آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے دورہ آسٹریلیا کے دوران ان سے ملاقات میں آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے کینیڈا میں سکھوں کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سکھ برادری سمیت دیگر لوگوں کو آسٹریلیا میں محفوظ پناہ اور احترام کا حق ہے، ہم کینیڈا کے عدالتی عمل کا احترام کرتے ہیں اور ان واقعات کی صاف و شفاف تحقیق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور تمام ممالک کی خودمختاری جیسے معاملات کے سلسلے میں ایک اصولی موقف موجود ہے۔کینیڈا واحد ملک نہیں جس نے بھارتی اہلکاروں پر غیر ملکی سرزمین پر قتل کی سازش کرنے کا الزام لگایا۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر سمیت کئی سکھ رہنماؤں کے ناموں پر مشتمل فہرست دی گئی تھی۔ کینیڈا کی حکومت نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل کا حکم بھارتی انٹیلی جنس نے دیا تھا۔بھارت کی دیگر ممالک میں تخریب کاری اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ خفیہ ایجنسی ”را” کے عالمی سطح پر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے دہشت گردانہ منصوبے نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ نے بھارت کی ایک نہ سنی اور بھارتی احتجاج کے باوجود نیوزی لینڈ کی حکومت نے سکھ فار جسٹس کو خالصتان کے قیام کیلئے ریفرنڈم کرانے کی اجازت دے دی۔ نیوزی لینڈ کی حکومت کی اجازت سے خالصتان کے قیام پر آکلینڈ میں ریفرنڈم ہو گیا۔ اس سے قبل برطانیہ کے علاوہ کینیڈا اور آسٹریلیا کے شہروں میں بھی ایسے ریفرنڈم منعقد کئے جا چکے ہیں۔ ریفرنڈم کا انعقاد آکلینڈ کے مرکزی علاقے او ٹی سکوائر پر ہو ا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ریفرنڈم سے بھارت اور نیوزی لینڈ کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔آکلینڈ کے مرکز میں واقع او ٹی سکوائر پر خالصتان ریفرنڈم کے لیے صبح نو بجے ووٹنگ کا آغاز ہوا۔ دیگر شہروں سے بھی سکھ کمیونٹی کی بڑی تعداد کوچز کے ذریعے آکلینڈ پہنچی۔ ووٹنگ سے پہلے دعائیہ تقریب رکھی گئی جس میں خالصتان کے قیام کے لیے دعائیں کی گئیں اور بھارت کے ہاتھوں مارے گئے تحریک کے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ سکھ شہریوں نے خالصتان کے حق اور بھارت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ خواتین اور معمر افراد نے بھی قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ ریفرنڈم کے مقررہ وقت میں ایک گھنٹے کا اضافہ کرنا پڑا۔ 37 ہزار سے زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ سکھ فار جسٹس کے کونسل جنرل گرپتونت سنگھ پنوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہا کہ نام نہاد جمہوری ملک کا دعویدار بھارت ووٹ پر یقین رکھنے والوں کا مقابلہ گولی سے کرتا ہے۔ مودی اور امیت شا کی سیاسی موت سکھوں کے ہاتھوں لکھی ہے۔ ریفرنڈم کا اگلا مرحلہ آئندہ برس 23 مارچ کو لاس اینجلس میں ہوگا۔سکھ گولی کا جواب گولی سے دے سکتے ہیں لیکن ہمارا مشن آزادی یا شہادت ہے۔
خالصتان کا پہلا باضابطہ مطالبہ 29 اپریل 1986 کو عسکریت پسند تنظیموں کی یونائیٹڈ فرنٹ پنتھک کمیٹی نے کیا تھا۔اس کا سیاسی مقصد یوں بیان کیا گیا: ‘اس خاص دن پرمقدس اکال تخت صاحب سے، ہم تمام ممالک اور حکومتوں کے سامنے اعلان کر رہے ہیں کہ آج سے ‘خالصتان’ خالصہ پنتھ کا الگ گھر ہو گا۔ خالصہ اصولوں کے مطابق تمام لوگ خوشی اور مسرت سے زندگی گزاریں گے۔”ایسے سکھوں کو حکومت چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ داری دی جائے گی، جو سب کی بھلائی کے لیے کام کریں گے اور اپنی زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزاریں گے۔’اب خالصتان کا مطالبہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سے سکھوں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ان ممالک میں رہنے والے سکھوں کی بہت سی تنظیمیں جو اس مسئلے کو مسلسل اٹھا رہی ہیں، لیکن پنجاب میں انھیں زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے۔سکھس فار جسٹس امریکہ میں مقیم ایک گروپ ہے۔ بھارتی حکومت نے 10 جولائی 2019 کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اس پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ اس تنظیم کا علیحدگی پسند ایجنڈا ہے۔اس کے ایک سال بعد 2020 میں بھارتی حکومت نے خالصتانی گروپوں سے وابستہ نو افراد کو دہشت گرد قرار دیا اور تقریباً 40 خالصتان نواز ویب سائٹس بند کر دیں۔سکھس فار جسٹس کے مطابق ان کا مقصد سکھوں کے لیے ایک خود مختار ملک بنانا ہے، جس کے لیے گروپ سکھ برادری کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سکھس فار جسٹس کا قیام سال 2007 میں امریکہ میں عمل میں آیا۔ اس گروپ کا مرکزی چہرہ گروپتونت سنگھ پنوں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت ہی کیوں خالصہ تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ تو جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی اور منظم تحریک ہے جو ہندوستان کی ریاست کو مذہبی انتہا پسندانہ پیرائے میں چلانا چاہتی ہے۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا اور یہی سوچ اور تحریک ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اْسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی ایک انتہاپسندانہ جارحانہ مذہبی تاثر دیا گیا۔ اس جارحیت کا جواب کسی نہ کسی شکل میں آنا تھا۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ ہندو مذہبی احیاء کے سہارے ریاست چلانا چاہیں گے تو پھر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی مزید آزاد ریاستوں کا مطالبہ کریں گے۔