میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغان طالبان ‘روس و چین میںروابط ‘خطے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ

افغان طالبان ‘روس و چین میںروابط ‘خطے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۴ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

بھارت کی جانب سے ابھی مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا کہ چمن کے بارڈر پر افغان فوج کے ذریعے مغربی سرحد کو گرم کرنے کی سازش کی گئی۔چمن کے بارڈر کے نزدیک ایک گاﺅں میں مردم شماری میں مشغول پاکستانی ٹیم پر فائرنگ کرکے بارہ کے قریب پاکستانیوں کو شہید کردیا گیاجن میں ایف سی اہلکار کے ساتھ ساتھ معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیںجبکہ متعدد پاکستانی ان حملوں کے نتیجے میں زخمی بھی ہوئے ہیں، اطلاعات کے مطابق پاکستان کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں متعدد افغان فوجی مارے گئے اور ان کی کئی چوکیاں تباہ کردی گئی ہیں۔ جبکہ چمن اور طورخم کی سرحد کو ایک بار پھر بند کردیا گیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریبا 2600کلومیٹر طویل بارڈر ہے جس میں سے گیارہ سو کلومیٹر سے زائد حصہ صرف بلوچستان کے ساتھ متصل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گزرگاہ کے طور پر بہت سی چوکیاں ہیں لیکن اس میں چمن بارڈر کا حصہ زیادہ مصروف شمار کیا جاتا ہے جہاں آمد ورفت کے لئے دونوں جانب سے ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر حصہ لیتے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب ایک طرف افغانستان میں قیام امن کی کوششیں عروج پر ہیں دوسری جانب حزب اسلامی کے لیڈر حکمت یار افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچ چکے ہیںاور افغان طالبان سے عسکری جدوجہد ترک کرکے سیاسی بنیادوں پر مسائل کے حل کے لئے اپیلیں کررہے ہیں۔حکمتیار کی یہ کوششیں کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں اور آیا افغان طالبان سے جنگ بندی کی اپیل صحیح اقدام ہے اس کا فیصلہ جلد آنے والا وقت کردے گا۔ کیونکہ افغانستان کی تاریخ کا سبق ہے کہ یہاں کبھی امن مذاکرات کے ذریعے نہیں آیا بلکہ بندوق کے ذریعے نافذ کیا گیا ۔ اس کی بڑی مثال نوے کی دہائی میں افغان طالبان کی تحریک کا ابھرنا اور پھر پے درپے جنگی کامیابیوں کے بعد افغانستان کے طول وعرض میں امن نافذ کرنا تھا جسے امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں نے نائن الیون کے ڈرامے کو بہانہ بناکرسبوتاژ کردیا تھا۔ چمن بارڈر پر افغانستان کی جانب سے جارحیت کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں کابل انتظامیہ سے زیادہ بھارت کی ایما نظر آتی ہے جو پاکستان پر مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں سے بھی دباﺅ بڑھنا چاہتا ہے۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر پاکستان بھارت کی اس چال کا مقابلہ کرنے میں اس لیے ناکام ہے کہ پاکستان میں جان بوجھ کر خارجہ امور کا قلمدان خالی رکھا گیا ہے۔ نون لیگ کی اس مجرمانہ غفلت کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ صرف وطن عزیز ہی نہیں بلکہ خطہ اور باقی تمام دنیا اس وقت تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر کھڑی ہے جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان واقع پاکستان انتہائی تزویراتی اہمیت کا حامل ہوچکا ہے ۔اس تمام تر اہمیت کی وجہ سے وطن عزیز بھارت اور امریکا کے ساتھ ساتھ دیگر بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔
امریکا افغانستان میں بھارت کے پیر جمانے میں اس لیے مشغول تھا کہ اس کے جانے کے بعد افغانستان کا محاذ پاکستان اور چین کے لیے خالی نہ چھوڑا جائے۔ اسی مقصد کے تحت اسلام آباد پر این آر او زدہ سیٹ اپ مسلط کروائے گئے کہ پاکستان کے دفاعی اداروں کی مرضی سے ہٹ کر کابل اور دہلی کے لیے محبت کی پینگیں بڑھائی جائیں۔ زرداری صاحب کابل کے ساتھ ”عہدوفا“ نبھاتے رہے اور اب میاں نواز شریف صاحب دہلی پر قربان ہوئے جارہے ہیں۔انہیں نہ اپنے منصب کا کچھ خیال ہے اور نہ ہی ملک قوم کے مفاد کا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ”سیٹ اپ“ پر جب داخلی طور پر دباﺅ بڑھتا محسوس کیا جاتا ہے بھارت مغرب اور مشرق سے عسکری دباﺅ میں اضافے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے داخلی امور کو مشرقی اور مغربی سرحد سے پار کے معاملات کے ساتھ جوڑ کر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
چمن واقعے کے حوالے سے اگر یہ اندازہ لگایا جائے کہ اس میں کابل انتظامیہ کی رضا شامل ہے تو غیر مناسب ہوگا کیونکہ کابل کے صدارتی محل میں جو شخص بیٹھا ہے وہ کابل کے امور پر بھی پوری طرح حاوی نہیں کجا کہ پورا افغانستان۔۔۔ اگر کابل کی کٹھ پتلی اشرف غنی انتظامیہ اس قدر ہی ”بااختیار“ ہوتی تو امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ مزید پانچ ہزارامریکی فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان نہ کرتی اور نہ ہی برطانیہ نیٹو کے دیگر ملکوں کو افغانستان فوج بھیجنے کے لیے قائل کرنے کی کوششوں کا حصہ بنتا۔ اس وقت عملاً افغانستان بھارت کی ایک طفیلی ریاست بنادیا گیا ۔ یہ ایک ایسا سیٹ اپ ہے جسے سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے تشکیل دیا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی داعش کا بیج بھی افغانستان میں پھینک دیا گیا تاکہ افغان داعش کے ذریعے افغان تحریک طالبان کو اسی انداز میں ٹھکانے لگایا جائے جس انداز میں شام اور عراق میں داعش کے ذریعے وہاں کی مزاحمتی قوتوں پر ضرب لگائی گئی ۔شام کی صورتحال تو یہ ہے کہ وہاں داعش نے اسد انتظامیہ کی بجائے ان مزاحمتی قوتوں کو نشانہ بنایا جو اسد انتظامیہ کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس ہو یا افغان نیشنل آرمی کے نام پر عسکری جتھہ، یہ سب وہاں بھارت کے خوشہ چیں ہیں، اس سے ہٹ کر ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں،نہ یہ کوئی کارروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ثابت ہوچکا کہ این ڈی ایس بھارتی را کا ایک ذیلی ادارہ ہے جسے کابل کے بجائے دہلی سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں افغان طالبان کے تابڑ توڑ حملے اور شمالی افغانستان میں بڑے حصے کا افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کے ہاتھوں سے نکل جانا بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا کے لیے بھی بڑا خطرہ سمجھا جارہاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کے ساتھ روس اور چین کے بڑھتے ہوئے مراسم نے ثابت کردیا تھا یہ ملک جلد بڑی قوتوں کی بین الاقوامی پراکسی کے ساتھ ساتھ داخلی جنگی سرگرمیوں کا مرکز بننے جارہا ہے۔امریکا افغانستان میں روس کے ہاتھوں مزید ذلیل ہونا نہیں چاہتا اور روس کسی طور بھی امریکا سے پرانا حساب بے باک کرنے سے ٹلتا نظر نہیں آتا۔یہ نازک صورتحال آنے والے دنوں میں خطے میں ایک بڑی عسکری، سیاسی اور سفارتی کشمکش کا پتا دے رہی ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ اس نازک ترین موڑ پر پاکستان کی مضبوط اور ٹھوس خارجہ پالیسی کا نہ ہونا بڑی بدقسمتی ثابت ہو سکتا ہے۔کیونکہ نواز حکومت نہ صرف خارجہ بلکہ داخلی معاملات سے بھی پوری طرح الگ نظر آرہی ہے اسے پاناما لیکس اور ڈان لیکس کے اسکینڈلز کی زیادہ فکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جاری کشیدگی کے باوجود وزیر دفاع کا کہیں کچھ پتا نہیں۔ یہ وہ وزیر دفاع ہے جو پاناما کیس کی سماعت کے لیے روز سپریم کورٹ جاتا ہے لیکن سرحدوں پر اپنے فوجیوں سے ایک ملاقات کرنے کی بھی توفیق نہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوف ملک قوم کے دفاع سے زیادہ پاناما لیکس اور ڈان لیکس کے دفاع کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔۔۔ باقی وزراءکا بھی اسی طرح اللہ حافظ ہے۔
ماضی قریب میںایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ محسوس ہونے لگا کہ افغان جنگ کا حتمی مرحلہ آن پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بین الاقومی سطح پر عالمی سفارتی حلقے متحرک ہوچکے تھے بلکہ خطے کے علاقائی ممالک میں بھی خاصی تیاری پائی جاتی تھی۔ ذرائع کے مطابق ایک بڑے دوست عرب ملک کی جانب سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت کے لیے آمادگی ظاہر کردی گئی تھی۔ دوسری جانب ایران بھی افغانستان میں مستقبل کی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی سعی کررہا تھا، اس رخ سے اگر معاملات کو دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی کاوش نظر آتی تھی جو خطے میں امن وسلامتی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوتی۔ ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ ان دنوں روس میں جو عسکری مشقیں ہوئیں وہ عالمی سطح پر ایک بڑی اور نئی تبدیلی کا پتا دے رہی تھیں۔
عرب تجزیہ نگاروں کے مطابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس میں ان دنوں سب سے بڑی عسکری مشقیں کی گئی تھیں جو براہ راست روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی نگرانی میں ہوئیں اور پوٹن نے ان مشقوں میں بری فوج کے کمانڈر کے طور پر حصہ لیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ روس نے جوہری ہتھیاروں سے لیس بیلسٹک میزائلوں کے بھی تجربات کیے ۔ اس کے ساتھ ہی صدر پوٹن نے اعلان کیا تھا کہ حکومت روسی اسلحہ سازی کو جدید ترین تقاضوں سے ہم آہنگ کررہی ہے ۔ اس اعلان کے بعد بین الاقوامی مبصرین کا خیال ہے کہ روس ایک مرتبہ پھر امریکا کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ اور سرد جنگ کے مرحلے میں داخل ہونے کی تیاری کررہا ہے۔ امریکا کے ساتھ روسی سرد جنگ کا نکتہ آغاز امریکا کی جانب سے میزائل شیلڈ نام کے منصوبے کا اجرا تھا جس کے تحت روس سے جغرافیائی طور پر قریبی ممالک میں امریکا دور مار میزائل نصب کرنا چاہتا تھا ۔ اس سلسلے میں پہلے پولینڈ اور اس کے بعدجارجیا کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن روس کی سخت مزاحمت کے بعد فی الحال امریکا کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ اس سارے منظر نامے میں امریکا کو ایک وجہ سے فوقیت حاصل تھی کہ وہ افغانستان میں حالت جنگ میں تھا یعنی روس کے قریبی علاقے میں امریکا پوری طرح نہ صرف جنگی طور پر فعال تھا بلکہ اس کے ساتھ یورپ یعنی نیٹو کی تمام جنگی قوت اور اسرائیل اور بھارت کی عسکری وانٹیلی جنس معاونت بھی شامل تھی۔ لیکن امریکا کی بدقسمتی کہ افغان طالبان نے ان تمام ”خصوصیات“ پر پانی پھیر دیاتھا۔عرب صحافتی ذرائع کے مطابق اب صورتحال یہ ہے کہ امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحاد نیٹو کو جہاں افغان طالبان نے داخلی طور پر بری طرح شکست سے دوچار کردیا ہے وہیں پر بڑھتے ہوئے روس کے بیرونی عسکری رعب سے بھی امریکا خائف ہے اور روسی عسکری مشقیں اس بات کی جانب واضح اشارہ تھیں کہ روس نے امریکا کو سخت پیغام دے دیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو روس کے لیے کمزوری تصور نہ کرے ۔ روس کے نائب صدر دیمتری بیسکوف کا کہنا تھا کہ روس کی عسکری کمانڈ نے ان عسکری مشقوں کے دوران جدید ترین جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو بھی نئے سرے سے ترتیب دیا ہے، انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ روس کی بری، بحری اور فضائی فوج میں جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی نئی حکمت عملی وضع کی گئی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مربوط اور سریع الحرکت ہے۔عرب صحافتی ذرائع کا خیال ہے کہ روس کی جانب سے کیے جانے والے ان اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک طرف امریکا کو اب افغانستان سے شکست خوردہ ہوکر نکلنے پر مجبور کردے گا تو دوسری جانب وہ مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اسرائیل کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ یہاں صرف امریکاکی نہیں چلے گی بلکہ روس مشرق وسطیٰ میں بھی اپنا ستر کی دہائی والا کردار ادا کرنے کے لیے دوبارہ فعال ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے روس میں امریکا کے امدادی اداروں اور این جی اوز کو بھی وہاں سے بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دیا گیا تھاتاکہ روسی عوام کو امریکا اور مغرب کے روایتی ہتھکنڈوں سے محفوط کیا جائے اور روس کو اس کی جغرافیائی سرحدوںکے اندر پہلے محفوظ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں نہ صرف چین بلکہ روس کے لیے بھی نائن الیون کے ڈرامے کے بعدوہ بارہ برس انتہائی قیمتی تھے جن کے دوران امریکا نے افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی تھی۔ اب افغانستان کی صورتحال مکمل طور پر امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کے ہاتھوں سے پھسلتی ریت کی طرح نکل چکی ہے۔
عالم اسباب کے عادی اس جہان میں رہنے والے باسی اس بات پر حیران تھے کہ دنیا کی واحد سپر طاقت جس کے جلو میں یورپ کا تمام تر عسکری اتحاد نیٹو کی شکل میں کھڑا تھا ان خرقہ پوش طالبان کے ہاتھوں کیسے مار کھانے لگی۔ 2005ءکے بعد جو صورتحال افغانستان میں بدلنا شروع ہوئی تو اس نے روز بروز اس میں اضافہ کرنا شروع کردیا۔ اس دوران پاکستان میں اقلیتی لبرل طبقے اور لبرل سیاسی جماعتوں کو بھی اندیشے لاحق ہوئے۔ جس کے توڑ کے لیے امریکا ، اسرائیل اور بھارت نے ”پاکستانی طالبان©©“ کے نام سے ایک اور ”مکتی باہنی“ تشکیل دی اور پاکستان میں قتل وغارت کا بازار گرم کروا دیا جس کی گواہی ٹی ٹی پی کے منحرف رکن احسان اللہ احسان کے ان اعترافات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح بھارت اور امریکا اس دہشت گرد تنظیم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔
عالمی سطح پر بدلتی ہوئی اس صورتحال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے، بلاشبہ یہ ایک افسوسناک سوال ہے۔ تاریخ کے اس نازک ترین دور میں پاکستان جیسے اہم ملک کی باگ دوڑ جن کے ہاتھ میں ہونی چاہیے تھی، ان کا تصور ہی خواب بن چکا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کی قربانیوں سے پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوتی رہی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اب بھارت اپنے صہیونی سرپرستوں کی نگرانی میں مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد پر بھی دباﺅ بڑھا رہا ہے، جس کا عملی مظاہرہ چمن بارڈر پر حالیہ حملہ ہے۔ آئندہ ایسی کسی بھی کوشش کے نتیجے میںپاکستان کے عسکری اداروں کو افغان بارڈر کے اندر گھس کر کارروائی کا پورا حق محفوظ رکھنا ہوگا۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں