مہوش نعیم مشعل راہ
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
رات کے اندھیرے میںجب عمران خان کی حکومت ختم کرکے پی ڈی ایم کوبرسراقتدار لایا گیا تو بلاول بھٹو نے بڑے فخریہ انداز میں پرانے پاکستان میں واپسی کا اعلان کیا تھا آج جب میں حکومتی خبروں کے برعکس عام لوگوں کی خبریں پڑھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ حالات کس طرف جارہے ہیں لوگ ملک چھوڑ کر بھاگنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے۔ سمندری راستے سفر کرنے والے اکثر کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہورہے ہیں اسکے ساتھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں انسانی اسمگلر آگے دوسرے ملکوں کے سمگلروں کے ہاتھ فروخت کررہے ہیں۔ ابھی ایران میں یرغمالیوں کی ایک ویڈیو چل رہی ہے جس میں وہ پاکستانیوں پر تشدد کررہے ہیں، ان پر گرم پانی ڈال رہے ہیں اور ایک کا تو کان بھی کاٹ دیا گیا اور یہ سب کچھ ایک ویڈیو کی شکل میں ان کے گھر والوں تک پہنچا رہے ہیں۔ لاکھوں روپے ایجنٹوں کو دیکر بیرون ملک جانے والوں میں ایک کبڈی کا کھلاڑی بھی موجود ہے ۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں اور دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ا ن پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں اور تو اور انسانی سمگلنگ کو روکنے والا ادارہ ایف آئی اے بھی اس طرف سے بے خبر ہے اور تو اوریو اے ای میں پاکستان کو بدنام کرنے والے بھکاریوں کو باہر بھجوانے والے ایجنٹوں کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں ہوئی جن کی وجہ سے دبئی والوں نے پاکستانیوں کو ویزے دینے سے انکار کررکھا ہے۔
سعودی عرب نے ہمارے حکمرانوں کو پاکستانی گداگروں کے خلاف کارروائی کا کہہ رکھا ہے اور ایف آئی اے سو رہی ہے، یہ وہی ایف آئی اے ہے جس کے بارے میں پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری بھی کئی بار کہہ چکی ہے کہ اس ادارے کے سائبر کرائم ونگ کو بند کردینا چاہیے۔ ایف آئی اے میں مختلف ونگز کام کررہے ہیں جن میں خصوصی اور منظم جرائم کی تحقیقات،امیگریشن اور انسداد اسمگلنگ، انسداد انسانی سمگلنگ،انسداد دہشت گردی ،منی لانڈرنگ، سائبر کرائم اور پلاسٹک منی فراڈ،انٹرپول (نیشنل سینٹرل بیورو)،نیشنل کرمنل ڈیٹا بیس (NCDB) ،فرانزک اور ٹیکنیکل سپورٹ اگر آپ ان کی کارکردگی اور مراعات دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے، ویسے تو ہمارے ہاں کوئی بھی ادارہ درست کام نہیں کررہا اور نہ ہی ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افسران عوام کی خدمت کررہے ہیں بلکہ ان اداروں میں بیٹھے ہوئے بعض وحشی قسم کے افسران نے خواتین کا جینا محال کررکھا ہے اور اور جنسی درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں اسکی ایک تازہ ترین مثال پنجاب حکومت کے محکمہ لوکل گورنمنٹ بورڈ کے سیکریٹری کا کارنامہ بھی ہے جن کی جنسی ہوس کے آگے ڈھال بننے والی دلیر خاتون مہوش نعیم نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی سیکریٹری رضوان نذیر کے خلاف جنسی ہراسمنٹ کے خلاف درخواست دے رکھی ہے۔ ہمارے سرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے بعض جنسی ہوس پرست لوگوں نے سرکاری ملازمت میں آنے والی خواتین کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا جن کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں کے دوران خواتین ڈری اور سہمی رہتی ہیں حالانکہ ہماری خواتین زندگی کے ہر میدان میں مردوں سے کہیں آگے ہیں اب تو خوش قسمتی سے پنجاب کی وزیر اعلی بھی ایک خاتون ہے اور وہ خواتین کے مسائل کو حل کرنے کی بھر پور کوششوں میں مصروف ہے مگر کچھ لوگ وزیر اعلی کی اس محنت پر پانی پھیر رہے ہیں۔
ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں جہاں ایک اسلامی معاشرہ قائم ہے ہمیں ہمارا دین خواتین کے عزت و احترام کا درس دیتا ہے خاص کر سرکاری ملازمت میں آنے والی خواتین ذہین اور لائق ہونے کے ساتھ ساتھ محنتی بھی ہیں جو مختلف اداروں میں بیٹھے ہوئے بابوؤں سے زیادہ کام کرتی ہیں ہمیں ہمارا آئین مساوات، آزادی، تحفظ، اور عدلیہ تک رسائی کے حقوق کی ضمانت بھی دیتا ہے اور انسان کو برابری، انصاف اور آزادی کے ساتھ جینے کا مکمل حق بھی لیکن اس پر اجارہ داری صرف بااثر افراد کی ہے اور جو مہوش نعیم کی طرح محنتی،ایماندار اور عوامی خدمتگار خواتین ہیں وہ اپنی شرافت کی وجہ سے جنسی درندوں کی وحشیانہ حرکتوں کا مقابلہ کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کردیتی ہیں حکومتی ادارے اگر خواتین کے مسائل پر توجہ دیں تو ہم بہت جلد اپنے مسائل پر قابو پاسکتے ہیں خاص کر خواتین پر جنسی تشدد کے حوالہ سے کام کرنے والے ادارے اپنا کام ہی کرلیں تو خواتین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں مہوش نعیم نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اوپر بری نگاہیں ڈالنے والے رضوان نذیر کے خلاف قانونی کاروائی کی درخواست تو دے رکھی ہے لیکن اس پر ابھی تک کوئی کام نہیں ہورہا جبکہ سیکریٹری صاحب اپنے ماتحت کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہو گئے ہیں اور انکی کوشش ہے کہ وہ انہیں اس شکایت کا مزہ چکائیں اور وہ انہیں نوکری سے نکالنے کے لیے اپنی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ آئندہ کسی بھی ملازم پیشہ لڑکی کوکسی ٹھرکی افسر کے سامنے انکار کی جرات پیدا نہ ہو پچھلے سال 2023 میں پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا جس میں لاہور اور فیصل آباد سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع ہیں اس وقت پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے 10,201 مقدمات پی پی سی کی دفعہ 354 (عورت پر حملہ یا اس کی عزت کو مجروح کرنے کے ارادے سے مجرمانہ طاقت) اور 509 (عورت کی عزت کی توہین کرنا) کے تحت درج کیے گئے 2022 میں رپورٹ ہونے والے 8,787 کیسوں سے 14.5 فیصد اضافہ ہے لاہور میں 1464، شیخوپورہ میں 1198 اور قصور میں 877 کیسز سامنے آئے 2023 میں پنجاب میں اوسطاً 28 خواتین کو روزانہ کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ 2023 میں عصمت دری کے 6,624 مقدمات درج ہوئے یعنی ہر 45 منٹ میں ایک عورت کی عصمت دری کی گئی فیصل آباد 728 کیسز کے ساتھ سرفہرست ہے ۔اس کے بعد لاہور میں721 اور سرگودھا میں398 کیس ہوئے ہیں 2023 میں 626 خواتین کو اغوا کیا گیااور 120 کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیاجبکہ 20 خواتین کوا سمگل کیا گیا اور یہ ان خواتین کے ساتھ زیادہ واقعات ہو رہے ہیں جو اپنے حق کے لیے کھڑی نہیں ہوتی بلکہ اپنی نوکری بچانے کے لیے ہر قسم کی قربانی دے دیتی ہیںمہوش نعیم ہماری ان خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں جو خاموشی سے ہر ظلم برداشت کررہی ہیں۔