روس اور امریکامیں کشیدگی
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
ٹرمپ ابھی وائٹ ہاؤس پہنچے بھی نہیں ہیں کہ ان کے انتخابی وعدہ(نیابھرمیں جنگ بندکرانے)کی تکمیل کیلئے مشکلات نے سراٹھانا شروع کردیاہے۔جوبائیڈن نے بالآخریوکرین کوروس میں طویل فاصلے تک مارکرنے والے امریکی ساختہ میزائل فائرکرنے کی اجازت دے دی ہے۔پیوٹن نے یوکرین کواے ٹی اے سی ایم ایس میزائل کوروس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت دینے پرجوبائیڈن کو”مناسب اورٹھوس”ردعمل کی تنبیہ اور فوری طور پرردعمل کااظہارکرتے ہوئے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں تبدیلیوں کی منظوری دیتے ہوئے نئے قواعداورشرائط کااعلان کردیاہے،جن کے تحت اب روس اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کافیصلہ کرے گا۔
روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں ترمیم ستمبرمیں تجویزکی گئی تھی اورمنگل کویوکرین کے ساتھ جنگ کے ایک ہزارویں دن پراس پرمہرثبت کی گئی ہے۔روسی وزارت خارجہ کے مطابق روسی سرزمین کے اندراس طرح کاحملہ”امریکااور اس کی حواری ریاستوں کی روس کے خلاف براہ راست جنگ میں شمولیت تصورکی جائے گی۔دمتری پیسکوف نے کہاکہ نیاجوہری ڈاکٹرائن ”بروقت” شائع کی گئی ہے اورپیوٹن نے اس سال کے اوائل میں اس کواپ ڈیٹ کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ اس کو موجودہ حالات سے ہم آہنگ بنایاجائے۔
روسی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہاگیاہے کہ اگرامریکاکی جانب سے فراہم کردہ میزائل روس پر داغے جاتے ہیں توماسکواس حملے کویوکرین کی جانب سے حملہ نہیں بلکہ اسے امریکی حملہ تصورکرے گا۔کریملن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مزیدکہاگیاہے کہ”روس اورپوتن نے اپنے مؤقف کوبہت واضح کردیاہے اور امریکاکایہ فیصلہ اس تنازعے میں واشنگٹن کی شمولیت کی ایک نئی سطح کی نشاندہی کرتاہے۔یہ”واضح”ہے کہ سبکدوش ہونے والی بائیڈن انتظامیہ”جلتی پرتیل کا کام”کررہی ہے اور اس تنازع میں پہلے سے موجودکشیدگی کومزیدبڑھانے کیلئے اقدامات کرنے کاارادہ رکھتی ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیرجون فائنرنے کریملن کے اس بیان پرردعمل کااظہارکیاہے جس میں امریکاپریوکرین روس جنگ میں جلتی پرتیل چھڑکنے کاالزام لگایاگیاتھا۔ان کاکہناتھاکہ”امریکاشمالی کوریا کی افواج کی اس جنگ میں شمولیت کی روسی حکمتِ عملی پر نظر رکھے ہوئے ہے اورامریکاکی جانب سے روس پریہ واضح کردیاگیاہے کہ ہم اس کا جواب دیں گے۔بائیڈن اس حوالے سے سنجیدہ ہیں کہ جتنابھی ممکن ہوسکے وہ اپنی بقیہ مدت میں یوکرین کی مددکرسکیں۔اس کاایک مقصدیوکرین کوعسکری طورپرمضبوط بناکرکسی بھی ممکنہ امن مذاکرات میں اس کی پوزیشن بہتربناناہے”۔”خطے میں یہ آگ روس کے یوکرین پرحملے کی وجہ سے لگی تھی اوربنیادی مسئلہ اس کا تسلسل، شمالی کوریا کی افواج کی میدانِ جنگ میں موجودگی اورملک بھرمیں فضائی حملوں میں آنے والی”شدت”ہے۔اس لیے میں روس سے یہ سوال پوچھناچاہوں گاکہ یہاں آگ پرکون تیل ڈال رہاہے اورمجھے نہیں لگتاکہ یہ یوکرین کے لوگ ہیں”۔واضح رہے کہ یوکرین کئی ماہ سے روسی حدود میں حملے کیلئے امریکاکی جانب سے فراہم کیے جانے والے میزائلوں کے استعمال کی اجازت طلب کررہاتھا۔
آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم(اے ٹی اے سی ایم ایس)بنیادی طورپرزمین سے زمین پرمارکرنے والے بیلسٹک میزائل ہیں،جو300 کلومیٹرکی دوری تک ہدف کونشانہ بناسکتے ہیں ۔ان میزائلوں کی یہی رینج انہیں یوکرین کیلئے اہم بنادیتی ہے۔آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم کو یا تو ایم270ملٹی پل لانچ راکٹ سسٹم یعنی ایک جگہ پرنصب سسٹم((یم ایل آرایس ) یاپھرایک جگہ سے دوسری جگہ پرآسانی سے منتقل ہو جانے والے ایم 142ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم(ایچ آئی ایم اے آرایس)سے فائرکیاجاتاہے۔یہ میزائل ٹھوس راکٹ پروپیلنٹ سے ایندھن بھرتے ہیں اورخاصے تیزرفتارہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں روکناانتہائی مشکل ہوجاتاہے۔نیویگیشن کولانچ سے پہلے پروگرام کیاجاتاہے اورانرشیل اور سیٹلائٹ گائیڈنس کااستعمال کرتے ہوئے انہیں ہدف کی جانب داغاجاتاہے،اوریہ اپنے ہدف کو تقریباً ً10کلومیٹرتک درست اندازمیں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ میزائلوں کودومختلف اقسام کے وارہیڈمیں میں تقسیم کیاجاتاہے جن میںسے ایک کی مدد سے بڑی تعدادمیں میزائل داغے جاتے ہیں اوراس کی مددسے دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو غیر مؤثر کیا جا سکتا ہے۔ دوسری قسم یونٹری وارہیڈہے،جو225کلوگرام کاایک بڑادھماکہ خیزورژن ہے جوکسی بڑے مقام یاتنصیبات کوتباہ کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیاہے۔یہ میزائل پہلی بار1991میں خلیج جنگ میں استعمال کیے گئے تھے۔امریکاابھی اس میزائل کومزیدبہترکرنے کیلئے 500 کلومیٹر تک اس کی رینج بڑھاناچاہتاہے۔ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یوکرین کویہ میزائل ملیں گے یانہیں۔امریکی اجازت ملنے کے بعداب یوکرین ان میزائلوں کوروس کے خلاف استعمال کرسکے گا۔شاید پہلے مرحلے میں وہ کرسک میں ان میزائلوں کااستعمال کرے،جہاں یوکرینی افواج ایک ہزارمربع کلومیٹرخطے پرمورچہ زن ہے۔یوکرین اورامریکاکوروس اورشمالی کوریا کی طرف سے کرسک کے علاقے میں حملوں کاخدشہ ہے۔یوکرین ایسی صورت میں ان میزائلوں کااستعمال کرسکتاہے اوروہ اس دوران روس کے فوجی اڈوں،انفراسٹرکچراوراسلحے کے ڈپوکو ہدف بناسکتا ہے ۔
ان میزائلوں کے مقابلے میں روس نے بھی دفاعی انتظامات کررکھے ہیں اورکسی بھی ایسے ممکنہ حملے کوروکنے کیلئے اس نے پہلے ہی فوجی تنصیبات جیسے لڑاکاجہازبھی ملک کے اندرمنتقل کردئیے ہیں۔تاہم مزیدامدادبھیجنے کیلئے روس کومشکلات کاسامنا کرناپڑسکتاہے کیونکہ ایسی امداد بھیجنے میں وقت لگتاہے۔ایک مغربی ملک کے سفارتکارکے مطابق”مجھے نہیں لگتاکہ یہ بہت فیصلہ کن ہوگا۔ان کے مطابق یہ یوکرین کو دی جانے والی ایک علامتی مددکے طورپرہی دیکھاجانا چاہیے۔اوریہ سب روس کے جنگی اخراجات میں اضافے کاباعث بن سکتا ہے۔زمینی حقائق اس بات کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ روس اب کسی بھی دن روسی کرسک کے علاقے سے یوکرین کی افواج کوبے دخل کرنے کیلئے ایک بڑاحملہ کر سکتا ہے۔یوکرین امریکی فراہم کردہ میزائل کوحملے کے خلاف دفاع کیلئے استعمال کرسکتاہے،جس میں فوجی اڈوں،بنیادی ڈھانچے اورگولہ بارودذخیرہ کرنے والے مراکزسمیت روسی اہم ٹھکانوں کونشانہ بناسکتا ہے۔یہ ہتھیاریوکرین کوایک ایسے وقت میں کچھ فائدہ دے سکتے ہیں جب روسی افواج ملک کے مشرقی حصے میں قدم جمارہی ہیں۔
یوکرین کے صدرولادیمیرزیلینسکی امریکاکی جانب سے دورتک مارکرنے والے میزائلوں کے استعمال پر پابندی ہٹانے کے بارے میں کئی ماہ سے کوششیں کررہے تھے تاکہ یوکرین کو روس میں اہداف کو نشانہ بنانے کاموقع مل سکے جبکہ پیوٹن کی جانب سے ماضی میں مغربی ممالک کواس حوالے سے پابندی ہٹانے کے بارے میں خبردارکیاجاتارہاہے کہ روس اسے نیٹوکی اس جنگ میں براہِ راست مداخلت کے طورپردیکھے گا۔اس کامطلب یہ ہوگاکہ نیٹوممالک اورامریکاروس کے خلاف لڑرہے ہیں۔یہ لانگ رینج میزائل دراصل امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بناتی ہے۔
ان میزائلوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہ300کلومیٹرتک مارکرسکتے ہیں اورانہیں ان کی رفتارکی وجہ سے تباہ کرناخاصا مشکل ہوتا ہے۔ امریکاکی جانب سے یہ ہتھیاریوکرین کو سپورٹ پیکج کے طورپردیے جاتے رہے ہیں اوریہ پہلے یوکرین نے کریمیا میں استعمال کیے ہیں۔یوکرین کرسک کے علاقے میں ایک دہائی سے زائدعرصے سے یہ میزائل اور امریکی اسلحے کااستعمال کر رہاہے۔تاہم امریکانے کبھی کیئوکوروس کے اندران میزائلوں کے استعمال کی اجازت نہیں دی۔یوکرین نے یہ مؤقف اختیارکررکھا تھاکہ”ان میزائلوں کی اجازت نہ دیناتوایسا ہی ہے کہ جیسے لڑائی میں کسی کاایک ہاتھ اس کی پشت پرباندھ کراسے کہاجائے کہ اب لڑو”۔زیلنسکی نے ابھی تک اس امریکی فیصلے کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم انہوں نے یہ کہاتھا کہ حملے الفاظ سے نہیں کیے جاتے،میزائل خوداپناپتہ دیں گے۔اطلاعات کے مطابق امریکاکی پالیسی میں نئی تبدیلی اس وقت واقع ہوئی جب یوکرین کے زیر قبضہ کرسک کے علاقوں میں روس کی مددکیلئے شمالی کوریاکے فوجی بھی خطے میں آئے۔یوکرین کرسک کے علاقے پراگست سے قابض ہے۔
آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ روس کا جوہری ڈاکٹرائن ہے کیااوراس میں کیاتبدیلی کی گئی ہے؟کریملن کے مطابق روس کے جوہری ڈاکٹرائن پرپہلی بار صدرپیوٹن نے2020میں دستخط کیے تھے جبکہ اس کے تازہ ترین ورژن کی چنددن قبل منظوری دی گئی ہے۔اس تازہ ڈاکٹرائن میں بتایاگیاہے کہ روس کن حالات میں اپنے جوہری ہتھیاروں کااستعمال کر سکتاہے۔2022میں جب سے روس نے یوکرین پرحملہ کیاتھاتب سے پیوٹن اورکریملن کے دیگراہم اشخاص نے اکثرمشرقی طاقتوں کواپنے پاس موجودجوہری ہتھیاروں کے حوالے سے خبردارکیاتھاتاہم کیئوکے اتحادی یوکرین کواربوں ڈالرکے جدیدہتھیاردینے سے نہیں رکے اوران میں سے کچھ ہتھیاروں کوروسی سرزمین پراستعمال کیاجاچکاہے۔
تجدیدشدہ دستاویزمیں روس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کوڈیٹرینٹ((کاوٹ پیداکرنے کے ایک ذریعہ)کے طورپربیان کیا ہے۔ دستاویز میں کہاگیاہے کہ روس کی جانب سے ان کااستعمال ایک”انتہائی اورمجبوراقدام”ہوگا۔اس بات پرزوردیاگیاہے کہ روس جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے”خطرے کوکم کرنے اوربین الریاستی تعلقات میں کشیدگی بڑھنے سے روکنے کیلئے تمام ضروری کوششیں کرتاہے جوجوہری تنازعات سمیت فوجی تنازعات کوجنم دے سکتے ہیں”۔
دستاویزکے مطابق اس طرح کی حکمت عملی”ریاست کی خودمختاری اورعلاقائی سا لمیت”کوبرقراررکھنے کیلئے کی گئی ہے تاکہ ممکنہ حملہ آورکارروائی کرنے سے بازرہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ”اگرکوئی فوجی تنازع جوکشیدگی اختیار کرنے لگے تواسے ایسی شرائط کی بناپرروکاجاسکے جوروس کیلئے قابل قبول ہوں”۔ڈاکٹرائن میں مزیدکہاگیا ہے کہ روس کی جوہری طاقت کے استعمال کی سٹریٹجی کامقصدہے کہ”کوئی بھی ممکنہ حریف روس اوراس کے اتحادیوں کے خلاف کارروائی کرے تو اسے معلوم ہوکہ اس کانتیجہ کیاہوگا”۔
دستاویزمیں روس نے واضح نہیں کیاہے کہ وہ جوہری ہتھیارکب اورکیسے استعمال کرے گاتاکہ مشرق کوروس کی اگلی چال کے بارے میں یقینی طورپرمعلومات نہ ہوں۔تاہم اس تجدید شدہ ڈاکٹرائن میں یہ ضروربتایاگیاہے کہ پیوٹن روایتی جھڑپوں میں بھی جوہری ہتھیاروں کااستعمال کرسکتے ہیں۔ڈاکٹرائن کی تبدیلیوں پرمہینوں سے کام ہورہاتھا۔یہ محض ایک اتفاق نہیں ہے کہ منگل کوکیے جانے والایہ اعلان امریکاکے یوکرین کوروس کے خلاف طویل فاصلہ طے کرنے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت کے بعدکیاگیا ہے۔
روسی جوہری ڈاکٹرائن کی تازہ ترین تبدیلیوں کے مطابق اگرایک غیرجوہری ریاست کوروس پرحملہ کرنے کیلئے ایک جوہری طاقت کی حمایت حاصل ہے،تواسے روس پرمشترکہ حملہ تصورکیاجائے گا۔اب ان تبدیلیوں کے تحت روس پرروایتی میزائلوں، ڈرونزیاہوائی جہازوں سے بڑاحملہ روس کی جانب سے جوہری ردعمل کے معیارپرپورااترسکتاہے۔مثال کے طورپراگربیلاروس پر حملہ ہویاروس کی خودمختاری کوکوئی سنگین خطرہ لاحق ہوتووہ جوہری ردعمل دے سکتاہے۔اس تبدیلیوں کے بعدروس کے خلاف کسی ایسے ملک کی جارحیت جو کسی اتحادکارکن ہو،ماسکوپورے گروپ کی طرف سے جارحیت تصورکرے گا۔یعنی جوہری نظریے میں تبدیلیوں کے مطابق ممکنہ جوہری ردعمل کے دائرے میں آنے والے ممالک ، اتحادوں،اورفوجی خطرات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
پیوٹن پہلے بھی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دے چکے ہیں جس پریوکرین نے تنقید کرتے ہوئے اسے”جوہری دھمکی” قرار دیا تھا اوراسے اپنے اتحادیوں کومزیدمددفراہم کرنے سے روکنے کی روسی کوشش کہاتھاتاہم روسی وزیرخارجہ سرگئی لارف نے کہاہے کہ”ہم اس بات کے سخت حامی ہیں کہ جوہری جنگ سے ہرحال میں بچاجائے۔ریوڈی جنیرو میں جی20اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس میں سرگئی لاروف نے کہاکہ اس گروپ نے جس میں روس بھی شامل ہے،ایک اعلامیے پردستخط کیے ہیں جس میں واضح طورپرکہا گیاہے کہ”ہم ایک ایسی دنیاکی طرف بڑھناچاہتے ہیں جوجوہری ہتھیاروں سے پاک ہو”۔جوہری ڈاکٹرائن میں تبدیلی کے حوالے سے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہاکہ” دوسری اقوام ان تبدیلیوں کابغورمطالعہ کریں۔یہ ایک انتہائی اہم تحریرہے اس کابغورتجزیہ کریں”۔
اہم مغربی خبررساں اداروں نے یوکرین کی جانب سے روس کے خلاف آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم کے استعمال کی تصدیق کی ہے کہ امریکاکی جانب سے یوکرین کوطویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائلوں کے ذریعے روس پر حملوں کی اجازت دینے کے ایک دن بعد،یوکرین نے پہلی باریہ میزائل روسی علاقے کے اندرکسی ہدف پرداغ دیے ہیں۔اس حملے میں شمال میں یوکرین کی سرحد سے متصل روس کے برائنسک کے علاقے کونشانہ بنایا گیا ہے۔
روسی وزارت دفاع نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ یوکرین کی جانب سے یہ میزائل حملہ مقامی وقت کے مطابق 03:25 پرکیاگیا۔اس حملے میں پانچ میزائلوں کو مار گرایاگیااورایک میزائل کونقصان پہنچاجبکہ اس کے کئی ٹکڑوں سے علاقے میں موجود ایک روسی فوجی تنصیب میں آگ لگ گئی اوراس آگ کوفوری طورپربجھادیاگیااورکوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔اس سے قبل یوکرین کی فوج نے تصدیق کی تھی کہ روسی علاقے کراچیف کے قریب سرحدسے100کلومیٹردورایک اسلحہ ڈپو پرہونے والے حملے میں12دھماکے ہوئے۔اس نے روسی علاقے برائنسک میں گولہ بارودکے گودام کونشانہ بنایاتاہم اس نے یہ واضح نہیں کیاتھا کہ آیاان میں آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم کااستعمال کیاگیاتھا۔ادھرروس کے وزیرخارجہ سرگئی لاورف نے واشنگٹن پرتنازع کوبڑھانے کاالزام عائدکیاہے۔انوں نے کہا کہ”برائنسک کے خطے میں گذشتہ رات باربارامریکی میزائلوں کااستعمال کیاگیاجویقینااس بات کااشارہ ہے کہ وہ(امریکا)کشیدگی بڑھاناچاہتے ہیں۔جیساکے پیوٹن کئی بارکہہ چکے ہیں کہ امریکیوں کے بغیر،ان ہائی ٹیک میزائلوں کااستعمال ناممکن ہے ۔ روس”یہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھے گاکہ ان میزائلوں کوامریکی فوجی ماہرین چلارہے ہیں”۔
انہوں نے ریو ڈی جنیرومیں جی20کے اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ”ہم اسے روس کے خلاف مغربی جنگ کے ایک نئے چہرے کے طورپرلیں گے اورہم اس کے مطابق ردعمل ظاہرکریں گے”۔یادرہے کہ یوکرین پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصے سے روس کے زیرقبضہ یوکرینی علاقوں میں ان میزائلوں کا استعمال کررہاہے۔یہ میزائل300کلومیٹر تک کے اہداف کونشانہ بناسکتے ہیں اورانہیں روکنامشکل ہے۔کیئواب میزائلوں کااستعمال کرتے ہوئے روس میں اندرتک حملہ کرنے کے قابل ہے،بشمول کرسک کے علاقے کے ارد گرد،جہاں یوکرین کی افواج ایک ہزارمربع کلومیٹرسے زیادہ علاقے پرقابض ہیں۔ یوکرین اور امریکی حکام مبینہ طورپرخطے میں جوابی کارروائی کی توقع رکھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ روس کی طرف سے جوابی حملے کی صورت میں رخصت ہونے والے امریکی صدرجوبائیڈن نے جوکانٹے بچھادیئے ہیں، ٹرمپ اپنادامن ان سے کیسے بچائیں گے کہ انہوں نے تونہ صرف امریکی عوام سے بلکہ پوری دنیاکے سامنے جنگیں بند کروانے کا عہد کیا ہے! کیاٹرمپ اپناوعدہ پوراکرسکیں گے یاپھرجنگی مافیاکے احکام پر سرجھکاکرپرانی تنخواہ پرکام کرنے میں اپنی عافیت سمجھیں گے اوردنیاایک بار پھراس کوٹرمپ کی بڑھک سمجھ کراگلے انتخاب کاانتظارکریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔