تعلیم کا عالمی دن 2025 مصنوعی ذہانت کا سال ہے
شیئر کریں
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
تین دسمبر 2018 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی جس میں 24 جنوری کو تعلیم کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا. تعلیم کا عالمی دن کی منظوری نائجیریا اور 58 دیگر رکن ممالک کے تعاون سے سب کے لیے جامع، مساوی اور معیاری تعلیم کے لیے تبدیلی کے اقدامات کی حمایت کرنے کے لیے غیر متزلزل سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تعلیم مستحکم معاشروں کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور دیگر تمام ترقی کے اہداف کے حصول میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔
ترقی کے اہداف کے حصول کی کوششوں کی حمایت میں بین الاقوامی تعاون کو بڑھانے کے مقصد سے قرارداد میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول رکن ممالک اقوام متحدہ کے نظام کی تنظیموں اور سول سوسائٹی، غیر سرکاری تنظیموں، تعلیمی اداروں، نجی اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ تعلیم کا عالمی دن منائیں. یونیسکو تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے طور پر شعبہ تعلیم کے اہم افراد کے ساتھ مل کر اس دن کو سالانہ منانے کی سہولت فراہم کرتا ہے. 24 جنوری 2019 کو تعلیم کا پہلا عالمی دن منایا گیا۔
اقوام متحدہ کا پیغام پوری دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کی مخلصانہ کوششوں نے ایک ایسے تعلیم یافتہ فرد کی بہتری کے لیے امید افزا نتائج ظاہر کیے ہیں جو ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کرتا ہے. تعلیم ایک انسانی حق، عوامی بھلائی اور اجتماعی ذمہ داری ہے. تعلیم کے عالمی دن پر اقوام متحدہ کا سائنسی ثقافتی اور تعلیمی ادارہ یونسکو دنیا بھر میں نفرت پر مبنی اظہار کے پھیلاؤ کو روکنے میں اساتذہ کے بنیادی کردار کو اجاگر کر رہا ہے. اس دن پر یونیسکو نے کہا ہے کہ تعصب تفریق اور تشدد کو ہوا دینے والے بیانیوں کا مقابلہ کرنے میں تعلیم کی خاص اہمیت ہے۔
تعلیم کے عالمی دن پر یونسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے آزولے Audrey Azoulay نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ تعلیم کو انسانی وقار اور امن کی اقدار کے فروغ کا ترجیح ذریعہ بنانے کی اشد ضرورت ہے. اگر نفرت الفاظ سے شروع ہوتی ہے تو امن کا آغاز تعلیم سے ہوتا ہے۔
انسان جو کچھ سیکھتا ہے اس سے دنیا کے بارے میں اس کا نقطہ نظر تبدیل ہو جاتا ہے اور تعلیم سے ہی یہ تعین ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کیسا طرز عمل روا رکھتے ہیں.
اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے یونسکو کے مطابق تعلیم کے میدان میں کئی دہائیوں سے ہونے والی ترقی کے باوجود 25 کروڑ سے زیادہ بچے اور نو عمر افراد اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں.
بین الاقوامی یوم تعلیم 2025 کا تھیم ہے AI اور تعلیم: آٹومیشن کی دنیا میں انسانی ایجنسی کا تحفظ
"A I and Education :
Preserving Human Agency in a world of automation”
مصنوعی ذہانت اور تعلیم چیلنجز اور مواقع یہ تھیم تعلیم کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرتی ہے تاکہ لوگوں کو مہارتوں اور علم سے آراستہ کیا جا سکے شعبہ تعلیم میں مصنوعی ذہانت وہ موضوع ہے جو اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث ہے. مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ایسے ڈیجیٹل پروگرام مرتب کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے طالب علم کی تعلیمی استطاعت مہارت حصول علم کی رفتار اہداف تک رسائی وغیرہ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت پر مبنی سسٹم استاد کے بغیر بھی طلبہ کی مشکلات کو دور کر سکتا ہے. اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ فوری طور پر جواب دے سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے مواد کی ترقی، نصاب کی ڈیزائننگ آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز اور انتظامی کاموں کے لیے اے ائی کی مہارتوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ اے ائی تحقیقی مقالے ترتیب دینے میں پریزنٹیشن اور نوٹس بنانے اور دیگر انتظامی کاموں کے لیے کار آمد ہے۔
اے ائی ایک کثیر الضابطہ فیلڈ ہے جو کمپیوٹر سائنس، ریاضی، انجینیئرنگ اور علمی سائنس کو یکجا کر کے ایسی ذہین مشین بناتی ہے جو انسانوں اور ماحول کے ساتھ تعامل کر سکیں۔ یونیسکو کا قیام 16 نومبر 1945 کو عمل میں آیا. اس کا صدر دفتر پیرس فرانس میں ہے یونیسکو کا بنیادی مقصد تعلیم، سائنس اور ثقافت میں بین الاقوامی تعاون کے ذریعے دنیا میں امن و سلامتی کو فروغ دینا ہے. مصنوعی ذہانت نے دنیا بھر میں ہر شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔
خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے. AI کی وجہ سے دنیا بھر میں ترقی کے نئے دروازے کھلے ہیں. کوئی ملک سائنسی اور فنی علوم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا. اے آئی کے فائدے اور نقصانات دونوں ہیں یہ استعمال کرنے والے پر مبنی ہے کہ وہ اس کا مثبت یا منفی استعمال کرتا ہے۔ AI کی مدد سے ہر طالب علم اپنی مخصوص ضروریات کے مطابق تعلیمی مواد تیار کر سکتا ہے. طلبہ کسی بھی کانسپٹ کو سمجھ کر نمایاں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اے آئی کی مدد سے وقت کی بچت کرنا ممکن ہو گیا ہے. طلبہ کو اپنی کارکردگی کے لیے فوری رائے میسر آ جاتی ہے. اس طرح طلبہ کو اپنی غلطیاں سمجھنے اور انہیں سدھارنے کا موقع ملتا ہے اور ان کے سیکھنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے. انہیں نتائج کے لیے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
اگر کسی طالب علم کو ہوم ورک کرتے وقت کوئی کانسپٹ سمجھ میں نہیں آئے اور استاد موجود نہ ہو تو اے آئی کی مدد لے سکتا ہے. اے آئی ٹولز فوری مدد فراہم کرتے ہیں مثال کے طور پر طالب علم اے آئی ٹول سے پوچھ سکتا ہے کہ یہ مساوت کیسے حل کی جائے؟ اپنی مضمون نگاری کو بہتر بنانے کے لیے مدد لے سکتے ہیں. کوئی ترجمہ کرنے کے لیے اے آئی فوری طور پر آپ کی مدد کرتا ہے۔ اس کی مدد سے طلبہ مختلف زبانوں میں مواد تیار کر کے اسے پوری دنیا کے طلبہ تک پہنچا سکتے ہیں اور غیر ملکی زبانوں کے مواد سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں. تعلیمی نصاب کو اپڈیٹ اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
جس سے تعلیمی معیار میں اضافہ ہوتا ہے یہ اے ائی نظام معذور طلبہ کے لیے بھی بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں. مثلا نابینا طلبہ کے لیے اے ائی پر مبنی ٹیکسٹ ٹو اسپیک ٹولز اور بہرے طلبہ کے لیے اے آئی پر مبنی سائن لینگویج ٹرانسلیشن ٹولز مصنوعی ذہانت کے ذریعے کوئی بھی زبان سیکھنا ماضی کے مقابلے میں زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ طلبہ کے ساتھ اساتذہ بھی مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک کامیاب معلم بننے کے لیے جدید رجحانات تکنیکوں اور ذرائع کا علم ہونا ضروری ہے جنہیں استعمال کر کے وہ طلبہ کو بہترین انداز میں پڑھا سکتے ہیں اور انہیں مستقبل میں کامیاب بنا سکتے ہیں۔
اساتذہ کو مصنوعی ذہانت اور اس کے استعمال کی مہارتوں سے آراستہ کرنا انتہائی ضروری ہے. تعلیمی روبوٹ کی ایجاد نے سب کو حیران کر دیا ہے یہ روبوٹ کسی بھی سوال کا جواب فوری طور پر دیتے ہیں۔ پاکستان میں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ پہلی اے آئی ٹیچر جو تمام مضامین پر مہارت رکھتی ہے۔
ایک نجی تعلیمی ادارے میں متعارف کرا دیا گیا ہے اس کو مس عینی کے نام سے پکارا جاتا ہے. مس عینی مصنوعی ذہانت کی مدد سے تخلیق کردہ ایک روبوٹک ٹیچر ہے، وہ طلبہ کے سوالات کا بروقت جواب دیتی ہے وہ تقریباً تمام مضامین بڑی مہارت سے پڑھاتی ہے۔ مس عینی پاکستان کی پہلی اے آئی ٹیچر ہے جو کراچی کے علاقے ابو الحسن اصفانی میں واقع نجی اسکول میں مونٹیسوری سے لے کر میٹرک تک کے طلبہ کو پڑھاتی ہے۔
بچے بھی مس عینی سے بہت متاثر ہیں اور پڑھائی میں ان کی دلچسپی مزید بڑھ گئی ہے. اس طرح کے اے آئی ٹیچرز سرکاری اسکولوں میں بھی متعارف کرائیں تو تعلیمی معیار کو بہتر کرنے اور دیگر درپیش مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ طلبہ کے مطابق روبوٹک کلاسز میں پڑھنے کا مزہ ہی الگ ہے پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں روایتی ناقص طریقہ تعلیم نافذ ہے۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کو محدود وسائل عدم مساوات اور رجحانات تکنیکوں اور ذرائع کا علم ہونا ضروری ہے جنہیں استعمال کر کے وہ طلبہ کو بہترین انداز میں پڑھا سکتے ہیں اور انہیں مستقبل میں کامیاب بنا سکتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق،پاکستان کو تعلیمی بحران کا سامنا ہے،2کروڑ 60لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جن کی اکثریت دیہی علاقوں میں ہے،جو دنیا میں سب سے زیادہ شرحوں میں سے ایک ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، اگرچہ پانچ سے 16 سال کی عمر کے اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 2016 میں 44 فیصد سے کم ہو کر 2023 میں 36 فیصد رہ گئی،آبادی کے بڑھنے کے تناسب سے اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے والے پاک الائنس فار میتھس اینڈ سائنس کے مطابق، ملک بھرمیں لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کا رجحان کم ہے، جبکہ غریب ترین صوبے بلوچستان میں نصف لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔مالی تنگی کے شکار ملک پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ سال تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا، اور کہا تھا کہ وہ آئندہ پانچ سال میں تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے 1.7 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کر دیں گے۔رواں ہفتے کے آخر میں پاکستان نے مسلم ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کے لیے دو روزہ بین الاقوامی سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، جس میں امن کی نوبل انعام یافتہ اور تعلیمی کارکن ملالہ یوسفزئی بھی شریک ہوئیں۔پاکستان میں غربت بچوں کو اسکول سے دور رکھنے میں سب سے بڑا عنصر ہے، لیکن یہ مسئلہ ناکافی انفراسٹرکچر اور نا اہل اساتذہ، ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے اور بھی بڑھ گیا ہے۔
اساتذہ کو مصنوعی ذہانت اور اس کے استعمال کی مہارتوں سے آراستہ کرنا انتہائی ضروری ہے. تعلیمی روبوٹ کی ایجاد نے سب کو حیران کر دیا ہے یہ روبوٹ کسی بھی سوال کا جواب فوری طور پر دیتے ہیں۔ مستقبل قریب میں پورا عالمی ڈھانچہ اے آئی پر منتقل ہو جائے گا تعلیمی میدان میں مصنوعی ذہانت کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں صرف ایک موبائل یا لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی مدد سے گھر بیٹھے آپ دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں اور ماہرین سے کسی بھی مضمون کو سیکھ سکتے ہیں۔
تعلیم کی ترقی میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ کی سست رفتار بھی ہے۔ سست رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے اے آئی کا استعمال بھی متاثر ہو رہا ہے۔ طلبہ بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے پہلے ہی بدحال ہیں جبکہ دوسری جانب انٹرنیٹ کی سست رفتاری کے باعث طلبہ امتحانات کی تیاری میں پریشان نظر آتے ہیں. تعلیم کے عالمی دن کے موقع پر حکومت انٹرنیٹ تک معیاری اور سستی رسائی کو یقینی بنائے۔ بلا شبہ 2025 مصنوعی ذہانت میں زیادہ سرمایہ کاری اور تعلیمی ترجیحات کا سال ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں جہاں طالب علم کو عملی تعلیم و تحقیق پر زور دیا جائے تعلیمی بجٹ کو دگنا کیا جائے. ٹیوشن کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے تو بہتر نتائج حاصل ہوں گے. یکساں جدید نصاب تعلیم رائج کیا جائے اب وقت آگیا ہے کہ یہ سسٹم تبدیل کیا جائے ترقی یافتہ معاشرے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔