![بھوک سے بڑھ کر کوئی دوسری آفت نہیں!](https://juraat.com/wp-content/uploads/2025/01/آفتاب-احمد-خانزادہ.jpeg)
بھوک سے بڑھ کر کوئی دوسری آفت نہیں!
شیئر کریں
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیامیں غربت اور بھوک سے بڑھ کر کوئی دوسری آفت اورمصیبت ہی نہیں ۔ وکٹر ہیوگو نے اپنے شاہکار ناول ”Les Miserables” میں بنی نوع انسان کے سب سے بڑے مسئلے کو پیش کیاہے اور وہ مسئلہ ہے بھوک اور غربت، اس ناول کا مرکزی کردار والجین ایک فرانسیسی نادار انسان ہے ۔ یہ وہ انسان ہے جو دنیا کے ہر خطے ہر شہر اور ہر گائوں میں بستاہے والجین غریب ہے اور شرافت کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے وہ محنتی ہے ۔ سادا دل ہے قانون کا احترام کرتا ہے لیکن وہ جس سماج اور معاشرتی نظام میں زندہ ہے اس میں اس کی تمام ترکوششوں ، ذلتوں اور ناکامیوں کے باوجود روٹی نہیں ملتی کہ وہ اپنا او ر اپنے بھوکے بچوں یا اپنے پیاروں کا پیٹ پال سکے اسے کام سے ہر گز عار نہیں ہے ، وہ چھوٹے سے چھوٹا اور حقیر سے حقیر کام کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اسے کام نہیں ملتا اور وہ آخر کب تک فاقے سہہ سکتاہے کب تک اپنے کسی معسوم بچے کو بھوک سے بلبلا تے اور اپنی عزیزہ کو بیماری میں سسکتے دیکھ سکتاہے ۔ جب سماج ایسا ہو نظام اتنا مکروہ ہو توپھر انسان مجبور ہوجاتاہے ۔اسی مجبوری میں والجین روٹی چراتا ہے اور پکڑا جاتاہے۔ اس کے بعد اس کے گھرو الوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ، اسے روٹی چرانے کے جرم میں سخت سزا دی جاتی ہے ۔وہ جیل سے بھاگ جانے کی کو شش کرتاہے، ناکام رہتا ہے، جس پر اس کی سزا میں اور اضافہ ہوتا چلاجاتاہے لیکن وہ بالا خر وہ بھاگ جانے میں کامیاب ہو ہی جاتاہے ۔
جیل سے فرار ہوتے ہی اب اس کا اور پولیس کا تعاقب شروع ہوجاتا ہے انسانی معاشرہ ، قانون اور اخلاق یہ تک سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اس نے آخر روٹی کیوں چرائی تھی پورا نظام یہ ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں کہ ایک اسنان کو روٹی مل سکے ۔ والجین ایک دہشت کی طرح ہے لوگ اس کے فرار کی خبر سن کر خو فزدہ ہوجاتے ہیں اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ۔ وہ جاگیر دار کے کتوں کی کوٹری میں سو نے کی کوشش کرتا ہے اور نکال دیا جاتا ہے ایک پادری اسے اپنے ہاں رات گذارنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ اسی پادری کے سونے کی شمعدان چرا کر بھا گ جاتاہے لیکن یہ ہی پادری اس کی زندگی بدل دیتا ہے کیونکہ والجین جب مسروقہ اشیاء کے ساتھ پکڑاور پادری کے سامنے لایاجاتا ہے تو پادری کہتا ہے کہ شمعدان اس نے والجین کو تحفے میں دیے تھے۔ پادری کے اس حسن سلوک سے نیک بننے ، پرسکون زندگی گزارنے ، دوسرے انسانوں کے کام آنے کی پرانی خواہش پھر والجین کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے وہ ان شمعدانوں کو بیچ کر ظروف سازی کا کارخانہ لگاتاہے اوراپنی کھوئی ہوئی بیوی کی تلاش میں نکلتا ہے جس پر زمانہ اتنے ستم ڈھاچکا ہے کہ جس کی تفصیل ہماری زندگیوں اور سماج کے لیے اجنبی نہیں ،اپنی نیکی ، خدا ترسی اور انسان دوستی کی وجہ سے وہ انتہائی شہرت حاصل کرتا ہے اب سماج اسے عزت دیتا ہے اور وہ شہر کا میئر چن لیاجاتا ہے لیکن قانون کو اس کی سماجی اورانسانی خدمات سے کوئی سروکار نہیں۔ قانون اس کی تلاش میں ہے اور ایک دن اس تک پہنچ ہی جاتا ہے، ناول میں ایک انسپکٹر کاکردار بھی ہے ۔وہ والجین کی انسانی عظمت سے اتنا متاثر ہوتاہے کہ اسے گرفتار کر نے کے بجائے خود کشی کرلیتا ہے۔ یہ ناول جب سے لکھاگیا ہے تب سے اب تک زندہ ہے اور جب تک انسان روٹی کے لیے تڑپتا اوربلکتا رہے گا یہ ناول زندہ رہے گا۔
اگر یہ کہاجائے کہ آج پاکستان میں ہر دوسرا انسان والجین ہے تو یہ کہنا جھوٹ نہ ہوگا۔ آپ ملک کے شہر شہر ، قصبے قصبے ، گائوں گائوں گھوم کر دیکھ لیں آپ کو ہر جگہ والجین روٹی کے لیے مارا مارا پھرتا مل جائے گا ۔ پیوند لگے کپڑوں میں ، مٹی سے لدے ننگے پائوں میں زرد آنکھوں اور خاک سے بھرے سر میں والجین اپنے ، اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کے لیے ذلیل و خوار ہوتا ہوا تڑپتا اورسسکتا ہوا روتا ہوا نظر آجائے گا ۔ باربار سنہرے خواب دکھا دکھا کر باربار جھوٹے وعدوں اور دعو ئو ں کے بعد باربار جھوٹی اور مصنوعی تسلیوں کے بعد باربار کھوکھلی امیدوں کے بعد 76 سالوں کی بے معنی ذلت اورتذلیل سے بھری بے مقصد زندگی کے بعد بالا خر ہمیں ایسی منزل پر لاکھڑا کر دیاگیا ہے جہاں چاروں طرف صرف غربت ، بھوک ، افلاس، بیماریاں ، جہالت ، گندگیاں ،ذلت اورگالیاں ہمیں دبو چے کھڑی ہیں اور ستم تو دیکھو کہ باربار ہمیں یہ یقین دلایاجارہاہے کہ یہ ہی وہ منزل ہے جس کے تم حقدار ہو ،یہ ہی تمہارا نصیب ہے اوریہ ہی تمہارا مقدر ہے ۔ آج ہم سب ایسی جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں آگے گھپ کالے اندھیروں والی کھائی ہے اور ہمارے پیچھے موٹی موٹی توندوں والے کرپٹ، راشی ، بے حس ، ظالم ،مکرو ہ لٹیروں کا غول کھڑا قہقہوں پہ قہقہے لگارہاہے اور ساتھ ہی ساتھ موٹی موٹی گالیاں بھی دے رہا ہے۔ جب ہم پیچھے جانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ غول ہمیں واپس آگے دھکیل دیتا ہے۔ کیا یہ ہی وہ منزل ہے جس کی کوششیں او ر جس کی خواہش ہم نے مل کر کی تھی ؟کیا ایسی ذلت اور تذلیل بھری زندگی کو ئی انسان گزار سکتاہے جیسی ہم سب گزار رہے ہیں؟ کیا ایسے سماج کو آگ نہیں نہیں لگا دینی چاہیے جو انسانوں کو اتنا ذلیل و خوار کرے؟ کیا ایسے سماج کی ہر خوبصورت چیزپر تیزاب نہیں ڈال دینا چاہیے جن پر صرف چند ہزارلوگوں نے جبری قبضہ کررکھاہے ؟