
منی پور:پیاز کی زحمت، جوتے سے ذلت
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی کی سرکار ابھی بنی نہیں کہ منی پور کی حکومت چلی گئی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے امریکہ میں تو کچھ ملا نہیں مگر فرانس میں بے عزتی ہوگئی۔ دہلی کے انتخابی نتائج کو ایک ہفتہ ہوگیا ہے ۔ گودی میڈیا ہر روز وزیر اعلیٰ کاایک نیا نام اچھالتا ہے اور لاکھوں روپیہ بنالیتا ہے ۔ اس کے لیے ایک تو بی جے پی سے دان دکشنا ملتی ہے اور پھر ناظرین کا آشیرواد یعنی ویو زکے نتیجے میں یوٹیوب سے اوپرکی آمدنی بھی ہوجاتی ہے ۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم گٹھلیوں کے دام ۔ حد تو یہ ہے فرانس کی ویڈیو اور امریکہ کی ناکامی کو چھپانے کے لیے اچانک وقف بل لانا پڑجائے تو اس میں بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ حزب اختلاف نے اسے جعلی کہہ کر مسترد کردیا اور وزیر داخلہ نے ناک رگڑ کر اس الزام کو قبول بھی کرلیا ۔ اس طرح کہنا پڑے گا کہ بی جے پی کے لیے یہ ہفتہ کمبھ میلے کے لیے لگنے والے طول طویل ٹرافک جام سے کم نہیں تھا۔ اس میں پھنسے ہوئے عقیدتمند وں کے آگے کا راستہ بند تھا اور پیچھے جانے کی گنجائش نہیں تھی۔ ان بیچاروں کے کھانے پینے کا سامان ختم ہوچکا تھا اور استنجا تک کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔ سچ تو یہ ہے پچھلے گیارہ سالوں میں عوام کی یہی حالت ہے مگر میڈیا یہ کہہ کر سرکار کی پیٹھ تھپتھپا تارہتا ہے کہ اس نے ٹرافک جام کا ورلڈ ریکارڈ توڑ دیا ۔ حزب اختلاف اس بد انتظامی کی بات کرتا ہے تو اس پر ہندو سناتن مخالف ہونے کا الزام جڑ دیا جاتا ہے ۔
منی پور کی واردات پر پنچ تنترا کی ایک دلچسپ کہانی صادق آتی ہے ۔ کسی زمانے میں امیت شاہ جیسے ایک مجرم کا جرم ثابت ہوگیا ۔ وہ جمہوریت کا دور تو تھا نہیں کہ عدلیہ پر دباو ڈال کر یوگی جی کی مانند خود ہی کلین چِٹ لے لی جاتی ۔ بادشاہ نے خود دو متبادل رکھے ‘ سو جوتے یا سو پیاز کھاو’۔چتور بنیا مجرم دور اندیش نہیں تھا۔ وہ پیاز کھانے کی زحمت کا اندازہ کیے بغیر جوتوں پر راضی ہوگیا مگر آدھی پیاز کھاتے کھاتے حالت خراب ہوگئی ۔ اس نے بادشاہ سے کہا اب برداشت نہیں ہوتا اس لیے جوتے مار کر خلاصی کردیں ۔ بیس ماہ قبل بیرین سنگھ کو برخواست کردیا جاتا تو اب صدر راج نافذ کرنے کی نوبت نہیں آتی اوروہ ظلم و ستم بھی نہیں ہوتا جس سے متعلق یکم اگست2024 کو خود وزیر اعلیٰ نے ریاستی اسمبلی میں کہا تھا کہ مئی 2023 سے جاری نسلی تنازعہ میں 226 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 39 اس وقت تک لاپتہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 11133 گھر جلا دیے گئے اور 11892 تشدد کے معاملے درج کیے گئے ۔ اس وقت تک 59414 لوگ ریلیف کیمپوں میں تھے اور 5554 لوگوں کی زراعت سے متعلق زمین بھی متاثر ہوئی تھی ۔
مرکزی حکومت اگر شروع میں ہی بیرین سنگھ کی چھٹی کردیتی تو بی جے پی ڈبل انجن سرکار کی بدنامی کے بجائے الٹا تعریف و توصیف ہوتی۔دنیا کہتی مرکزی حکومت نے فوراً اقدام کرکے حالات کو بگڑنے سے بچا لیا لیکن اب یہ حالت ہے ‘نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہوئے ‘۔سوال یہ ہے کہ شاہ جی سے اتنی بڑی غلطی کیوں ہوئی ؟ اس کی وجوہات ہیں سب سے اہم اقتدارکی رعونت بھری بے حیائی ہے ۔ گجرات کے اندوہناک فساد پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ انتخابی مہم کے دوران اس کا اظہار کرچکے ہیں۔ ایک ایسے فساد کی بابت کہ جس میں تقریباً دوہزار لوگوں نے جان گنوائی اور ہزاروں زخمی ہوئے ، جو ساری دنیا میں تنقید کا سبب بنا اور سابق وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی پر جس کی وجہ سے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگ گئی ، ملک کا وزیر داخلہ فخر جتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسا سبق سکھایا کہ پھر فسادات بند ہوگئے ۔ ویسے تو یہ جھوٹا دعویٰ لیکن دنگا فساد کو امن قائم کرنے کا ذریعہ سمجھنا اپنے آپ میں ایک گھٹیا اور مجرمانہ سوچ کی علامت ہے ۔
منی پور میں بیرین سنگھ نے جو یکطرفہ جانبداری دکھائی اس سے کوکیوں کا اعتماد پوری طرح ختم ہوگیا اور اس کے سبب امن و امان قائم کرنے کے سارے امکانات ختم ہوگئے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ، وزارت داخلہ نے اکتوبر 2024 میں میتیئی، کُوکی اور نگا برادریوں کے تقریباً 20 ایم ایل اے کو تشدد کے ڈیڑھ سال بعد پہلی مرتبہ یکجا کیا تاکہ ممکنہ حل پر گفتگو ہوسکے ۔ مذکورہ بالا میٹنگ کے حوالے سے مرکزی حکومت کی سرد مہری کا یہ عالم تھا اس میں بی جے پی کے رکن پارلیمان سمبت پاترا اور وزارت کے سینئر افسران تو موجود تھے مگر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اورریاست کے وزیر اعلیٰ و داخلہ کو ان کا احساسِ جرم ان کے پیروں کی بیڑی بن گیا اور وہاں آنے کی جرأت نہیں کرسکے ۔ اس کے بعد 10 دسمبر 2024 کو ٧بی جے پی کے کوکی ارکان اسمبلی نے نئی دہلی کے جنتر منتر پراپنی ہی مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرکے پہاڑی علاقوں کی خاطر الگ انتظامیہ کا مطالبہ کردیا ۔مذکورہ بالا احتجاج کے بعد امسال جنوری میں وزارت داخلہ کے حکام نے کُوکی نمائندوں کے ساتھ دہلی میں ایک میٹنگ اور ان کاایک نیا وفاق بنا کر یہ واضح پیغام دیا کہ سیاسی گفتگو اور حل کے بعد جب ریاست میں تشدد کا مکمل خاتمہ ہوجائے تو اس کے بعد ہی علیحدہ انتظامیہ کے مطالبے پر غور کیا جائے گا۔فی الحال نوبت یہ آگئی ہے کہ خود بی جے پی ایم ایل اے پاؤلین لال ہاؤکیپ کے مطابق اگر کسی کوکی کو وزیر اعلیٰ بنادیا جائے تب بھی حالات نہیں سدھریں گے ۔ ویسے نئے وزیر اعلیٰ کے تقرر کی خاطر دہلی میں بی جے پی ارکان اسمبلی کی جو نشست ہوئی اس میں کوکیوں کو بلانے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ یہ بھی باہمی عدم اعتماد کا ایک ثبوت ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے منی پور میں ایک نہایت خطرناک کھیل کرکے اپنی ذاتی اور پارٹی کی حالت مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے میتئی دہشت گردوں کو سرکاری اسلحہ تقسیم کرکے یہ جھوٹ مشہور کردیا کہ وہ لوٹ لیا گیاہے ۔ اول تو ہتھیاروں کا پولیس تھانوں سے لوٹا جانا ایک ناقابلِ فہم بات ہے دوسرے انہیں واپس لانے میں مجرمانہ کوتاہی اس کی چغلی کھاتی ہے ۔ بی جے پی کو امید رہی ہوگی کہ ان ہتھیاروں سے میتئی سماج کوکی عسکریت پسندوں سے لڑے گا لیکن وہ نہیں ہوسکا الٹا بیرین سنگھ کی یہ وفادار مافیا میتیوں سے اپنے آقا اور پارٹی کے لیے وصولی کا کاروبار کرنے لگی۔اس احمقانہ حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی نے کوکیوں کے ساتھ میتیوں کی ہمدردی بھی گنوادی ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسمبلی کے اندر ساٹھ میں سے پانچ نشستیں جیتنے والی کانگریس نے قومی انتخاب میں دونوں نشستوں پر بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کردیا ۔بیرین سنگھ نے جب کوکیوں کے ساتھ میتیوں کا بھی اعتماد گنوادیاتو ان کی قیادت میں امن و امان قائم کرنے کے امکانات مفقود ہوگئے یہاں تک کہ اسمبلی کا اجلاس بھی ناممکن ہوگیا ۔ پچھلے سال اگست میں منی پور اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا اور وہ بغیر کسی ٹھوس کام کاج کے ختم ہوا مگر کم ازکم٦ ماہ کے اندر اجلاس کی رسم ادا ہوگئی۔ اس بار اجلاس سے قبل کانگریس نے عدم اعتماد کی تجویز پیش کرکے بی جے پی کے لیے مشکلات کھڑی کردی۔ اس پر پہلا ردعمل تو یہ تھاکہ کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اسمبلی میں بی جے پی نے 32، کانگریس نے 5، جے ڈی یو نے 6، ناگا پیپلز فرنٹ نے 5 اور نیشنل پیپلز پارٹی نے 7 سیٹیں تھیں نیز 2 پر کوکی پیپلز الائنس اور اور 3 نشستوں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔
اسمبلی انتخابات کے فوراً بعد، جنتا دل (یو) کے 6 میں سے 5 ایم ایل ایز بی جے پی میں شامل ہو گئے ، اس لیے ان کے ممبران کی تعداد 37 ہو گئی۔ بی جے پی نے دیگر علاقائی جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ کرکے زبردست اکثریت حاصل کرلی۔ این پی پی کے 7 اور جے ڈی یو کے ایک رکن اسمبلی نے حمایت واپس لینے سے اس دیوار میں پہلی دراڑ پڑی۔ اس کے بعد بی جے پی کے سات ارکان اسمبلی سمیت دس کوکی ارکان کے سرکار کے خلاف بغاوت کرنے سے اعتماد کا ووٹ خطرے میں پڑگیا۔ اس سے قبل معاملہ انسانیت کا تھا کیونکہ امن و امان کو خطرہ لاحق تھا مگر اب تو اقتدار خطرے میں پڑگیا ۔ بس پھر کیا تھا بی جے پی ہائی کمان کی نیند اڑ گئی کیونکہ ان کے لیے سرکار بنانا بگاڑنا ہی اوڑھنا بچھونا ہے ۔ اپنی سرکار کو خطرے میں دیکھ کر امیت شاہ نے بیرین سنگھ کو دہلی میں بلا بھیجا ۔ اپنے آقا کی بجا آوری میں بیرین دوڑے چلے آئے مگر امیت شاہ خود کسی اور جوڑ توڑ میں مصروف تھے ۔ ایسے میں غالباً بیرین سنگھ کو اپنے کالے کارناموں پر ندامت ہوئی تو انہوں نے سوچا موقع اچھا ہے کیوں نہ کمبھ میں ڈبکی لگاکر سارے پاپ دھل دئیے جائیں اس لیے وہ پریاگ راج پہنچ گئے ۔ وہاں سے پاک صاف ہوکر دہلی پہنچے تو سوچا ‘سردار کھوس ہوگا ، ساباسی دے گا’ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بیرین سنگھ سے استعفیٰ لے کر ان کو کوڑے دان کی نذر کردیا گیا اور اس طرح منی پور کی تاریخ کا ایک تاریک باب بحالتِ مجبوری بند ہوگیا ۔سیاسی گلیارے سے بیرین سنگھ بے رنگ لوٹا دئیے گئے ۔