سی پیک اور ”مولانا “
شیئر کریں
انور حسین حقی
” بنی گالہ “ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں عوامی جمہوریہ چین کے پاکستان میں متعین سفیر جناب ”سن وی ڈونگ “نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے ملاقات کی ۔ذرائع کے بقول” اس ملاقا ت میں پاکستان تحریک انصا ف کی جانب سے دو نومبر کے مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ عمران خان نے اپنی جماعت کے احتجاج کے حوالے سے حکومتی موقف کو حقائق کے بر عکس قرار دیتے ہوئے چینی سفیر کو بتایا کہ ہمارا دھرنا کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے لیے ہے ۔ ہم پاکستان میں جاری چینی منصوبوں کی نہ صرف مکمل حمایت کرتے ہیں بلکہ سی پیک سمیت تمام منصوبوں کی کامیابی کے متمنی بھی ہیں ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت اس منصوبے کی تکمیل کے لیے بھر پور تعاون کرے گی۔ اس موقع پر عمران خان نے خیبر پختونخوا کی حکومت کے اُن تحفظات کا بھی ذکر کیا جو صوبائی حکومت اور صوبے کے لوگوں کی اکثریت رکھتی ہے۔ انہوں نے عوامی جمہوریہ چین سے کہا کہ کے پی کے کی صوبائی حکومت کے تحفظات کو سنجیدگی سے لیا جانا ضروری ہے“۔۔۔۔
پاک چائنا راہداری منصوبہ خطے کے مستقبل پر دور رس اثرات کا حامل منصوبہ ہے ۔ اس کی علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت مسلمہ ہے اور اس کی افادیت سے بھی کسی کو انکار نہیںہے ۔لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر اس کے روٹ کے کسی حصے پر بات کی جائے یا کسی صوبے کے موقف کو سامنے لایا جائے تو ” ثنا خوانِ تقدیسِ شریف حکومت “ ملک دشمنی اور پاک چائنا کاریڈور کی مخالفت کا فتویٰ داغ دیتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہمارے سیاسی کلچر اور اُس طرزِ عمل کا حصہ ہے جس کے تحت موجودہ حکومت کی مخالفت کو جمہوریت سے دشمنی قرار دیا جاتا ہے ۔ یا جیسے خیبر پختونخوا میں اپنے سیاسی مخالفین کو ” یہودیوں کا ایجنٹ “ قرار دینے کی رسم رائج ہے ۔
ہمارے ہاں سی پیک کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مفادات کا ذکر اس عظیم منصوبے کے خلا ف سازش قرار دی جا رہی ہے ۔ ” اسٹیٹس کو“ کی حامی قوتوں کے اپنے دستور اور ضابطے ہیں ۔ یہ ہمیشہ سے ” ذاتیات “ کو ”اخلاقیات“ قرار دیتے چلے آ رہے ہیں ۔
خیبر پختونخوا کے عوام اور حکومت سی پیک کے مغربی روٹ کے بارے میں اعتراضات اُٹھا رہے ہیں ۔جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اس منصوبے کا آغاز ہوا تھا ، آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں اس کے خدوخال واضح ہوئے اور اسے ” کاشغر گوادر اکنامک اینڈ پاور کوریڈور“ کا نام دیا گیا اُس وقت اس کے مغربی روٹ میں خنجراب، گلگت ، بلتستان ، شاہراہِ قراقرم، تھا کوٹ، بٹگرام، مانسہرہ ، ایبٹ آباد ، حویلیاں ، ہری پور، صوابی ، اور ایم ون سے پشاور کے علاقے شامل تھے لیکن موجودہ حکومت کے بر سرِ اقتدار میں آنے کے بعد اس روٹ میں کیپٹن صفدر اور مولانا فضل الرحمن کی منشاءکے مطابق تبدیلی کر دی گئی ۔
تبدیل شدہ روٹ کی حتمی منظوری سے پہلے وفاقی حکومت نے کیپٹن صفدر کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن کو اس منصوبے کا فضائی جائزہ لینے کے لیے ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیا تھا۔ سی پیک پر وفاقی حکومت نے جس طرح مولانا فضل الرحمن کی خواہشات کا خیال رکھا ہے اور صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور دوسری مو¿ثر قوت اے این پی کو جیسے نظر انداز کیا وہ کسی بھی وفاقی حکومت کو زیب نہیں دیتا ۔ اس منصوبے کے مغربی روٹ پر صوبہ کے پی کے میں بہت زیادہ تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ موجودہ نقشے کے مطابق یہ شاہراہ ہزارہ ڈویژن ( کیپٹن صفدر ) کے علاقے سے گزرتی ہوئی پنجاب میںداخل ہو کر میانوالی کے راستے درےائے سندھ کو عبور کرتی ہوئی کنڈل کے تاریخی قصبے کے قریب سے صوبہ سرحد کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں عین اُس مقام پر داخل ہوتی ہے جس کے چند میل بعد مولانا فضل الرحمن کے آبائی علاقہ عبد الخیل ( پنیالہ ) کی حدود شروع ہو جاتی ہیں ۔ اب اسے مغربی روٹ کہا جا رہا ہے۔ جو ڈی آئی خان سے ہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہوتا ہے اور پنجاب سے پھر ہزارہ کے نزدیک خیبر پختونخوا میں داخل ہو جاتا ہے، اسطرح سے یہ تقریبا15 سے 20 فی صد خیبر پختونخوا میں جائے گا ۔ کمال دیکھیے پہلے مولانا فضل الرحمن او ر ان کی جماعت سڑک کے اس حصے کو شمال مغربی موٹر وے قرار دےتی تھی۔
شریف برادران جس طرح حکومت پر اپنے خاندان اور وفاداروں کے کنٹرول کو ضروری سمجھتے ہیں اسی طرح قومی منصوبوں خاص طورپر اقتصادی معاملات میں اپنے سیاسی اور کاروباری پارٹنرز کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔یہ سبق شاید انہوں نے جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دورِ حکومت کے گورنر پنجاب جنرل جیلانی سے حاصل کیا ہے جس نے اپنے کاروباری پارٹنر میاں نواز شریف کو وہ اہمیت اور فوقیت دی جس پر وہ پاکستانی قوم کو ہمیشہ رہیں گے۔ خیبر پختونخوا کے معاملات ہاتھ سے جانے کے بعد جب سے مولانا فضل الرحمن نے شریف حکومت سے رجوع کیا ہے۔ وہ وفاق کے کنٹرول میں ان تمام معاملات کے مالک اور مختار بن بیٹھے ہےں جو خیبر پختونخوا کا حق اور استحقاق بنتا ہے ۔
پختونخوااولسی تحریک کے سربراہ اور کوریڈور فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر سید عالم محسود اور تحریک کی سرگرم رہنما محترمہ فرزانہ زین جو مغربی روٹ کا مقدمہ لڑنے میں سب سے آگے ہیں ،اب وفاقی حکومت سے با لکل ہی مایوس نظر آتے ہیں ۔انہوں نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے مطالبہ کر دیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو براہ راست خط لکھا جائے جس کے ذریعے پڑوسی اور دوست ملک کو بتایا جائے کہ ہم موجودہ کاریڈور کو ” چائنا پنجاب اکنامک کاریڈور “ سمجھتے ہیں ۔ ہم سے آل پارٹیز کانفرنس ( منعقدہ 15 فروری2016 )میں جو وعدے کیے گئے تھے خاص کر حویلیاں ، صوابی اور پشاور تک روٹ کی تعمیر کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا جا رہا ہے ۔ صوبے میں لوگوں کی اکثریت حیدر خان ہوتی ، محمود خان اچکزئی ، آفتاب احمد شیر پاو¿ کے بارے میں یہ کہنے لگے ہیںکہ جس طرح افغان جنگ کے دوران سرحدی گاندھی کے خاندان نے پختونوں سے منہ موڑ لیا تھا اُسی طرح آج یہ لیڈر بھی ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر پختونوں کے حقوق کے معاملے پر چُپ سادھے ہوئے ہیں ۔ سید عالم محسود اس شاہراہ کے ٹھیکے بغیر ٹینڈر کے پنجاب گروپس کو دینے کو بھی انصاف کے منافی قرار دیتے ہیں ۔ ایسی صورتحال پر محترمہ فرزانہ زین کا یہ تبصرہ غور طلب ہے کہ ” وزیر اعلیٰ پنجاب بڑے طمطراق سے کہتے پھر رہے ہیں کہ چین کو ہماری آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی ۔ لیکن اصل صورتحال کچھ یوں ہو گی کہ آپ کو پنجاب کی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی کہ آپ لوگوں نے چھوٹے صوبوں کی حد سے زیادہ حق تلفی کی اس سے جو نفرت پھیلے گی اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہوں گے ۔
سی پیک منصوبے کے مختلف سیکشنوں پر کام جاری ہے ۔ چھوٹے صوبوں کے تحفظات پر وفاقی حکومت نے ہٹ دھرمی سے کام لیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس عظیم الشان منصوبے کی ساکھ متا¿ثر ہو رہی ہے ۔ عوامی جمہوریہ چین اور اس منصوبے کی ضامن پاکستان کی مسلح افواج کو چھوٹے صوبوں کے تحفظات کو احسن طریقے سے دور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پاکستانی قوم متحد ہو کر اس منصوبے کی مخالف بیرونی اور عالمی طاقتوں کا مقابلہ کر سکیں ۔