پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
جوں جوں دن گزر رہے ہیں، ملک کے حالات بھی خراب ہوتے جارہے ہیں اور عوام میں بے چینی بھی بڑھتی جارہی ہے اور اوپر سے فضائی آلودگی ہے جوحکومت کے کنٹرول میں نہیں آرہی اور دوسری وہ بدتمیزی ہے جو کسی کے بھی بس میں نہیں رہی اوراسی بدتمیزی کا ذکر گزشتہ روز سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے بھی کیا ہے کہ لوگ ہمارا پیچھا کرتے ہیں ،گالیاں نکالتے ہیں، انڈے اور ٹماٹر پھینکتے ہیں۔ میاں نواز شریف کا یہ شکوہ جائز ہے کہ اب لوگوں کے اندر برداشت نہیں رہی۔ میاں صاحب کو شاید یاد ہو کہ ایک دور تھا جب ہماری سیاست بڑی معتدل ہوا کرتی تھی ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا تھا اور دشمنی میں بھی اس حد تک آگے نہیں جایا جاتا تھا، جہاں سے واپسی کا راستہ ناممکن ہوجائے اور پھر آپ ہی کی جماعت نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی نازیبا تصاویر لوگوں کو دکھائی، انہیں کیا کیا کچھ نہ کہا گیا اس کے علاوہ جو جو ہوا وہ ناقابل بیان ہے ۔میاں صاحب کے اسی شکوہ پر فرزند راولپنڈی شیخ رشید نے بھی چپ کا روزہ توڑتے ہوئے فرمایا ہے کہ حکمرانوں کو پتہ ہی نہیں غریب کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ حکومت نے عوام میں رنج وغم اور نفرت پھیلائی ہے اور نوازشریف کہہ رہے ہیں کہ انہیں انڈے اور ٹماٹر مارے جا رہے ہیں ۔کیا عوام آپ کو گلاب کے پھول ماریں۔
اسی طرح ملکی سلامتی کے حوالے سے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا بیان بھی قابل غور ہے، جس کا آخر میں ذکر کرونگا۔ پہلے میاں صاحب کے شکوہ پر بات ضروری ہے کیونکہ بہت عرصہ بعد انہوں نے کھل کر اس موضوع پر بات کی ہے ۔حالانکہ اس صورتحال کا انہیں بہت دیر سے سامنا ہے۔ لندن میں ان کا گھر سے نکلنا مشکل ہوچکا ہے بلکہ پاکستان میں بھی وہ کسی عوامی جگہ پر نہیں جاتے، انہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے یہی گلہ ہے لیکن جب انکے بڑے بڑے ناموں والے کارکن عمران خان کو کوکین زدہ ،نشئی اوریہودی ایجنٹ سمیت کیا کیا نہیں کہا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود عمران خان عوام میں رہا نہ وہ بھاگا ،نہ اس کے پلیٹلیٹس کم ہوئے نہ اس کے مہروں میں درد ہوا اور نہ ہی وہ نشے کے بغیر بے ہوش ہوا، عمران خان جوانمردی سے جیل کاٹ رہا ہے ۔پاکستان کی تاریخ میں میاں نواز شریف خاندان سب سے زیادہ برسراقتدار رہا اور اب بھی ہے لیکن ہمارا ملک غیر ترقی یافتہ اور جہالت میں دنیا کے آخری نمبروں پر چلا گیااور تو اور عمران خان کے دور میں ہمارے پاسپورٹ کی عزت تھی اور اب پاسپورٹ کی رینکنگ کرنے والے عالمی ادارے ہینلے اینڈ پارٹنرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ مزید گراوٹ کا شکار ہوکر دنیا کے ممالک کی صف میں 102ویں نمبرپر آگیااور اب صومالیہ، یمن، بنگلہ دیش، فلسطین اتھارٹی، ایتھوپیا اور لیبیا جیسے ممالک کا پاسپورٹ بھی پاکستان سے بہتر قرار دیاگیا ہے اور اِن ممالک کے شہری دنیا کے 38ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں ،جبکہ گرین پاسپورٹ پر دنیا کے 34ممالک کا سفر بغیر ویزا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کمزور ترین پاسپورٹ رکھنے والا چوتھا ملک ہے جو پہلے یمن اور صومالیہ کے ساتھ مشترکہ طور پر 92 ویں نمبر پر تھا لیکن حکومت کے اعلیٰ کارناموں کی بدولت ہمارا پاسپورٹ اس سال 102 نمبر پر آگیا ہے۔ اس وقت سب سے کمزور پاسپورٹ افغانستان کا ہے جس پر افغان شہری 28 ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں۔ دنیا میں سنگاپور کے پاسپورٹ کو دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے جس کے شہری 195ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں دوسرے نمبر پر فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور اسپین ہیں تیسرے نمبر پر 7 ممالک ہیں جن میں آسٹریا، فن لینڈ، آئرلینڈ، لکسمبرگ، نیدرلینڈز، جنوبی کوریا اور سویڈن شامل ہیں رینکنگ میں چوتھے نمبر پر برطانیہ، بلجیم، ڈنمارک، نیوزی لینڈ، ناروے اور سوئٹزرلینڈ ہیں ۔
اب کچھ باتیں شبر زیدی کی بھی کرلیتے ہیں جنہوں نے خطرے کی گھنٹی بجا کر ہمیں چوکنا کرنے کی کوشش کردی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم خواب غفلت سے باہر نکلتی ہے یا یونہی بے حس بنی رہے گی ۔شبر زیدی کا کہنا ہے کہ تین صوبے مرکز پر یقین نہیں رکھتے اگر این ایف سی ایوارڈ نہ دیا گیا تو شاید مستقبل میں تمام مالیاتی معاملات ایک صوبے کے ہاتھ میں ہوں۔ پاکستان بھی اسی وجہ سے ٹوٹا تھایہ ملک آئی ایم ایف کی شرائط پر چل رہا ہے، مانیں یا نہ مانیں ہم اس ریاست کو نہیں چلا سکتے، ہمیں حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ٹیکسوں کا نظام انتہائی خراب ہے اور اس سلسلہ میں ہماری پارلیمنٹ بھی خاموش ہے جو صرف شام 5 بجے آئینی ترمیم کر سکتی ہے۔ بھارت میں ممبئی شہر کا پراپرٹی ٹیکس پورے پاکستان کے ٹیکسوں سے زیادہ ہے ۔شبر زیدی انتہائی باصلاحیت اور سمجھدار انسان ہیں وہ پاکستان کی معیشت کو سمجھتے ہیں اور اگر انہیں کوئی ذمہ داری دی جائے تو وہ ملکی معیشت کو سنبھال بھی سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کرائے کے ارسطو بہت ہیں جو کسی اور کو آگے آنے کا موقع ہی نہیںدیتے ،رہی بات حکمرانوں اور لیڈروں کی ان میں سے کوئی بھی عوام کے سامنے جانہیں سکتا ۔عوام ان سے بے زار اور تنگ ہیں۔ شاید اسی لیے جہاں کوئی لیڈر ملتا ہے اس پر گالیوں کی بارش کردیتے ہیں حالانکہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے اور جمہوریت میں عوام ووٹ دے کر لوگوں کو حکمران بناتی ہے۔ اس لیے عوامی لیڈروں کو عوام کے اندر رہنا چاہیے تاکہ عوام کی مشکلات اور دکھ درد کا احساس ہوتا رہے، مگر یہاں پر کوئی بھی لیڈر عوام میںجانہیں سکتا ۔اگر چلا بھی جائے تو پھر میاں نواز شریف صاحب کی طرح شکوے کرتا ہی نظر آئے گا۔ عوام کے اس طرح کے جذبات سے ثابت ہوتا ہے کہ اب عمران خان کے علاوہ کوئی لیڈر نہیں ہے جو عوام میں جاسکے جسے انڈے اور ٹماٹروں کی بجائے پھول پیش کیے جاسکیں، ویسے تو اس وقت ہم ایک ایسے جمہوری دور سے گزر رہے ہیں جہاں آمریت سے زیادہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ شائد اسی لیے جب بھی کوئی لیڈر باہر نکلتا ہے تو وہ پولیس اور پروٹوکول کے حصار میں باہر نکلتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے گھر سے دفتر تک جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر سڑک کے ذریعے سفر کرنے کو دل کرے تو پھر پوری سڑک پر تاحد نگاہ کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ بہرحال حالات اچھے نہیں ہیں اور بتانے والے بتا بھی رہے ہیں کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ ہمیںخبر نہیں ہوئی ۔