صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو جیت کا یقین ہے!
شیئر کریں
جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس میں کانٹے کا مقابلہ جاری ہے۔ امریکہ کی صدارت کے لیے امیدوار بننے سے کہیں پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار ملک کے مشہور اور رنگین ارب پتیوں میں ہوتا تھا۔ ایک زمانے میں ان کے امریکہ کے صدر بن جانے کو ایک ایسی بات سمجھا جاتا تھا جس پر یقین کرنا مشکل ہو لیکن اب 78 سالہ ٹرمپ تیسری بار صدارتی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں جب ٹرمپ 2016 میں پہلی بار صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے تو ان کی امیدوار بننے کے بارے میں بہت سے سوالات تھے اور ان کی کامیابی کے بارے میں شبہ کی بہت سی وجوہات بھی تھیں ۔ان کی انتخابی مہم میں تارکین وطن پر سختی سب سے اہم مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ ان کی بطور ایک مشہور شخصیت زندگی بھی سوالوں میں گھری ہوئی تھی لیکن انہوں نے تمام پیشگوئیوں کو غلط ثابت کیا ،اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں بے باک مہم کی مدد سے تجربہ کار سیاستدانوں کو پچھاڑدیا اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر انہوں نے ہیلری کلنٹن کے خلاف صدارتی انتخابی جیت لیا ان کا پہلا صدارتی دور تنازعات سے بھرپور رہا جس کے باوجود انہوں نے حیران کن طریقے سے سیاسی میدان میں واپسی اختیار کی اور حالیہ مہم انہیں ایک بار پھر امریکہ کے وائٹ ہاؤس پہنچا سکتی ہے۔
نیورک میں جائیداد کے کاروبار سے منسلک فریڈ ٹرمپ کے بچوں میں ٹرمپ کا چوتھا نمبر تھا۔ بے پناہ خاندانی دولت کے باوجود انہوں نے اپنے والد کی کمپنیوں میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کی اور جب ڈونلڈ ٹرمپ 13سال کے تھے تو ان کے والد کو ان کے کمرے میں ایک بٹن سے کھلنے والا چاقو ملا تو انہوں نے فورا ان کی اصلاح کے لیے انہیں ملٹری اسکول روانہ کر دیا۔ 1964میں اسکول سے فارغ ہونے کے بعد گلیمر کی دنیا سے بہت زیادہ متاثر ہونے کے سبب ان کے ذہن میں فلم اسکول جانے کا خیال مچلنے لگا لیکن انہوں نے فورڈ ہم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر دو سال بعد پینسلواینیا یونیورسٹی کے وارٹن بزنس اسکول منتقل ہو گئے۔ یہیں سے وہ کاروبار سنبھالنے کے لیے اپنے والد کے پسندیدہ اولاد بنے انہیں ان کے بڑے بھائی فریڈ ٹرمپ جونیئر پر ترجیح دی گئی تھی جنہوں نے پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا تھا اور پھر 43برس کی عمر میں کثرت شراب نوشی کی وجہ سے وہ وفات پا گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہتے رہے ہیں کہ بھائی کی موت ان کی شراب اور سگریٹ ترک کرنے کی وجہ سے بنی۔ جائیداد کی تعمیر اور خرید و فروخت کے کاروبار میں قدم رکھنے کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے 10 لاکھ ڈالر قرض لے کر کاروبار شروع کیا اور بعد میں وہ خود ان کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کمپنی کے کاروبار کو نیویارک شہر میں بروکلین اور کوینز میں رہائشی عمارتوں کی تعمیر سے مین ہٹن میں بڑی تعمیراتی منصوبوں تک پہنچا دیا ۔انہوں نے قدیم کبوڈور ہوٹل کو گرینڈ حیات میں تبدیل کیا اور ففتھ ایونیو پر علاقے کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک 68منزلہ دی ٹرمپ ٹاور بنایا۔اس کے بعد وہ اپنے خاندانی نام پر ہی ایک ایک کر کے عمارتیں تعمیر کرتے رہے۔ ٹرمپ پیلس، ٹرمپ ورلڈ ٹاور، ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اینڈ ٹاؤر ۔یہ فہرست طویل ہے اور آج ممبئی استنبول اور فلپائن میں بھی ٹرمپ ٹاورز موجود ہیں۔ فوربز کے مطابق ٹرمپ کی کل اثاثوں کی مالیت چار ارب ڈالر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تین مرتبہ شادی کی۔ تاہم ان کی سب سے مشہوراہلیہ ایونازیلس کوتھیں جو کہ ایک چیک ماڈل اور ایتھلیٹ تھیں۔ ان کے تین بچے ہوئے ۔ڈونلڈ جونیئر ایوانکا آور ایرک ٹرمپ کے لیے 1990میں ان کی اہلیہ سے بہت ہی مہنگی طلاق پر ختم ہوا کیونکہ ان کی اہلیہ کو ان کے ایک معاشقے کا علم ہو گیا تھا۔ 1993میں ٹرمپ نے اداکارہ مارلا میںپلز سے شادی کی ۔ان کی ایک بیٹی ٹیفنی ہے اور یہ شادی بھی 1999 میں طلاق پر ختم ہوئی۔ ٹرمپ نے سلووینیا سے تعلق رکھنے والی اپنی موجودہ اہلیہ میلانیا ناس سے 2005میں شادی کی اور ان کا ایک بیٹا بیرن ولیم ٹرمپ ہے۔ تاہم غیر ازدواجی تعلقات سے اور جنسی نوعیت کے الزامات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ رواں سال دو مختلف عدالتوں میں جیوری نے فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ مصنفہ ایجین کیرول کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تردید کر کے ہتک عزت کے مرتکب ہوئے ہیں اور ٹرمپ کو مجموعی طور پر 88ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کو بھی کہا گیا ۔وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر چکے ہیں ٹرمپ کا ایک اورتنازع اسٹوری ڈینل نامی پورن انڈسٹری کی ایک سابق اداکارہ سے جڑا ہے، جن کا دعویٰ ہے کہ 2006میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے ساتھ سیکس کیا اور پھر صدارتی امیدوار بن جانے کے بعد ٹرمپ نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر اس شرط پر ادا کیے کہ وہ ٹرمپ سے تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔ اس ادائیگی کو چھپانے کے الزامات میں ٹرمپ کو مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔
1980میں نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں 34 سالہ ٹرمپ کہتے ہیں کہ سیاست اوچھی زندگی ہے اور یہ کہ زیادہ باصلاحیت لوگ کاروباری دنیا کا رخ کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا شمار ان افراد میں کیا جاتا ہے جنہوں نے سابق امریکی صدربارک اوبامہ کی جائے پیدائش سے جڑے سازشی نظریے کا شدت سے پرچار کیا اور 2016تک انہوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ سب جھوٹ پر مبنی تھا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار کرنے پر کبھی معافی نہیں مانگی۔ جون 2015میں ٹرمپ نے باضابطہ طور پر وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کی کوشش کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ امریکی خواب مر چکا ہے ۔تاہم انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس خواب کو زندہ کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے صدارتی دوڑ میں شامل ہوتے ہوئے اپنی دولت اور کاروباری کامیابیوں کو گنو ایا میکسیکو پر منشیات جرائم اور ریپ کرنے والے سرحد پار بھیجنے کا الزام دھرا اور ساتھ ہی ساتھ وعدہ کیا کہ وہ میکسیکو سے جڑی سرحد پر باڑھ لگا کر سبق سکھا دیں گے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹرمپ مداحوں اور نقادوں کی برابر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کے نعرے کے ساتھ انہوں نے ریپبلکن پارٹی میں تمام حریفوں کو باسانی پچھاڑ دیا۔ یوں ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ہیلری کلنٹن کے سامنے آ کھڑے ہوئے تا ہم تمام تر اندازوں اور تجزیہ کاروں کو ٹرمپ نے ایک تجربہ کار سیاستدان کو حیران کن طریقے سے شکست دیتے ہوئے غلط ثابت کیا اور 20جنوری 2017کو امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہو گئے ۔امریکہ کا اگلا صدر منتخب کرنے کے لیے امریکی ووٹر پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں ووٹ دیں گے۔ ابتدائی طور پر تو یہ انتخاب 2020کے صدارتی انتخابات کا ری میچ لگ رہے تھے تاہم جولائی میں صورتحال نے پلٹا اس وقت کھایا جب صدر جو بائیڈن نے اس دوڑ سے دستبردار ہوتے ہوئے نائب صدر کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس انتخاب کا نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار صدر بنائے گا یا امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون صدر بنے گی ۔صدر جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے فیصلے کے روز تک رائے عامہ کے تمام جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ برتری حاصل کیے ہوئے نظر آرہے تھے اور جو بائیڈن کی دستبرداری کے بعد جائزوں میں بھی کہا گیا کہ کملا ہیرس کے آنے سے بھی نتائج میں زیادہ بہتری کی توقع نہیں ہوگی۔ امریکہ میں سات ریاستیں ایسی ہیں جنہیں سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے یعنی یہاں صدارتی انتخاب میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے اور یہاں سے سامنے آنے والے جائزوں اور پولز کے نتائج کافی مسا بقانہ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ ان سات ریاستوں میں کون آگے ہے اورکسے برتری حاصل ہے۔ اس میں کلیدی اہمیت کی حامل ریاست پنسلوانیا بھی شامل ہے ۔کیونکہ یہاں سب سے زیادہ انتخابی ووٹ مسلمانوں کے ہیں اور اس ریاست میں کامیابی کے ذریعے فتح کے لیے در کار 270ووٹوں تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے کم مقبول صدر جو بائیڈن سے ٹرمپ کا مقابلہ ہونا تھا لیکن وہ الیکشن سے دستبردار ہو گئے ۔جس کے بعد ان کی جماعت نے نائب صدر کملا ہیرس کو نامزد کیا ۔ٹرمپ نے تب سے کملا ہیرس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ تاہم سروے دکھاتے ہیں کملا ہیرس نے بھی مقبولیت حاصل کی ہے اور اس وقت دونوں میں سخت مقابلہ ہے ۔ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہہ رکھا ہے کہ پانچ نومبر 2024جو الیکشن کا دن ہوگا ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے اہم دن ہوگا۔ ٹرمپ کو یقین ہے کہ وہ یہ انتخابات آسانی سے جیت جائیں گے اور زمینی حقائق کچھ اسی طرف اشارے کر رہے ہیں جبکہ مسلمانوں سمیت پاکستانیوں کی اکثریت ٹرمپ کو ووٹ دینے کے حق میں ہے۔