
تحریک ِ سول نافرمانی
شیئر کریں
آواز
ایم سرور صدیقی
کہاجارہاہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف بانی پی ٹی آئی عمران خان کی تحریک سو ل نافرمانی شروع ہوگئی تو اس سے ملک کو کافی نقصان ہوگاپاکستان جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام سے دو چارہے معاشی طورپر بھی مزید گراوٹ میں چلاجائے گا اوور سیز پاکستانیوںکی بڑی تعداد عمران خان کی فالوورہے ان کی جانب سے ترسیلاتِ زر روکے جاناملکی معیشت کیلئے ایک روز دار دھچکا ثابت ہوسکتاہے موجودہ حالات کے تناظرمیں دیکھا جائے تو یہ یقینی امر ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی کال پر سینکڑوں ہزاروں کارکن ریاستی جبر،پکڑ دھکڑ اور پابندیوںکے باوجود ڈی چوک اسلام آباد جانے میں کامیاب ہوگئے یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے طاقت کااستعمال کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا۔تحریک ِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ نہتے اور پرامن احتجاجی مظاہرین کو منتشرکرنے کیلئے بے تحاشا آنسو گیس کااستعمال کیا گیا لیکن کارکن ڈٹے رہے پھر فورسز نے ان پر گولیاں برسادیں جس سے درجنوں کارکن جاںبحق ،سینکڑوں زخمی اور ہزاروں لاپتہ ہوگئے۔ اس ظلم کے باوجود ہمارے کارکن اب بھی اس حکومت کی فسطائیت کے خلاف پر عزم ہیںبانی پی ٹی آئی نے دی تو لوگ پھر احتجاج کریں گے کیونکہ عمران خان کی اپیل پر حکومت کی جانب سے ڈرانے کے باوجود لوگ باہر نکلتے ہیںپرامن احتجاج ہمارا حق اور جمہوریت کا حسن کہاجاتاہے لیکن ملک میںکوئی سیاسی سرگرمی نہیں کرنے دی جاری ہے، اگر حالات کو نارمل کرنا ہے تو لچک دکھانی پڑے گی ۔
اس سے انکار ممکن نہیں کہ حکومت کے خلاف احتجاج کیلئے سیاسی جماعتوں کے پاس بہت آپشن ہوتے ہیں سیاستدان دہشت گرد تو نہیں ہوتے کہ ان کے خلاف بھرپور ریاستی قوت استعمال کی جائے بہرحال پی ٹی آئی نے حکومت کے خلاف احتجاج کے اگلے مرحلے تحریکِ سول نافرمانی کااعلان کردیاہے اس صورت ِ حال سے بچنے کیلئے فریقین نے مذاکرات کی آپشن تجویزکی ہے اس وقت پی ٹی آئی کے دو مطالبات سامنے آئے ہیں ایک تو سانحہ9 مئی اور26نومبر کوڈی چوک اسلام آباد کے واقعات کی غیرجانبدارانکوائری کیلئے اعلیٰ عدلیہ تحقیقات کرے دوسرا حکومت تحریک ِ انصاف کے پانچ ہزاربے گناہ لوگوں کو رہا کرے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ترک موالات یا عدم تعاون اپنے مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کا سب سے مؤثر طریقہ ہے جس کے تحت بعض حکومتی یا کسی عالمی طاقت کے قوانین کی اطاعت سے انکار کرنا ہے ۔عام طور پر اس میں حکومت کو محصول جمع کرانے سے انکار کیا جاتا ہے جس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، جیسے مختلف یوٹیلٹی سہولیات پر مقرر ہ قیمت دینے سے انکار جس میں بجلی، ٹیلی فون، گھریلو استعمال کی گیس، پانی، پلوں، شاہراہوں اور دیگر ایسی چیزیں جن سے حکومت کو پیسہ آتا ہوں۔ ان تمام یا کچھ ذرائع محصول سے روکنا، رکنا یا ان کے استعمال پر محصول ادا نہ کرنا۔ سول نافرمانی اکثر اجتماعی عمل کی صورت میں کی جاتی ہے۔برطانوی ہند میں تحریک ترک موالات اس کی ایک مثال ہے جب1920ء میں گاندھی جی اور مولاناابوالکلام آزاد نے غیر ملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن (ترک موالات) کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیار تھا، جواس جنگ آزادی اور قومی جدوجہدمیں استعمال کیا گیا، انگریزی حکومت اس کا پورا پورا نوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کا خطرہ پیدا ہوا کہ پورا ملکی نظام مفلوج ہوجائے گا اورعام بغاوت پھیل جائے۔ 28 مئی1920ء کو بمبئی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا جس میں عدم تعاون کے اصول کو تسلیم کیا گیا۔2جون1920ء کو الٰہ آباد میں ایک اجلاس ہوا جس میں ہندو اور مسلمان راہنمائوں نے شرکت کی۔اس میں تحریک ترکِ موالات کی قرارداد اصولاً پاس کر دی گئی اور اس طریقہ کار کو مسٹر گاندھی کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا۔اس مقصد کیلئے ایک کمیٹی مسٹر گاندھی، مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی ، مسٹر کھتری ، مولانا حسرت موہانی ، ڈاکٹر کچلو پر مشتمل تھی جس پر لوگ برٹش حکومت کے خاتمہ کی کی پشین گوئی کرنے لگے تھے ۔ ہندوستان میں(تحریک ِ سول نافرمانی) ترک موالات کے اعلان کے بعد سب سے شدید اثر مسلمانوںنے قبول کیا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے اس تحریک میں شمولیت کی اپیل کی تو باوجود یونیورسٹی سے جذباتی لگاؤ اور جوش و خروش کے مسلمان طلبہ نے انگریزی پروفیسروں کا بائیکاٹ کر دیا جس کا نتیجہ میں یونیورسٹی غیر معینہ عرصے کیلئے بند ہو گئی۔ اس کے مقابلے میں گاندھی جی نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طرح بنارس کی ہندو یونیورسٹی بند ہو جائے مگر مدن موہن مالوہ نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور بالآخر انھیں بے نیل مرام واپس آنا پڑا۔ اسی طرح لاہور کے اسلامیہ کالج کو بند کرنے کی سر توڑ کوشش ہوئی۔ عبد اللہ چغتائی ان دنوں کالج کے اسٹاف میں شامل تھے۔ میاں فضل حسین جیسے مدیر سیکرٹری تھے اور علامہ اقبال جنرل سیکرٹری تھے۔ کالج میں طلبہ کا ایک خاص گروپ اس بات پر مصر تھا کہ کالج کو بند کر دیا جائے۔ حبیبیہ ہال کے جلسہ میں پروفیسر مظفر الدین قریشی اور طالب علم عبد الباری نے ایسی دھواں دھار تقریریں کی تھیں کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بھی ایسی تقریریں نہیں ہوئی ہوں گی۔ یہ تمام تقریریں انگریزی زبان میں ہوئی تھیں جن میں انگریزوں کے خلاف اور ترک موالات کے حق میں پورا زور خطابت مقررین نے صرف کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ روزنامہ ”زمیندار” نے بھی ایک مقالہ افتتاحیہ سپرد قلم کیا جس میں اسلامیہ کالج کو غیرت دلائی گئی تھی کہ وہ بھی تحریک ترک موالات میں شامل ہو کر اتحاد ملی کا ثبوت دے ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ کالج میں مکمل طور پر ہڑتال ہو گئی جس سے میاں فضل حسین سخت برہم ہوئے۔ پروفیسر خواجہ عبدالحمید نے بھی اعتراف کیا کہ” نومبر 1920ء میں ہندوستان بھر میں تحریک عدم تعاون زوروں پر تھی۔ لاہور میں کانگریس کے کارکنوں کی خاص توجہ اسلامیہ کالج پر تھی۔ ہندو اور مسلمان اکابر لاہور میں جمع تھے اور ان کی ہدایات پر کانگریسی کارکنوں نے اسلامیہ کالج میں پڑھائی کا کام تقریباً نا ممکن بنا دیا تھا، یہاں تک کہ اسلامیہ کالج کا وجود معرض خطر میں پڑ گیا تھا جب تحریک ترک موالات میں شریک ہونے اور کالج کو بند کر دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا تو1920ء میں انجمن حمایت اسلام کے زیر اہتمام مناظرانہ نوعیت کے ایک جلسے میں تمام سرکردہ ارکان مثلاً میاں سر فضل حسین، شیخ عبد القادر، علامہ اقبال سمیت کل تیس ارکان اس مذاکرے میں شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور مولانا ابو الکلام آزاد کو بطور خاص اس جلسے میں مدعو کیا گیا تھا جنھوں نے پورے زور شور سے ترک موالات کے حق میں تقریریں کیں ۔تاج ِ برطانیہ کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک پورے ہندوستان میں پھیل گئی جس نے حکومت کو ہلاکررکھ دیا۔
بانی پی ٹی آئی نے شاید اسی پس منظرکے باعث پی ڈی ایم کی13جماعتی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کااعلان کیاہے تاکہ حکومت ان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہوجائے کیونکہ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اوورسیزپاکستانیوںمیں10فیصدبھی ترسیل ِ زر روک دیتے ہیں تو اربوں روپے کا نقصان ہوگا جس سے گردشی سرمائے کا سرکل شدید متاثرہوگا جو ملکی معیشت کیلئے انتہائی خطرناک ہوگا ملک جس کا متحمل نہیں ہوسکتا اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کے باوجود حکومت بہت سے معاشی مسائل سے نبرد آزماہے مہنگائی، بیروزگاری، غربت، اشیائے ضرورت کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی ،سوئی گیس پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ نے عام آدمی کو دیوارسے لگارکھا ہے ۔سیاسی بے چینی، امنو امان کی مخدوش صورت حال الگ مسائل ہیں ان حالات میں ملک کسی قسم کی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے جتنی جلدی حکومت اور پی ٹی آئیکے مابین افہام و تفہیم سے معاملات حل ہوجائیں اتنا ہی بہترہے وطن ِ عزیز سول نافرمانی ،محاذ آرائی اور سیاسی عدم استحکام سے مسائل سے بہت سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کو پہنچنے کااحتمال ہے۔ موجودہ حکمرانوںکو جس کامطلق احساس تک نہیں وہ ہر قیمت پر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے جائز ناجائز اقدامات سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔ حالانکہ ہماری جغرافیائی و نظریاتی سرحدیں متقاضی ہیں کہ دور ِ حاضرکے تمام چیلنجزکا مقابلہ تحادو اتفاق سے ہی کیا جاسکتاہے۔