائے تو وہ اسے مجبور کرتے ہیں کہ ان کی شکایات آپ تک نہ پہنچائے ۔ وہ بے چارہ ان کے خوف سے زبان بند رکھتا ہے اور یوں مظلوم شخص شکوہ¿ ظلم لیے اس کے یہاں چکر پہ چکر لگاتا ہے مگر کچھ شنوائی نہیں ہوتی ۔ آخر کار جب ہر طرف سے تنگ آکر وہ آپ کے نکلنے پر بے اختیار تڑپ کرفریاد کرتا ہے تو اسے اذیت ناک سزا دے کر دوسروں کے لیے نمونہ¿ عبرت بنادیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے، مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہیں آتا ۔ کیا یہی اسلام ہے ؟؟؟۔
امیر المو¿منین ! میرا ملک چین آنا جانا رہتا تھا ۔ ایک مرتبہ میں وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بادشاہ کی قوت سماعت جواب دے گئی ہے اور وہ کانوں سے بہرہ ہوگیا ہے، اس دن باشاہ نے بھری مجلس میں دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا ۔ اہل مجلس اس مصیبت پر صبر کرنے کی تلقین کرنے لگے تو اس نے سر اٹھایا اور کہا : ” میرا رونا اس لیے نہیں کہ مجھ پر مصیبت پڑی ہے ۔ میں تو اس مظلوم کے غم میں رورہا ہوں جو ظالم کے خلاف فریاد لے کر میرے در پر دستک دے گا ،مگر میں سن نہ پاو¿ں گا “ کچھ دیر ٹھہر کر کہنے لگا : ”خیر….! اگرچہ سماعت چلی گئی ، مگر آنکھیں تو سلامت ہیں ۔ جاو¿! رعایا میں اعلان کرادو کہ آج کے بعد ملک میں مظلوم فریادی کے سوا کوئی سرخ کپڑے نہ پہنے تاکہ مظلوم کے سرخ کپڑے دیکھ کر میں اس کی داد رسی کرسکوں “پھروہ ہاتھی پر سوار ہوکر نکل کھڑا ہوتا اور مظلوموں کی داد رسی کرتا ۔
امیر المو¿منین ! اس بادشاہ نے مشرک ہونے کے باوجود اپنی قوم کے ساتھ ہمدردی کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھا اور ایک آپ ہیں کہ خدائے واحد پر ایمان رکھنے اور رسول اللہ ا کے اہل بیت کا فرد ہونے کے باوجود اپنی خواہش نفس کو مسلمان رعایا کی خیر خواہی پر قربان نہیں کرسکتے۔ اگر تو مال و دولت آپ اپنے بیٹے کے لیے جمع کر رہے ہیں تو دنیا میں جو بچہ بھی آتا ہے اس کا کوئی مال و متاع نہیں ہوتا ، مگر خدائے بزرگ و برتر کا سایہ¿ عاطفت مسلسل اس پر دراز ہوتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ لوگ اس بچے کی عظمت کے گن گانے لگتے ہیں ۔ آپ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے اور اللہ جس کو چاہے عطافرماتا ہے اور اگر مال و دولت جمع کرنے سے آپ کا مقصد سلطنت کی مضبوطی اور استحکام ہے تو بنو امیہ کی مثال اور تاریخ آپ کے سامنے ہے کہ ان کا جمع کردہ لاو¿ لشکر اور مال و دولت ان کے کسی کام نہ آیا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ جیسا معاملہ کرنا چاہے گا اسے کوئی روک نہیں سکتا اور نہ ہی مال و دولت کے انبار لگا کر آپ اپنے موجود رتبے سے بلند کوئی مرتبہ حاصل کرسکتے ہیں ۔
اے امیرالمو¿منین ! کیا اپنی نافرمانی کرنے والے کو آپقتل سے بڑھ کر کوئی سزا دے سکتے ہیں ؟ خلیفہ نے کہا : ” نہیں “ اس شخص نے کہا : ” تو پھر آپ کا اس بادشاہ کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے آپ کو دنیا کی بادشاہت سے سرفراز کیا اور وہ اپنے نافرمان کو قتل نہیں بلکہ دائمی دردناک عذاب کی سزا دیتا ہے ۔ وہ بخوبی واقف ہے کہ کس چیز کی محبت میں آپ کا دل جکڑا ہوا ہے اور وہ کیا چیز ہے جو آپ کا مطمح نظر قرار پائی ہے کہ اسی کے حصول کے لیے آپ کے ہاتھ بڑھتے اور قدم اٹھتے ہیں ؟ “ دنیا کی جس بادشاہت پر آپ فریفتہ ہیں کیا وہ اس وقت آپ کے کام آسکے گی جب وہ قادر مطلق ذات اسے آپ سے چھین لے گی اور آپ کو حساب کے لیے لا کھڑا کرے گی ؟۔“
اس شخص کی باتیں سن کر خوف آخرت سے خلیفہ منصور کی آنکھوں سے آنسوو¿ں کی جھڑی لگ گئی۔بے اختیار اس کی زبان سے نکلا : ” کاش ! میں پیدا ہی نہ ہوتا “ پھر اس شخص سے مخاطب ہوکر کہنے لگا : ” اچھا ! اب تم ہی کوئی تدبیر بتاو¿ کہ میں کیا کروں ؟“ وہ شخص کہنے لگا : ” اے امیر المو¿منین ! دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی طرف لوگ اپنے دینی معاملات میں رجوع کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔آپ بھی ایسے ہی لوگوں کو اپنا مقرب بنایئے ، وہ آپ کی درست رہنمائی کریں گے۔ اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لیجئے ، وہ آپ کو لغزش سے بچائیں گے “ خلیفہ نے کہا : ” میں نے اس کی کوشش کی تھی مگر وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں “ اس شخص نے کہا : ” انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں آپ انہیں اپنی راہ پر چلنے کے لیے مجبور نہ کریں ، آپ اپنے دروازے کھلے رکھیں ، رکاوٹیں ہٹادیں ،مظلوم کے ساتھ انصاف کریں اور اس پر سے ظلم کا خاتمہ کریں، غنیمت اور صدقات کا مال وصول کرکے ضرورت مند اور مستحقین میں عدل و انصاف کے ساتھ تقسیم کریں تو میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ وہ ہستیاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر امت کی فلاح و بہبود کے لیے آپ کے ساتھ تعاون کریں گی
ابھی گفتگو جاری تھی کہ اس دوران مو¿ذن نے آکر سلام کیا اور اذان دی۔ خلیفہ منصور نماز پڑھ کر اپنی مجلس میں چلا آیا اور اس شخص کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا تو تلاش کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر