میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارتی سازشیں اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی

بھارتی سازشیں اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی

ویب ڈیسک
پیر, ۱۶ دسمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا دردناک سانحہ ہے جس نے ہر پاکستانی کو اشکبار کر دیا تھا ۔ اس سانحہ کے محرکات پر نگاہ ڈالیں تو ہمارے ازلی دشمن بھارت کا کردار سرفہرست دکھائی دیتا ہے۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے علیحدہ کرنے میں وہ اپنے کردار کو تسلیم کرتا ہے اور باقی ماندہ پاکستان کو خاکم بدہن ختم کرنے کے اپنے منحوس ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمارے خلاف مختلف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ کانگریس کی قیادت گاندھی، پنڈت نہرو اور پٹیل کا خیال تھا کہ پاکستان زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ کانگریس کی قیادت نے قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ کانگریس، پنڈت نہرو، اندرا گاندھی، لال بہادر شاستری اور نرسہماراؤ کی قیادت میں پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔صرف کانگریس ہی نہیں ہر بھارتی حکومت کا اولین مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا رہا ہے۔
اندرا گاندھی کی حکومت نے شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کے بعض لیڈروں کو اپنے جال میں پھنسالیا۔ شیخ مجیب الرحمن شروع سے ہی لسانی بنیادوں پر اپنی سیاست چمکانا چاہتے تھے۔ اندرا گاندھی کی حکومت نے مشرقی پاکستان میں حب الوطن لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے ہندو اساتذہ کی کھیپ تیار کی۔ جنہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے مغربی پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی۔ بھارت کے سفارتکار ڈھاکہ کے کلب میں کھلم کھلا صحافیوں اور دانشوروں میں پیسہ تقسیم کرتے اور انہیں مغربی پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے اکساتے۔ 1960ء کی دہائی کے آخر میں جبکہ بھارت نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے اور بنگلہ دیش کے قیام کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے بھارتی فوج کو مکتی باہنی کا نام دے کر پورے مشرقی پاکستان میں پھیلادیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عوامی لیگ کے کارکنوں اور ہندوؤں کو پیسہ اور اسلحہ وہتھیار بھی فراہم کیے۔ جنرل یحییٰ خان نے جب 1971ء میں عام انتخابات کا اعلان کیا تو بھارت کھل کر سامنے آگیا اور اس نے عوامی لیگ کو نہ صرف پیسہ فراہم کیا بلکہ اسے ایجنٹوں کی منظم فورس بھی فراہم کی۔ جس نے عام انتخاب میں عوامی لیگ کی کامیابی کی راہ ہموار کی۔ 71 کے عام انتخابات میں پورے مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر دھونس، دھاندلی اور غنڈہ گردی کی بدولت عوامی لیگ نے مخالف امیدواروں کی ضمانتیں ضبط کراوادیں۔ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا تو بھارتی ایجنٹوں، مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے مغربی پاکستان کے شہریوں، بہاریوں اور پاکستان کے حامیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ ہمارے فوجی دستوں نے جب مشرقی پاکستان میں بغاوت پر قابو پا کر جب معمول کے حالات بحال کر دیے تو بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں بھارتی فوجیوں پر مشتمل مکتی باہنی بنا دی اور پھر ہتھیار فراہم کرکے انہیں مشرقی پاکستان میں پھیلا دیا۔ اس مکتی باہنی کا ہیڈ کوارٹر کلکتہ میں مجیب نگر کے نام سے قائم کردیا۔ جنگ شروع ہوتے ہی تمام مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان فضائی اور بحری رابطہ ختم کردیا اور اس نے ننگی جارحیت کے ذریعے پاکستان توڑ کر بنگلہ دیش قائم کر لیا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ شاید ہم نے میدان جنگ میں بھارت سے اتنی شکست نہیں کھائی جتنی میڈیا اور پروپیگنڈہ کے محاذ پر کھائی ہے۔ بھارتی میڈیا اور بھارتی پروپیگنڈہ اتنا تیز ہے کہ یہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرتا ہے اور اب تک پوری دنیاکو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر رہا ہے۔
1971ء کی جنگ بھی مؤثر میڈیا کی کلاسک مثال تھی۔ بھارتی میڈیا نے ہمارے خلاف بعض ایسے الزامات لگائے جنہیں عقل تسلیم ہی نہیں کرتی لیکن پھر بھی پروپیگنڈہ کے زور پر بھارت نے پاکستانی فوج اور پاکستان کو منظم طریقے سے بد نام کیا۔ پاکستانی فوج کے خلاف تین بڑے الزامات تھے۔ اول یہ کہ تیس لاکھ بنگالیوں کی بے دردی سے قتل کیا گیا، دوم تین لاکھ عورتوں کی آبروریزی کی گئی اور سوم یہ کہ گاؤں کے گاؤں جلادیے گئے۔ یہی کچھ بھارتی میڈیا نے بین الاقوامی میڈیا کو فیڈ کیا اور بین الاقوامی میڈیا نے بغیر الزامات کی تفتیش کیے پاکستان کے تشخص کو اس برے طریقے سے مسخ کیا کہ ہم پوری دنیا میں نہ صرف تنہا رہ گئے بلکہ پوری دنیا کی نفرت کا نشانہ بنے اور بڑی طاقتوں نے بالآخر مشرقی پاکستان کو ہم سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بھارت نے اسے عملی جامہ پہنا دیا۔ پاکستان ٹوٹنے پر اندرا گاندھی نے کتنا ہی اظہار فخر کیا ہو، حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بھارت کو کچھ ہاتھ نہیں آیا بلکہ بھارت کے صوبے مشرقی پنجاب سمیت سکم، تامل ناڈو اور بیس سے زیادہ علاقوں میںعلیحدگی پسندی اور مرکز گریز رجحانات پرورش پانے لگے۔بظاہر اندرا گاندھی کا یہ اقدام اس کی فتح و کامرانی کا باعث نظر آیا مگر آج کا بنگلہ دیش ہر اعتبار سے اسلامی شناخت کا حامل ملک ہے۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اندرا گاندھی کا یہ دعویٰ بالکل باطل ثابت ہوا کہ انہوں نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔
پاکستان کے دولخت ہو جانے سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش تو بن گیا لیکن نظریہ پاکستان پر ایسی آنچ نہیں آئی کہ ہم دل برداشتہ ہوجائیں۔ خدا پاکستان کو محفوظ و سلامت رکھے مگر ہمیں یاد رہے کہ آج کے حالات و واقعات کل کے انجام کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو بھلانے کے بجائے ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں